"اسلام میں توبہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.7.1) (روبالہ جمع: fi:Parannus
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 13:
خالص توبہ، یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرے،گناہ کرناچھوڑ دے، آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم کرے،اور اپنے گناہوں پر نادم ہو،اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کسی کا کوئی حق چھینا ہے یاکسی کی حق تلفی کی ہے تو اس کو اس کا حق ادا کرے،اگرکسی پر ظلم کیااور ستایا ہے تو اس سے معافی طلب کرے۔
*سچی توبہ سےبندے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔۔
جاننا چاہیے کہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دن میں سو مرتبہ اللہ کےحضوراپنے گناہوں سے معافی طلب کیا کرتے تھے، جبکہ آپ کے اگلے پچھلے سبھی گناہ معاف کردیے گئے تھے، "تمام انبیاء کرام علیھم السلام گناہوں سے ہمیشہ پاک تھے۔ اسلام کا عقیدہ ہے کہ وہ تمام معصوم تھے۔ ان سب نے نہ کبھی کوئی گناہ کیا۔ نہ کبھی ہو سکا۔ کیونکہ یہ اللہ عزوجل کا خاص انعام انبیاء کے ساتھ مخصوص تھا۔ لہٰذا وکی پیڈیا میں ترمیم کی جائے۔ قرآن پاک کی سورۃ فتح کی دوسری آیت کا مفہوم امت کے لیے ہے۔ اس کو اس معنٰی پر محمول نہ کیا جائے۔ جزاکم اللہ خیرا " بندے کو چاھیے کہ وہ کثرت سے رب کے حضوراپنے گناہوں کی معافی طلب کرے۔
* توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک کہ بندہ سکرات کے عالم میں نہ پھنچ جائے،اور جب تک کہ سو رج مغرب سے طلوع نہ ہو،،اور جان کنی کےوقت کی گئی توبہ قبول نہیں ہوگی، جیسا کہ مسند احمد میں ہے((ان اللہ یقبل توبۃ العبد ما لم یغرغر)) کہ اللہ تعالی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ اسے جان کنی کا وقت نہ آجائے، یعنی آخری سانس کےوقت کی گئی توبہ نا مقبول ہے،
* اے اللہ کے بندو! توبہ کرنےمیں جلدی کرو،کیونکہ موت کا پتہ نہیں کہ کب وہ ہمیں آ دبوچ لے گی،حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کھا تھا" اے میرے بیٹے ''تو بہ'' کرنے میں دیری مت کرنا کیونکہ [[موت]] اچانک آئے گی''۔ [[اللہ]] احکم الحاکمین کا فرمان ہے، ومن لم یتب فألئک ھم الظالمون۔ جو تو بہ نہیں کرتے وہی لوگ ظالم ہیں۔