"تبادلۂ خیال:پاکستان کے صدارتی انتخابات، 1965ء" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
«== مادر ملت انتخابی معرکہ کیوں ہاریں؟ == مادر ملت انتخابی معرکہ کیوں ہاریں؟ مح...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا
(ٹیگ: تکرار حروف)
 
سطر 17:
علما اور مشائخ میں بہت سوں نے جنرل ایوب کا ساتھ دیا۔ کئی بڑے علما جیسے صاحبزادہ فیض الحسن، علامہ احمد سعید کاظمی (غزالی دوراں) نے مادر ملت کے خلاف فتوے بھی صادر کئے۔ جماعت اسلامی البتہ کھل کر مادر ملت کے ساتھ کھڑی تھی، مولانا مودودی نے بڑے مدلل انداز میں مادر ملت کا مقدمہ لڑا۔ مولانا مودوی کو مادر ملت کی حمایت پر یہ روایتی دینی حلقے تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے۔ مولانا عبدالستار نیازی البتہ مادر ملت کے سپاہی تھے،کراچی میں مفتی محمد شفیع صاحب نے بھی دباﺅ کے باوجود ایوب خان کے حق میں بیان نہیں دیا۔منیر نیازی، حبیب جالب ، احمد مشتاق، سید قاسم محمود ، محمود شام اور دیگر ادیب بھی مادر ملت کے حق میں لکھتے رہے۔ حبیب جالب کی نظموں نے تو ملک میں تہلکہ مچا دیا۔
مادر ملت کو شکست ہونی ہی تھی، جب ملک کا طاقتور صدر اپنے تمام تر اختیارات اور انتظامیہ کے وسائل کے ساتھ انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو رہا ہے اور ملک بھر کے اہم ، طاقتور سیاستدان اس کے ساتھ کھڑے ہیں، تب جماعت اسلامی، نیشنل عوامی پارٹی ، کونسل مسلم لیگ وغیرہ کی کوششوں سے کتنا کچھ ہو سکتا تھا؟ مادر ملت نے نجی محفلوں میں کئی بار کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ حکومت مجھے جیتنے نہیں دے گی، مگر یہ جدوجہدضروری ہے اور یہ آمرانہ حکومت کو کمزور کرے گی۔ مادر ملت کی جس والہانہ انداز میں جلسوں میں پزیرائی کی گئی، اس سے واضح ہے کہ فیئر الیکشن ہوتے تو مادر ملت جیت جاتیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نتائج کے مطابق ایوب خان نے مغربہ پاکستان سے 28939 جبکہ مشرقی پاکستان سے21012 ووٹ لئے ، مجموعی ووٹ بنے 49951، جبکہ مادر ملت کو مغربی پاکستان سے 10257، مشرقی پاکستان سے18434، مجموعی طور پر28691ووٹ ملے۔ وہ الیکشن تو ہار گئیں، مگر ایوب خان کی مقبولیت کا تاثر بھی مجروح ہوا اور ان کی مضبوط حکومت ہل کر رہ گئی۔ یہ ایوب خان کے زوال کا آغاز تھا، اس کے بعد ان کی سیاسی قوت بتدریج کم ہی ہوتی گئی۔--[[صارف:امین اکبر|امین اکبر]] ([[تبادلۂ خیال صارف:امین اکبر|تبادلۂ خیال]] • [[خاص:شراکتیں/امین اکبر|شراکتیں]]) 18:06، 17 جولائی 2020ء ([[UTC|م ع و]])
 
== کون کہاں کھڑا تھا ==
 
اصل تاریخ جو ہماری نسل سے چھپا لی گئی
پاکستان میں پہلی دھاندلی 1965 کے صدارتی الیکشن میں فوج ،بیوروکریٹس، پیروں اور وڈیروں کےگٹھ جوڑ سے ہوئی جس کے بعد حق سچ کا ساتھ دینے والے کتنے ہی لوگ جنہوں نے پاکستان کیلئےسب کچھ قربان کردیا تھا غدار کہلائے۔اور کیسے کیسے لوگ معتبر بن بیٹھے ۔
صدارتی الیکشن۔1965 وہ سیاہ دن تھا جب کتّا کنویں میں گرا تھا جسے آج تک نہیں نکالا جاسکا بس ضرورتاً چند ڈول پانی نکال کر ہر کوئی اپنا راستہ ہموار کر لیتا ہے۔
فساد کی ماں 1965 کے صدارتی الیکشن پر اب کوئی بات بھی نہیں کرتا اور نہ انکے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے کہ نئی نسل کو آگہی ہو کہ کیسے اس الیکشن نے پاکستان کی تباہی کی بنیاد رکھی، کیسے اس نے پاکستان کو دولخت کرنے میں جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا اور باقی ماندہ پاکستان پر اک ایسی رجیم مسلّط کردی جس نے یہاں کبھی جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا۔
1965کےصدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود فیلڈ مارشل ایوب خان نےکی جو پہلے الیکشن۔بالغ رائےدہی کی بنیاد پر کروانےکا اعلان کر کے مُکر گئے
یہ اعلان 9اکتوبر1964 کو ہوا مگر مادر ملت فاطمہ جناح کےامیدوار بننے اور ایوب خان کے خلاف میدان میں اترنے کے بعد یہ اعلان صدرِ پاکستان کا نہیں ایوب خان کا انفرادی ‏اعلان ٹھہرا
اور سازش کےتحت یہ ذمہ داری حبیب اللہ خان پر ڈالی گئی ۔یہ پاکستان کی پہلی پری پول دھاندلی تھی۔
کابینہ اجلاس میں تو وزراء نےخوشامد کی انتہا کردی حبیب اللّہ خان نےفاطمہ جناح کو ایبڈو کرنےکی تجویز دی ، اگر یہ تجویز منظور کر کے مس فاطمہ جناح کو غدّار قرار دے دیا جاتا تو پاکستان کی تاریخ کا بھیانک سانحہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وحید خان نےجو وزیر اطلاعات اور کنویشن لیگ کےجنرل سیکرٹری تھےتجویز دی کہ ایوب
‏کو تاحیات صدر قرار دینےکیلئے ترمیم کی جائے ایوب خان کےمنہ بولے بیٹے ذوالفقار بھٹو نے مس جناح کو بڑھیا اور ضدی کے القابات سے نوازا۔
دوسری طرف جماعت اسلامی کے مولاناابوالاعلی مودودی ، سندھ سےجی ایم سید اور صوبہ سرحد سےخان عبدالغفار خان نے جبکہ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب نےکھل کر فاطمہ جناح کی حمایت کی۔
‏پنجاب کےتمام سجادہ نشینوں نے سوائے پیر مکھڈ صفی الدین کےفاطمہ جناح کےخلاف فتویٰ دیا۔
ایوب خان کی انتظامی مشینری نے دھاندلی کا منصوبہ ترتیب دیا اور الیکشن تین طریقوں سےلڑنےکا فیصلہ کیا
پہلا مذھبی سطح پر
جس کےانچارج پیر آف دیول شریف تھے جنہوں نےمس جناح کےخلاف فتوے نکلوائے
*دوسرا انتظامی سطح پر
چونکہ 62 کےآئین کے تحت ایوب خان کو یہ سہولت میسرتھی کہ وہ تب تک صدر رہ سکتےتھےجب تک انکاجانشین نہ منتخب ہو جائے ۔لہذا اک حاضر سروس طاقتور صدر کے حق میں پوری سرکاری مشینری استعمال کی گئی۔ جسکا نتیجہ یہ ہےکہ آج بھی الیکشن سرکاری ملازمین کےدباؤ سےجیتےجاتے ہیں
*تیسری سطح پر*
مس جناح کےحامیوں پر جھوٹے مقدمات درج کئےگئے ۔عدالتوں سے ‏انکے خلاف فیصلے لئے گئے
اور یہی عدلیہ کےتابوت میں پہلی اور آخری کیل ثابت ہوئی جو آج تک ٹھکی ھوئی ہے
سندھ کےتمام جاگیردار گھرانے ایوب خان کےساتھ ھو گئے تھے۔
بھٹو فیملی ،جتوئی فیملی ،محمدخان جونیجو فیملی ،ٹھٹھہ کے شیرازی ،خان گڑھ کےمہر
نواب شاہ کےسادات ،بھرچونڈی۔۔رانی پور
‏ہالا👈کے اکثر پیران کرام، ایوب خان کے ساتھ تھے
سوائے کراچی میں گہری جڑیں رکھنےوالی جماعت اسلامی ،اندرون سندھ کےجی ایم سید_ حیدرآباد کےتالپور برادران ،بدین کے فاضل راہو اور رسول بخش پلیجو
مس جناح کےحامی تھے ۔تاریخ کا جبر دیکھیں یہی لوگ بعد میں پاکستان کےغدار بھی ٹہراےُ گئے
پنجاب کےتمام گدّی نشین اور صاحبزادگان و سجادہ نشین سوائےپیر مکھڈ۔صفی الدین
باقی سب ایوب خان کےساتھ ھو گئےتھے
سیال شریف کےپیروں نےتو فاطمہ جناح کےخلاف فتوی بھی دیا تھا۔
پیر آف دیول نےداتادربار پر مراقبہ کیا اور فرمایا کہ داتا صاحب نےحکم دیا ہےایوب خان کو کامیاب کیاجائے ‏ورنہ خدا پاکستان سےخفا ہوجائے گا۔
آلو مہارشریف کےصاحبزادہ فیض الحسن نےعورت کےحاکم ہونے کےخلاف فتوی جاری کیا
مولانا عبدالحامد بدایونی صدر جمعیت علماء پاکستان نےفاطمہ جناح کی نامزدگی کو شریعت سےمذاق اورناجائز قرار دیا
مولانا حامدسعیدکاظمی کےوالد علامہ احمد سعید کاظمی نے ‏ایوب خان کو ملت اسلامیہ کی آبرو قرار دیا
یہ وہ لوگ تھے جو دین کےخادم ہیں
لاھور کےمیاں معراج الدین نے
فاطمہ جناح کےخلاف جلسہ منعقد کیاجس سےمرکزی خطاب عبدالغفار پاشا اور وزیر بنیادی جمہوریت نےخطاب کیا
معراج الدین نے فاطمہ جناح پر اخلاقی بددیانتی کا الزام لگایا موصوف موجودہ بیمار
‏وزیر صحت یاسمین راشد کےسسر تھے۔
گجرانوالہ کےغلام دستگیر نے مس جناح کی تصویریں کتیا کےگلے میں ڈال کر پورے گجرانوالہ میں جلوس نکالے
میانوالی کی ضلع کونسل نےفاطمہ جناح کےخلاف قرار داد منظور کی۔
مولانا غلام غوث ہزاروی سابق ناظم اعلی مجلس احرار اور مرکزی رہنماء جمعیت علمائےاسلام ‏نےکھل کر ایوب خان کی حمایت کا اعلان کیا اور دعا بھی کی۔
پیر آف زکوڑی نےفاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام سےمذاق قرار دیکر عوامی لیگ سے استعفی دیا۔اور ایوب کی حمایت کا اعلان کیا
دوسری طرف جماعت اسلامی
کےامیر مولانا سید ابوالاعلی مودودی کا ایک جملہ زبان زد عام ہوگیا
ایوب خان میں ‏اسکے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہیں اورفاطمہ جناح میں اسکے سوا کوئی کمی نہیں کہ وہ عورت ہیں۔
بلوچستان میں مری سرداروں اور جعفر جمالی ظفر اللہ جمالی کے والد صاحب کوچھوڑ کر
سب فاطمہ جناح کےخلاف تھے
قاضی محمد عیسی جسٹس فائز عیسی کےوالد مسلم لیگ کا بڑا نام ‏بھی فاطمہ جناح کےمخالف اور ایوب خان کےحامی تھے
انہوں نےکوئٹہ میں ایوب خان کی مہم چلائی
حسن محمود نےپنجاب اور سندھ کے۔روحانی خانوادوں کو ایوب کی حمایت پرراضی کیا
پورا مشرقی پاکستان غدار ٹہرا کہ وہ سب مس جناح کےساتھ تھے
خطۂ پوٹھوہار کے۔تمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کےساتھ تھے
‏برئگیڈئر سلطان والد چودھری نثار، ملک اکرم دادا امین اسلم، ملکان کھنڈا۔کوٹ فتح خان۔
پنڈی گھیب۔تلہ گنگ۔ایوب کےساتھ تھے اسکی وجہ یہاں کے سب لوگ فوج سے وابستہ تھے سوائےچودھری امیر۔اور ملک نواب خان کے جن کو الیکشن کےدو دن بعد قتل کردیا گیا۔
شیخ مسعود صادق نےایوب خان کی لئےوکلاء
‏کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا کئی لوگوں نےانکی حمایت کی ،پنڈی سے راجہ ظفرالحق بھی ان میں شامل تھے
اسکے علاوہ میاں اشرف گلزار بھی فاطمہ جناح کےمخالفین میں شامل تھے
صدارتی الیکشن۔1965 کے دوران گورنر امیر محمد خان صرف چند لوگوں سے پریشان تھے
ان میں سرفہرست سید ابوالاعلی مودودی،
‏شوکت حیات ،خواجہ صفدر والد خواجہ آصف
چودھری احسن والد اعتزازاحسن، خواجہ رفیق والد سعدرفیق، کرنل عابد امام والد عابدہ حسین اور علی احمد تالپور شامل تھے یہ لوگ آخری وقت تک فاطمہ جناح کےساتھ رہے
صدارتی الکشن کےدوران فاصمہ جناح پر پاکسان توڑنےکا الزام بھی لگا
یہ الزام ZA-سلہری نے ‏اپنی ایک رپورٹ میں لگایا جسمیں مس جناح کی بھارتی سفیر سےملاقات کا حوالہ ديا گیا تھا
یہ بیان کہ قائداعظم تقسیم کےخلاف تھے یہ وہی تقسیم تھی جسکا پھل کھانےکیلئےآج سب اکٹھےہوئے تھے
یہ اخبار ہرجلسےمیں لہرایا گیا ۔ایوب اسکو لہرا لہرا کر مس جناح کوغدار کہتے رہے
پاکستان کا مطلب کیا
‏لاالہ الااللّہ
جیسی نظم لکھنے والے اصغرسودائی ایوب خان کے قصیدے اور ترانے لکھتے تھے
اوکاڑہ کےایک شاعر ظفراقبال نےچاپلوسی کےریکارڈ توڑ ڈالے یہ وہی ظفراقبال ہیں جو بعد میں اپنےکالموں میں سیاسی راہنماؤں کا مذاق اڑاتے رہے۔
سرورانبالوی و دیگر کئی شعراء اسی کام میں مصروف تھے
دوسری طرف حبیب جالب، ‏ابراھیم جلیس میاں بشیر فاطمہ جناح کےجلسوں کے شاعر تھے۔ جالب نے ان جلسوں سے اپنے کلام میں شہرت حاصل کی
میانوالی جلسے کے دوران جب گورنر امیرخان کےغنڈوں نےفائرنگ کی توفاطمہ جناح ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں
اسی حملےکی یادگار
*بچوں پہ چلی گولی۔*
*ماں دیکھ کے یہ بولی* نظم ہے
فیض صاحب خاموش حمائتی تھے
‏چاغی۔لورالائی،سبی ،ژوب، مالاکنڈ،باجوڑ، دیر،سوات، سیدو، خیرپور، نوشکی،دالبندین، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، چمن، سبزباغ، سے فاطمہ جناح کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔
سارا اردو اسپیکنگ طبقہ جو جماعت اسلامی کی طاقت تھا فاطمہ جناح کی حمایت کرتا رہا
انکو کراچی سے 1046 ایوب خان کو837 ووٹ ملے
‏مشرقی پاکستان مس جناح کےساتھ تھا
فاطمہ جناح کو ڈھاکہ سے353 اور ایوب خان کو 199ووٹ ملے
جسکی سزا اسٹیبلشمنٹ نےیہ دی کہ انہیں دو نمبر شہری اور پاکستان سےالگ ہونےپر مجبور کردیاگیا
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب خان اور مس فاطمہ کے ووٹ برابر تھے
مس جناح کےایجنٹ ایم حمزہ تھے اور اے-سی جاویدقریشی جو بعد میں چیف سیکرٹری بنے
‏مس جناح کوکم ووٹوں سےشکست اکیلی عورت
فوج ،بیوروکریٹ، پیروں، وڈیروں، جاگیر داروں سےمقابلہ کر رہی تھی
جہلم سے ایوب کے82 اور مس جناح کے67 ووٹ تھے
اس الیکشن میں جہلم کےچودھری الطاف فاطمہ جناح کےحمائتی تھے مگر نواب کالاباغ کے دھمکانےکے بعد پیچھے ہٹ گئے یہاں تک کہ جہلم کےنتیجے پر دستخط کیلئے
‏مس جناح کےپولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے
اسطرح کی دھونس اور دھاندلی عام رہی
اس الیکشن میں مس فاطمہ جناح نہیں ہاری بلکہ جمہوریت ہار گئی_ پاکستان ہار گیا۔۔۔۔جو محبِ وطن اور جان نثار تھے غدّار ٹہرے اور اسمبلیوں اور ایوانوں سے ان کا خاتمہ ہو گیا۔ ابن الوقت اور چاپلوسی کرنے والے معتبر ٹہرے اور آج بھی اسمبلیوں میں انہی ‏کی اولادیں موجود ہیں
اس کے بعد پاکستان کی عوام نےکوئی نیا لیڈر پیدا نہیں کیا
*حوالےکیلئے دیکھئے
ڈکٹیٹرکون۔۔ایس-ایم-ظفر
میرا سیاسی سفر۔۔حسن محمود
فاطمہ جناح۔۔ابراھیم جلیس
مادرملت۔۔ظفرانصاری۔
فاطمہ جناح۔۔حیات وخدمات۔۔وکیل انجم
اور کئی پرانی اخبارات
👈پڑھیں اور جانےآپنا ماضی
ریاض خالق کی وال سے--[[صارف:امین اکبر|امین اکبر]] ([[تبادلۂ خیال صارف:امین اکبر|تبادلۂ خیال]] • [[خاص:شراکتیں/امین اکبر|شراکتیں]]) 19:47، 12 جنوری 2022ء ([[UTC|م ع و]])
واپس "پاکستان کے صدارتی انتخابات، 1965ء" پر