"خالد بن سعید بن العاص" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Tahir697 نے صفحہ خالد بن سعید کو خالد بن سعید بن العاص کی جانب منتقل کیا
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 2:
 
=== نام ونسب ===
خالدؓنام،ابوسعیدکنیت،سلسلہخالدؓنام، ابوسعیدکنیت، سلسلہ نسب یہ ہے،خالدبنہے، خالدبن سعید بن العاص بن امیہ ابن عبد شمس بن عبدمناف بن قصی قرشی اموی،نانہالیاموی، نانہالی تعلق ثقیف سے تھا۔
<ref>(اصابہ:۶6/۱۳۲132)</ref>
 
=== اسلام ===
حضرت خالدؓ ان خوش نصیب بزرگوں میں ہیں جو اس وقت مشرف باسلام ہوئے، جب چند بندگان اللہ کے سوا ساری دنیا توحید کی آواز سے نا آشنا تھی،انتھی، ان ہی کے اسلام سے ان کے گھر میں اسلام کی روشنی پھیلی،انپھیلی، ان کے اسلام کا واقعہ یہ ہے کہ دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں انہوں نے خواب دیکھا کہ یہ ایک آتشیں غار کے کنارے کھڑے ہیں اوران کے والدان کو اس میں ڈھکیل رہے ہیں اور رسول اللہ ﷺ گلا پکڑے ہوئے روک رہے ہیں، اس خواب پریشان نے آنکھ کھول دی، گھبراکر اُٹھ بیٹھے اور بے ساختہ زبان سے نکل گیا کہ اللہ کی قسم یہ خواب حقیقت ہے،اوراسہے، اوراس کو حضرت ابوبکرؓ سے بیان کیا،انہوںکیا، انہوں نے کہا کہ تم ایک نہ ایک دن ضرور مشرف باسلام ہوگے،اسہوگے، اس لیے میں تم کو دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم فوراً حلقہ بگوش اسلام ہوجاؤ اور تمہارے والد اس آتشیں غار میں گریں گے،لیکنگے، لیکن تم کو اسلام اس میں گرنے سے بچالے گا، چنانچہ خالدؓ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھا،آپپوچھا، آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا بلا شرکت غیر خدائے واحد کی پرستش کرو، مجھ کو اس کا بندہ اور رسول مانو اور ان پتھروں کی پوجا چھوڑدو، جو تمہارے نفع اور نقصان کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتےرکھتے، ،حتیحتی کہ اس سے بھی لا علم ہیں کہ ان کی پرستش کے دعویداروں میں کون ان کی پرستش کرتا ہے اورکون نہیں کرتا،یہکرتا، یہ تعلیمات سن کر دل کے ساتھ زبان نے بھی اللہ کی وحدانیت اورآپ کی رسالت کی تصدیق کردی۔
<ref>(مستدرک حاکم:۳3/۲۴۸248)</ref>
 
=== آزمائش اوراستقامت ===
اسلام لانے کے بعد گھروالوں سے چھپ کر آنحضرتﷺ کے ساتھ دعوتِ اسلام میں مصروف ہوگئے،والدہوگئے، والد کو خبر ہوئی تو انہوں نے ان کے بھائیوں کو پکڑنے کے لیے بھیجا،وہبھیجا، وہ ان کو گرفتار کرکے لے گئے،پہلےگئے، پہلے اسلام چھوڑنے کامطالبہ ہوا، یہاں جواب صاف تھا کہ جان جائے لیکن محمد ﷺ کا مذہب نہیں چھوٹ سکتا، اس جواب پر پہلے زجر و توبیخ شروع ہوئی،جبہوئی، جب یہ بے اثر ثابت ہوئی تو زود کوب کی نوبت آئی اوراس بے دردی سے مارے گئے کہ سرپر پڑتے پڑتے لکڑی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی،جبہوگئی، جب مارتے مارتے تھک گئے تو پھر باز پرس شروع ہوئی کہ تم نے محمد ﷺ کی حرکتوں کو جانتے ہوئے ان کا ساتھ کیوں دیا؟ تم آنکھوں سے دیکھتے ہوکہ وہ پوری قوم کی مخالفت کرتے ہیں،انہیں، ان کے معبودوں اوران کے آباواجداد کو برابھلا کہتے ہیں اوراس میں تم بھی ان کی ہمنوائی کرتے ہو،مگرہو، مگر اس مار کے بعد بھی اس بادہ حق کے سرشار کی زبان سے نکلا کہ خداکی قسم! وہ جو کچھ کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور اس میں میں ان کے ساتھ ہوں، جب سنگدل باپ ہر طرح سے تھک چکا تو عاجز ہوکر قید کرکے کھانا پینا بند کردیا اور لوگوں کو منع کردیا کہ کوئی شخص ان سے گفتگو نہ کرے،چنانچہکرے، چنانچہ یہ کئی دن تک بے آب ودانہ تنہائی کی قید جھیلتے رہےرہے، ،چوتھےچوتھے دن موقع پاکر بھاگ نکلے اور اطراف مکہ میں روپوش ہوگئے۔
<ref>(طبقات ابن سعد،جز۴،قسم۱سعد، جز4، قسم1:۶۸،واستیعاب68، واستیعاب:۱1/۱۵۵155)</ref>
 
=== ہجرت حبشہ ===
جب مسلمانوں کا دوسرا قافلہ حبشہ جانے لگا تو یہ بھی اپنی بیوی امیمہ یا ہمینہ اوربھائی عمروکو ساتھ لے کر حبشہ چلے گئے،یہیںگئے، یہیں ان کے صاحبزادہ سعید اورصاحبزادی ام خالد پیدا ہوئیں۔
<ref>(اسدالغابہ:۲2/۹۱91)</ref>
 
=== ہجرت مدینہ اور غزوات ===
غزوۂ خیبر کے زمانہ میں حبشہ سے مدینہ آئے، گویہ اس میں شریک نہیں ہوئے تھے؛لیکن آنحضرت نے مال غنیمت میں ان کا حصہ بھی لگایالگایا، ،اساس کے بعد عمرۃ القضا،فتحالقضا، مکہ،حنین،طائففتح مکہ، حنین، طائف اورتبوک وغیرہ سب میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب رہے۔
<ref>(استیعاب:۱1/۱۵۴154)</ref>
ابتدائی غزوات بدرواحد وغیرہ میں شریک نہیں ہوسکے تھے،استھے، اس محرومی پر ہمیشہ متاسف رہے،آنحضرتﷺرہے، آنحضرتﷺ سے عرض کیا یارسول اللہ!ہم لوگ بدرکے شرف سے محروم رہے،آپرہے، آپ نے جواب دیا؛کہ کیا تم کو یہ پسند نہیں ہے کہ لوگوں کو ایک ہجرت کا شرف حاصل ہو اور تم کو دوکا۔
<ref>(ابن سعد،جز۴،ق۱سعد، جز4، ق1:۷۲72)</ref>
 
=== مدینہ کا قیام ===
مدینہ آنے کے بعد سے آنحضرت ﷺ نے مراسلات کا عہدہ ان کے متعلق کردیا تھا اور وہ تحریری نامہ وپیام کی خدمت انجام دیتے تھے،۹ھتھے، 9ھ میں بنوثقیف کا جو وفد آیا تھا، اس کے اورآنحضرتﷺ کے درمیان میں گفتگو کی خدمت ان ہی نے انجام دی تھی اور وفد کے مشرف باسلام ہونے کے بعد معاہدہ بھی ان ہی نے تحریر کیا تھا۔
 
=== یمن کی گورنری ===
حضرت خالدؓ کے کنبہ بھر میں حکومت کی صلاحیت تھی، اس لیے آنحضرتﷺ نے تینوں بھائیوں کو حکومت کے عہدوں پر ممتاز کیا تھا،آبانتھا، آبان کو بحرین پر، عمرو کو تیماء پر اورخالدؓ کو یمن پر مامور کیا،یہکیا، یہ تینوں تاحیات نبوی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے، آپ کی وفات کی خبر سن کر وہاں سے واپس ہوئے، حضرت ابوبکرؓ نے دوبارہ بھیجنا چاہا اور فرمایا کہ تم لوگ آنحضرتﷺ کے مقرر کردہ عامل ہو،تمہو، تم سے زیادہ کون اس عہدہ کا مستحق ہوسکتا ہے؛لیکن انہوں نے انکار کردیا اورکہا کہ ہم ابی حیحہ کی اولاد ہیںہیں، ،آنحضرتﷺآنحضرتﷺ کے بعد کسی کے عامل نہ بنیں گے۔
<ref>(استیعاب:۱1/۱۵۵155)</ref>
 
=== حضرت ابوبکرؓ کی بیعت میں تاخیر ===
خالدؓ کو ابتدا میں حضرت ابوبکرؓ کی خلافت سے اختلاف تھا،چنانچہتھا، چنانچہ دو مہینہ تک بیعت نہ کی اورحضرت علیؓ اور عثمانؓ سے جاکر کہا کہ آپ لوگوں نے غیروں کی خلافت کس طرح ٹھنڈے دل سے قبول کرلی،حضرتکرلی، حضرت ابوبکرؓ نے تو کوئی بازپرس نہیں کی ؛لیکن حضرت عمرؓ بہت برہم ہوئے، <ref>(طبری:۲۰۷۹2079)</ref> مگر پھر خالدؓ نے دو مہینے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کےحسن اخلاق سے متاثر ہوکر بیعت کرلی۔
حضرت ابوبکرؓ کے عہدِخلافت میں فتنہ ارتداد کی روک تھام میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا،مشہورلیا، مشہور مرتد عمروبن معد یکرب زبیدی کو جو اسود عنسی کے حلقہ میں تھا،زخمیتھا، زخمی کیا اوراس کی تلوار اورگھوڑا چھین لیا،مگرلیا، مگر وہ بچ کر بھاگ گیا، <ref>(ابن اثیر:۲2/۲۸۸288)</ref> فتنہ ارتداد فروہونے کے بعد شام کی فوج کشی کے سلسلہ میں حضرت ابوبکرؓ نے ان کو فوج کے ایک حصہ کا سپہ سالار بنایا؛ لیکن حضرت عمرؓ نے اختلاف کیا کہ جس شخص نے بیعت میں لیت ولعل کی ہو وہ ہر گز اعتماد کے لائق نہیں،پھرنہیں، پھر وہ کوئی ایسے نبرد آزما بھی نہیں کہ فوجی ذمہ داری ان کے سپرد کی جائے،حضرتجائے، حضرت ابوبکرؓ پہلے متردد ہوئے ؛لیکن آخری میں حضرت عمرؓ کے اصرار سے مجبور ہوگئے، تاہم معزول نہیں کیا،لیکنکیا، لیکن سپہ سالاری کےعہدہ سے تنزل کرکے تیماء کی امدادی فوج کے دستہ کا امیر بنادیا اور ان کی جگہ پر یزید بن ابی سفیان کا تقرر کیا اور خالدؓ کو یہ ہدایتیں دے کر تیماء روانہ کیا کہ راستہ میں ان مسلمانوں کو جو پہلے ارتداد کی شورش میں نہ شریک ہوئے ہوں ساتھ لے لینا اوربغیر میرا حکم ملے ہوئے خود حملہ کی ابتدانہ کرنا، رومیوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے بہت سے عربی قبائل کو لے کر مختلف اطراف میں چھاپے مارنا شروع کردیے،خالدؓکردیے، خالدؓ نے دربار خلافت میں اطلاع بھیجی، وہاں سے مقابلہ کا حکم آیا، لیکن خالدؓ کے بڑہتے بڑہتے رومی منتشر ہوگئے اور عربی قبائل جو ان کے ساتھ ہوگئے تھے،پھرتھے، پھر اسلام لے آئے،خالدؓآئے، خالدؓ نے دوبارہ اطلاع بھیجی، آپ نے حکم دیا کہ ابھی پیش قدمی جاری رکھو، مگر اس طرح کہ دشمن عقب سے حملہ نہ کرسکیں اس حکم کے مطابق یہ آگے بڑے،باہانبڑے، باہان رومی مقابلہ کو نکلا، لیکن شکست کھائی،انہوںکھائی، انہوں نے اس کی اطلاع دربار خلافت میں بھیجی، نیز مزید امدادی فوج طلب کی۔
<ref>(طبری:۴4/۲۰۷۹،۲۰۸۱2079، 2081 وابن اثیر:۲2/۲۰۸208)</ref>
اسی دوران میں عام لشکر کشی ہوئی، عکرمہ ذوالکلاع اورولید خالد کی مدد کے لیے بھیجے گئے،انگئے، ان کے پہنچتے ہی خالدؓ رومیوں کے مقابلہ میں نکلے، باہان بطریق رومی اپنی فوج کو دمشق کی طرف ہٹالیے گیا، لیکن یہ برابر بڑہتے ہوئے چلے گئے اور دمشق دواقوصہ کے درمیان میں خیمہ زن ہوئے،باہانہوئے، باہان کا مسلح دستہ تاک میں لگاہوا تھا، اس نے ہر چہارطرف سے ناکہ بندی کردی اورخود حملہ کرنے کے لیے بڑھا،راستہبڑھا، راستہ میں خالدؓ کے صاحبزادہ سعید ملے ان کو گھیر کر شہید کردیا، خالدؓ کو خبر ہوئی تو وہ ایسے سراسمیہ ہوئے کہ پیشقدمی روک کر پیچھے ہٹ آئے، اور عکرمہؓ نے ہوشیاری کے ساتھ باہان کو ان کے تعاقب سے روک دیا اور خالدؓ ذوالمروہ میں آکر مقیم ہوگئے،پھرہوگئے، پھر کچھ دنوں کے بعد مدینہ گئے،حضرتگئے، حضرت ابوبکرؓ نے ان کی کمزوری پر مناسب تنبیہ کی اور فرمایا واقعی عمرؓ اور علیؓ ان کا زیادہ تجربہ رکھتے تھے، کاش !میں نے ان کے مشورہ پر عمل کیا ہوتا، <ref>(طبری:۲۰۸۴تا۲۰۸۶2084تا2086)</ref> اس کے بعد برابر لڑائیوں میں شریک ہوتے رہے اور گذشتہ کمزوری کی تلافی میں بڑے جوش سے لڑتے تھے،چنانچہتھے، فحل،دمشقچنانچہ فحل، دمشق وغیرہ میں بڑی جانبازی دکھائی۔
 
=== شہادت ===
فحل کی مہم کے بعد اسلامی فوج نے مرج صفر کا رخ کیا،اسیکیا، اسی درمیان میں خالدؓ نے ام حکیم سے عقد کرلیا اورمرج صفر پہنچ کر بیوی سے ملنے کا قصدکیاقصدکیا، ،بیویبیوی نے کہا اس معرکہ کے بعد اطمینان سے ملنا زیادہ بہتر ہے،انہوںہے، انہوں نے جواب دیا میرا دل کہتا ہے کہ اس لڑائی میں جامجان شہادتبحق پیوں گا،غرضگا، غرض مرج صفر ہی میں بیوی سے ملاقات کی اورصبح کو احباب کی دعوت کی،ابھیکی، ابھی لوگ کھانے سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ رومی میدان میں آگئے، ایک رومی نے مبارز طلبی کی،خالدؓکی، خالدؓ مقابلہ کے لیے نکلے اورنکلتے ہی شہید ہوگئے، ان کی عروس کا یہ سبق آموز واقعہ قابل ذکر ہے کہ جزع فزع اورسوگ نشینی کے بجائے شوہر کے خون کے انتقام کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی اور مردوں کے دوش بدوش لڑکر سات رومیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔
<ref>(فتوح البلدان بلاذری:۱۲۵،تفصیل125، تفصیل ابن سعد سے ماخوذ ہے)</ref>
 
=== اولاد ===
خالد کے امیمہ یاہمینہ بنت خلف کے بطن سے دواولادیں ہوئیں، سعید اور امہ یا ام خالد،سعیدخالد، سعید خالد کی زندگی میں شہید ہوگئے تھے امہ حضرت زبیرؓ بن عوام سے بیاہی تھیں۔
خاتم نبویﷺ
خالدؓ کی انگوٹھی کا نقش بھی محمدﷺ تھا،یہتھا، یہ انگوٹھی آنحضرتﷺ نے ان سے لے لی تھی،جوتھی، جو ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں رہی۔
<ref>(استیعاب:۱1/۱۵۵155)</ref>
 
=== فضل وکمال ===
عرب کے عام دستور کے خلاف ان کو لکھنے پڑہنے میں مہارت حاصل تھی ؛چنانچہ یمن والوں کو جو امان نامہ آنحضرتﷺ نے دیا تھا، اس کی کتابت ان ہی نے کی تھی۔
<ref>(ابوداؤد :۲2/۲۵25)</ref>
 
== حوالہ جات ==