"عبد الخالق راز سومرو" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم) |
اضافہ حوالہ جات, اضافہ مواد |
||
سطر 1:
'''ڈاکٹر عبد الخالق راز سومرو''' سندھی زبان کے نامور شاعر، ادین، محقق اور استاد تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر [[غلام مصطفیٰ قاسمی]] کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔
==حالات زندگی==
عبدالخالق متخلص ’’رازؔ‘‘ ولد محمد حسن مسکینؔ سومرو اپنے آبائی گوٹھ حاجی خان کلہوڑو [[تعلقہ خانپور]] [[ضلع کشمور]] میں [[یکم جولائی]] [[1934ء]] پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں میں ہی اپنے والد سے حاصل کی۔ ورنیکیولر فائنل کا امتحان 1949ء میں پاس کیا۔ محکمہ تعلیم سندھ میں بطور استاد خدمات سر انجام دینے کے لیے پروانۂ تقرری مل گیا۔ وہ 18 اگست 1949ء کو گورنمنٹ پرائمری اسکول خانپور شہر میں نائب ماسٹر مقرر ہوئے۔ اپریل 1953ء میں انہیں ٹیچرز ٹریننگ کالج سکھر، لاڑکانہ میں ایس وی (S.V)ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ ایک سال سکھر اور دوسرے برس لاڑکانہ میں پڑھے۔ 1955ء میں مذکورہ امتحان پاس کیا۔ 1958ء میں میٹرک کرنے کے بعد 1960ء میں انٹر آرٹس، 1962ء میں ایم اے (سندھی) اور 1969ء میں بی ایڈ کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے۔ 24 اکتوبر 1969ء کو انہیں سیکنڈری کیڈر میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز کا تقرر نامہ ملا اور انہیں قنبر سائوتھ (ضلع لاڑکانہ) میں تعینات کیا گیا۔ 1971ء میں روہڑی تعلقہ ویسٹ کے A.D.I.S مقرر ہوئے اور اسی برس انہوں نے سندھ یونیورسٹی جام شورو میں پی ایچ ڈی کی سند کے حصول کے لیے اپنی رجسٹریشن بھی کروائی۔ ان کے گائیڈ کے طور پر نامور علمی اور ادبی شخصیت علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی کا تقرر ہوا، جب کہ پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا ’’میر علی نواز علوی شکارپوری اور ان کا
ادبی دنیا میں انہوں نے 1952ء میں قدم رکھا۔ اوائل میں انہوں نے اپنا تخلص عاصیؔ اور بعد میں رازؔ رکھا۔ نثر و نظم میں ان کے اوّلین استاد والدِ گرامی تھے، کیوں کہ ان کے والد بھی اپنے وقت کے ایک معروف شاعر اور نثّار تھے اور مسکینؔ تخلص کیا کرتے تھے۔ رازؔ مرحوم صاحبِ دیوان شاعر تھے اور ان کی شاعری ’’دیوانِ راز‘‘ کے عنوان سے غیر مطبوعہ شکل میں موجود ہے۔ نیز ’’ابیاتِ راز‘‘، ’’رباعیاتِ راز‘‘، ’’ارمغانِ راز‘‘ کے دو دو حصے ہیں، ایک حصے میں انہوں نے عاصیؔ اور دوسرے حصے میں اپنا تخلص رازؔ استعمال کیا ہے۔ ’’کلیاتِ علوی‘‘ میر علی نواز علوی کا شعری مجموعہ بھی انہی کا مرتب کردہ ہے۔ سوانح حیات قاضی علی اکبر درازی کو مرتب کرکے انہوں نے اس کا طویل مقدمہ بھی قلم بند کیا۔ دیگر شائع ہونے والی کتب میں ’’شکار پور صدین کان‘‘ بھی شامل ہے۔ ’’تاریخ بکھر‘‘ بھی غیر مطبوعہ صورت میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں ان کی غیر مطبوعہ کتب میں ’’سندھ جا گورنر‘‘، ’’وحدت جاوٹجار‘‘، ’’سندھ جا دیسی ھنر‘‘، ’’تصوف جی حقیقت‘‘، ’’تصوف جی علمی تحریک‘‘، ’’تاریخ خانپور‘‘، ’’گوٹھ حاجی خان کلہوڑو جی تاریخ‘‘ اور ’’تاریخ شکاپور‘‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بہت سارے ڈرامے اور کئی ناول بھی اردو اور سندھی زبان میں لکھے ہیں جو تاحال منصۂ شہود پر آنے کے منتظر ہیں۔ بہت ساری کہانیاں اور افسانے بھی بزبانِ سندھی اور اردو تحریر کیے جو رسائل و جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ ان کا بہت سارا منتشر کلام مختلف اصنافِ سخن از قسم کافی، غزل، گیت، نظم، نثری نظم وغیرہ سندھی زبان کے رسائل و جرائد میں شائع ہوچکا ہے۔ ان کے ہونہار شاگردِ رشید پروفیسر محمد شریف سومرو نے نہ صرف ان کے مضامین کو ’’تاریخ شکار پور‘‘ کے زیرعنوان مرتب کرکے شائع کیا بلکہ ان کی طویل نظموں کو ترتیب دے کر ’’وسی شال سندھو جو کنارو‘‘ کے عنوان سے بھی چھپوایا، اور اس کا مقدمہ بھی خود ہی تحریر کیا، اور انہی کی سعی سے رازؔ مرحوم کی کتاب ’’بکھر جی تاریخی عظمت‘‘ منصۂ شہود پر
▲انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں میں ہی اپنے والد سے حاصل کی۔ ورنیکیولر فائنل کا امتحان 1949ء میں پاس کیا۔ محکمہ تعلیم سندھ میں بطور استاد خدمات سر انجام دینے کے لیے پروانۂ تقرری مل گیا۔ وہ 18 اگست 1949ء کو گورنمنٹ پرائمری اسکول خانپور شہر میں نائب ماسٹر مقرر ہوئے۔ اپریل 1953ء میں انہیں ٹیچرز ٹریننگ کالج سکھر، لاڑکانہ میں ایس وی (S.V)ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ ایک سال سکھر اور دوسرے برس لاڑکانہ میں پڑھے۔ 1955ء میں مذکورہ امتحان پاس کیا۔ 1958ء میں میٹرک کرنے کے بعد 1960ء میں انٹر آرٹس، 1962ء میں ایم اے (سندھی) اور 1969ء میں بی ایڈ کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے۔ 24 اکتوبر 1969ء کو انہیں سیکنڈری کیڈر میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز کا تقرر نامہ ملا اور انہیں قنبر سائوتھ (ضلع لاڑکانہ) میں تعینات کیا گیا۔ 1971ء میں روہڑی تعلقہ ویسٹ کے A.D.I.S مقرر ہوئے اور اسی برس انہوں نے سندھ یونیورسٹی جام شورو میں پی ایچ ڈی کی سند کے حصول کے لیے اپنی رجسٹریشن بھی کروائی۔ ان کے گائیڈ کے طور پر نامور علمی اور ادبی شخصیت علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی کا تقرر ہوا، جب کہ پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا ’’میر علی نواز علوی شکارپوری اور ان کا کلام‘‘۔
| تاریخ اشاعت = | عنوان = عبد الخالق راز سومرو| ترجمہ عنوان = | ناشر = [[سندھی زبان کا با اختیار ادارہ]]| زبان = سندھی| تاریخ اخذ = 13 جنوری 2020}}</ref><ref>{{حوالہ جال| مصنف = مصنف کا نام| ربط = https://fridayspecial.com.pk/2020/03/06/247620
| تاریخ اشاعت =6 مارچ 2020 | عنوان = استاد، محقق، ادیب اور شاعر ڈاکٹر عبد الخالق راز مرحوم| مصنف = طارق تنولی | ترجمہ عنوان = | ناشر = فرائیڈے اسپیشل| زبان = اردو| تاریخ اخذ = 13 جنوری 2020}}</ref>
▲ادبی دنیا میں انہوں نے 1952ء میں قدم رکھا۔ اوائل میں انہوں نے اپنا تخلص عاصیؔ اور بعد میں رازؔ رکھا۔ نثر و نظم میں ان کے اوّلین استاد والدِ گرامی تھے، کیوں کہ ان کے والد بھی اپنے وقت کے ایک معروف شاعر اور نثّار تھے اور مسکینؔ تخلص کیا کرتے تھے۔ رازؔ مرحوم صاحبِ دیوان شاعر تھے اور ان کی شاعری ’’دیوانِ راز‘‘ کے عنوان سے غیر مطبوعہ شکل میں موجود ہے۔ نیز ’’ابیاتِ راز‘‘، ’’رباعیاتِ راز‘‘، ’’ارمغانِ راز‘‘ کے دو دو حصے ہیں، ایک حصے میں انہوں نے عاصیؔ اور دوسرے حصے میں اپنا تخلص رازؔ استعمال کیا ہے۔ ’’کلیاتِ علوی‘‘ میر علی نواز علوی کا شعری مجموعہ بھی انہی کا مرتب کردہ ہے۔ سوانح حیات قاضی علی اکبر درازی کو مرتب کرکے انہوں نے اس کا طویل مقدمہ بھی قلم بند کیا۔ دیگر شائع ہونے والی کتب میں ’’شکار پور صدین کان‘‘ بھی شامل ہے۔ ’’تاریخ بکھر‘‘ بھی غیر مطبوعہ صورت میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں ان کی غیر مطبوعہ کتب میں ’’سندھ جا گورنر‘‘، ’’وحدت جاوٹجار‘‘، ’’سندھ جا دیسی ھنر‘‘، ’’تصوف جی حقیقت‘‘، ’’تصوف جی علمی تحریک‘‘، ’’تاریخ خانپور‘‘، ’’گوٹھ حاجی خان کلہوڑو جی تاریخ‘‘ اور ’’تاریخ شکاپور‘‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بہت سارے ڈرامے اور کئی ناول بھی اردو اور سندھی زبان میں لکھے ہیں جو تاحال منصۂ شہود پر آنے کے منتظر ہیں۔ بہت ساری کہانیاں اور افسانے بھی بزبانِ سندھی اور اردو تحریر کیے جو رسائل و جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ ان کا بہت سارا منتشر کلام مختلف اصنافِ سخن از قسم کافی، غزل، گیت، نظم، نثری نظم وغیرہ سندھی زبان کے رسائل و جرائد میں شائع ہوچکا ہے۔ ان کے ہونہار شاگردِ رشید پروفیسر محمد شریف سومرو نے نہ صرف ان کے مضامین کو ’’تاریخ شکار پور‘‘ کے زیرعنوان مرتب کرکے شائع کیا بلکہ ان کی طویل نظموں کو ترتیب دے کر ’’وسی شال سندھو جو کنارو‘‘ کے عنوان سے بھی چھپوایا، اور اس کا مقدمہ بھی خود ہی تحریر کیا، اور انہی کی سعی سے رازؔ مرحوم کی کتاب ’’بکھر جی تاریخی عظمت‘‘ منصۂ شہود پر آسکی،
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات}}
|