"علم رائے شماری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
0 مآخذ کو بحال کرکے 1 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.5
سطر 4:
 
== بھارت میں انتخابی حکمت عملی ==
ڈاکثر ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی نے [[بھارت]] کے انتخابات اور [[بھارتیہ جنتا پارٹی]] کی فتح پر یہ تبصرہ کیا:
{{اقتباس| [[2014ء]] کے لوک سبھاانتخابات نے یہ ثابت کردیاکہ ایک مخصوص طریقے سے ووٹوں کو تقسیم کرکے اس کا بہت کم حصہ حاصل کرنے کے باوجود حکومت سازی کی جاسکتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ 125؍کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں جہاں تقریباً 80 کروڑ رائے دہندگان موجود ہیں، ان میں سے محض ۱۶؍کروڑ رائے دہندوں کے ووٹ حاصل کرکے بی جے پی نے ۲۸۲؍حلقوں میں کامیابی حاصل کرلی جبکہ 11 کروڑ ووٹ حاصل کرنے والی کانگریس کو محض ۴۴؍سیٹوں پر سمٹناپڑا۔اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ 3 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی ملک کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بی ایس پی کو ایک بھی نشست نہیں ملی جبکہ اس سے بہت کم ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کو اچھی خاصی سیٹیں مل گئیں۔یہ وہ اعداد وشمار ہیں جن کا بنظر غائر تجزیہ کرناچاہیے اورملک کے تمام 525 [[لوک سبھا]] حلقوں کا الگ الگ تجزیہ کرناچاہیے ۔تب یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ووٹوں کی تقسیم کا آخر یہ کون سا طریقہ کار تھا جس نے ایسا نتیجہ پیداکیا۔ظاہر ہے کہ یہ ایک مخصوص انتخابی حکمت عملی ہی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ان دنوں [[بی جے پی]] کے صدر [[امت شاہ]] اس انتخابی حکمت عملی کے سب سے بڑے ماہر ہیں جو اپنی نگرانی میں ایک ایک سیٹ کی الگ الگ حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔پہلے یہ انتخابی حکمت عملی ریاستی سطح پر وہاں کے حالات ،معاملات ،مختلف ذاتوں، قبیلوں اور مذہبی اکائیوں کی تعداد پر منحصر ہواکرتی تھی ،بعد کے زمانے میں یہ حلقہ حلقہ الگ ہونے لگیں ۔اب یہ عالم ہے کہ ہر ایک حلقے کے الگ الگ بوتھ کی الگ الگ حکمت عملی تیار کی جاتی ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ملک کے ہر ایک اسمبلی حلقے میں عام طور پر 300 بوتھ ہوتے ہیں اور ہر بوتھ پر اوسطاً ایک ہزار ووٹ ہوتے ہیں ،یعنی ہر ہزار ووٹ کی الگ حکمت عملی تیارکی جاتی ہے اوراس طرح انتخابات جیتے اورہارے جاتے ہیں۔جو حکمت عملی کو مضبوطی سے اختیارکرتاہے وہ کامیاب ہوجاتاہے اورجو اس میں چوک جاتاہے وہ ناکام ہوجاتاہے۔لوک سبھاانتخاب میں تو اس حد تک محنت کی گئی کہ محض 50۔50 ووٹ حاصل کرنے کے لیے الگ الگ ٹیمیں بنائی گئیں،تب کہیں جاکر 31 فیصد ووٹ بی جے پی کو مل سکے۔یہ حکمت عملی جو اب ایک سائنس کی صورت اختیار کرگئی ہے ،اسے ’سیفالوجی ‘ اور’الیکٹورل اَرِتھ میٹک‘ یعنی انتخابی ریاضی بھی کہا جاتا ہے۔اسی بنیاد پر انتخابات سے پہلے ہی نتائج کے اندازے اور ہار اور جیت کی پیشین گوئیاں بھی کی جاتی ہیں۔<ref>[http://newsinkhabar.com/muslims-need-to-understand-the-electoral-politics/ انتخابی سیاست کو سمجھیں مسلمان]
</ref>}}