"تاریخ ہند" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
{{About|خاص تاریخ [[برصغیر]]تقسیم اور [[بھارتہند]] کیسے تاریخقبل کے 1947ء میں [[تقسیم ہند]]ہندوستان |جدید بھارت|تاریخ جمہوریہ بھارت |خاص [[پاکستان]] اور [[بنگلہ دیش]] کی تاریخ کے لیے |تاریخ پاکستان|اور|تاریخ بنگلہ دیش}}
{{تاریخ ہند}}
جدید علم جینیات کی رو سے بالاتفاق برصغیر کی سرزمین پر تہتر ہزار سے پچپن ہزار ق م کے درمیان انسانی وجود کا سراغ ملتا ہے جو [[افریقا]] سے وارد ہوئے تھے،<ref name="PetragliaAllchin">{{cite book |author1=Michael D. Petraglia |author2=Bridget Allchin |author-link2=Bridget Allchin |title=The Evolution and History of Human Populations in South Asia: Inter-disciplinary Studies in Archaeology, Biological Anthropology, Linguistics and Genetics |url=https://books.google.com/books?id=Qm9GfjNlnRwC&pg=PA10 |publisher=Springer Science & Business Media |page=6 |year=2007|isbn=978-1-4020-5562-1}} Quote: "Y-Chromosome and Mt-DNA data support the colonization of South Asia by modern humans originating in Africa. ... Coalescence dates for most non-European populations average to between 73–55 ka."</ref> لیکن اثریاتی نقطہ نظر سے [[جنوبی ایشیا]] میں انسانی وجود کے اولین آثار تیس ہزار برس پرانے ہیں جبکہ خوارک کی فراہمی، کاشت کاری اور گلہ بانی وغیرہ کے ہنگاموں سے معمور باقاعدہ انسانی زندگی کا آغاز سات ہزار ق م کے آس پاس ہوا۔ [[مہر گڑھ]] کے مقام پر جو اور گیہوں کی پیداوار کے آثار ملتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے قرائن پائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فوراً بعد بھیڑ بکریوں اور گائے بیل وغیرہ مویشیوں کے پالنے کا رجحان پیدا ہو چکا تھا۔<ref name="Wright2009-p=44" /> پینتالیس سو ق م تک انسانی زندگی مختلف شعبوں تک پھیل گئی<ref name="Wright2009-p=44" /> اور بتدریج [[وادیٔ سندھ کی تہذیب]] کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھری۔ اس تہذیب کا شمار [[قدیم دنیا|عہد قدیم]] کی اولین تہذیبوں میں ہوتا ہے، یہ [[قدیم مصر]] اور [[بین النہرین|میسوپوٹیمیا]] کی تہذیبوں کی ہم عصر تھی۔ وادی سندھ کی تہذیب 2500 ق م سے 1900 ق م تک برصغیر کے اُس خطہ میں پھلتی ہھولتی رہی جو آج پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان میں واقع ہے۔ یہ تہذیب شہری منصوبہ بندی، پکی اینٹوں کے مکانات، نکاسی آب کے پختہ بندوبست اور آب رسانی کے بہترین انتظام کی بنا پر خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔<ref name="Wright2009-p=115">{{citation|last=Wright|first=Rita P.|author-link=Rita P. Wright|title=The Ancient Indus: Urbanism, Economy, and Society|url=https://books.google.com/books?id=fwgFPQAACAAJ&pg=PA115|year=2009|publisher=Cambridge University Press|isbn=978-0-521-57652-9|pages=115–125}}</ref>
سطر 11:
ساتویں اور گیارھویں صدی عیسوی کے درمیان پیش آنے والے حوادث و واقعات میں سب سے اہم واقعہ [[سہ گانہ مقابلہ]] ہے جس کا مرکز [[قنوج]] تھا۔ یہ مقابلہ [[پال سلطنت]]، [[راشٹر کوٹ سلطنت]] اور [[گرجر پرتیہار خاندان]] کے مابین دو صدیوں سے زائد عرصہ تک جاری رہا۔ پانچویں صدی عیسوی کے وسط سے [[جنوبی ہند کی تاریخ|جنوبی ہند]] مختلف شاہانہ رزم آرائیوں کا مرکز توجہ بن گیا تھا جن میں بالخصوص [[چالوکیہ]]، [[چولا سلطنت|چول]]، [[پلو سلطنت|پَلّو]]، [[چیرا خاندان|چیر]]، [[پانڈیہ شاہی سلسلہ|پانڈیہ]] اور [[مغربی چالوکیہ سلطنت|مغربی چالوکیہ]] قابل ذکر ہیں۔ گیارھویں صدی عیسوی میں [[چولا سلطنت|چول حکمران]] جنوبی ہند فتح کرنے کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کے بعض حصوں سمیت [[سری لنکا]]، [[مالدیپ]] اور [[بنگال]] پر بھی حملہ آور ہوئے۔<ref>''Ancient Indian History and Civilization'' by Sailendra Nath Sen p. 281</ref><ref>''Societies, Networks, and Transitions'', Volume B: From 600 to 1750 by Craig Lockard p. 333</ref><ref>''Power and Plenty: Trade, War, and the World Economy in the Second Millennium'' by Ronald Findlay, Kevin H. O'Rourke p. 67</ref> قرون وسطیٰ کے اوائل میں [[ہندوستانی ریاضیات]] ([[ہندی -عربی نظام عدد]]) نے [[عرب ممالک|عرب دنیا]] میں فلکیات اور ریاضیات کی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔<ref>''Essays on Ancient India'' by Raj Kumar p. 199</ref>
 
آٹھویں صدی کے آغاز میں برصغیر میں [[برصغیرمیں مسلم فتح|عربوں کی آمد]] ہوئی اور انھوں نے [[افغانستان]] اور [[سندھ]] میں اپنی حکومت قائم کر لی۔,<ref>البدایہ و النہایہ جلد: 7 ص 141، ''"فتح [[مکران]]"''</ref> پھر [[محمود غزنوی]] کا ورود ہوا۔{{sfn|Meri|2005|p=146}} سنہ 1206ء میں وسط ایشیائی [[ترک]]وں نے [[سلطنت دہلی]] کی بنیاد رکھی اور چودھویں صدی عیسوی کے اوائل تک شمالی ہند کے ایک بڑے حصہ پر اپنا اقتدار مستحکم کر لیا لیکن چودھویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے ان کا زوال شروع ہو گیا۔<ref>''The Princeton Encyclopedia of Islamic Political Thought'': p. 340</ref> سلطنت دہلی کے زوال سے [[دکن سلطنتیں]] ابھریں۔<ref name=Sohoni2018>{{cite book |last1=Sohoni |first1=Pushkar |title=The Architecture of a Deccan Sultanate: Courtly Practice and Royal Authority in Late Medieval India |date=2018 |publisher=I.B. Tauris |location=London |isbn=9781784537944}}</ref> [[شاہی بنگالہ|سلطنت بنگالہ]] بھی ایک اہم قوت کے طور پر نمودار ہوئی اور تین صدیوں تک مسلسل تخت اقتدار پر متمکن رہی۔<ref name="Eaton1996">{{cite book|author=Richard M. Eaton|title=The Rise of Islam and the Bengal Frontier, 1204-1760|url=https://books.google.com/books?id=gKhChF3yAOUC&pg=PA64|date=31 July 1996|publisher=University of California Press|isbn=978-0-520-20507-9|pages=64–}}</ref> سلطنت دہلی کے اسی عہد زوال میں [[وجے نگر سلطنت]] اور [[مملکت میواڑ|میواڑ]] کے پہلو بہ پہلو مختلف طاقت ور ہندو اور راجپوت ریاستیں بھی قائم ہوئیں۔ پندرھویں صدی عیسوی میں [[سکھ مت]] کا ظہور ہوا۔ سولھویں صدی عیسوی سے عہد جدید کی ابتدا ہوتی ہے جب [[مغلیہ سلطنت]] نے برصغیر ہند کے بڑے رقبہ کو اپنے زیر نگین کر کے<ref name="exeter"/> دنیا میں صنعت کاری کے ابتدائی نمونے پیش کیے اور عالمی سطح پر عظیم ترین معیشت بن گئی۔<ref name="Parthasarathi38">{{Citation |title=Why Europe Grew Rich and Asia Did Not: Global Economic Divergence, 1600–1850 |given=Prasannan |surname=Parthasarathi |publisher=Cambridge University Press |year=2011 |isbn=978-1-139-49889-0 |pages=39–45 |url=https://books.google.com/books?id=1_YEcvo-jqcC&pg=PA38}}</ref> سلطنت مغلیہ کے عہد میں ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار دنیا کی چوتھائی گھریلو پیداوار تھی جو یورپ کی کل گھریلو پیداوار سے زیادہ ہے۔<ref>[[Angus Maddison|Maddison, Angus]] (2003): ''[https://books.google.com/books?id=rHJGz3HiJbcC&pg=PA259 Development Centre Studies The World Economy Historical Statistics: Historical Statistics]'', [[انجمن اقتصادی تعاون و ترقی]], {{ISBN|9264104143}}, pp. 259–261</ref><ref name="harrison">{{cite book|title=Developing cultures: case studies|author=[[Lawrence Harrison (academic)|Lawrence E. Harrison]], [[Peter L. Berger]]|publisher=[[روٹلیج]]|year=2006|page=158|url=https://books.google.com/books?id=RB0oAQAAIAAJ|isbn=978-0415952798}}</ref> اٹھارویں صدی کے اوائل میں مغلوں کا تدریجاً زوال شروع ہوا جس کی بنا پر [[مرہٹہ سلطنت|مرہٹوں]]، [[سکھ سلطنت|سکھوں]]، [[سلطنت خداداد میسور|میسوریوں]]، [[نظام حیدرآباد|نظاموں]] اور [[نواب بنگال اور مرشدآباد|نوابان بنگالہ]] کو برصغیر ہند کے بہت بڑے رقبے پر زور آزمائی کا موقع مل گیا اور جلد ہی متفرق طور پر ان کی علاحدہ علاحدہ ریاستیں وجود میں آگئیں۔<ref>{{cite book|title=A History of State and Religion in India|author1=Ian Copland|author2=Ian Mabbett|author3= Asim Roy|author4=Kate Brittlebank|author5=Adam Bowles|page=161|display-authors=3|publisher=Routledge|year=2012}}</ref><ref>''History of Mysore Under Hyder Ali and Tippoo Sultan'' by Joseph Michaud p. 143</ref>
 
اٹھارویں صدی کے وسط سے انیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر بتدریج [[برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی|ایسٹ انڈیا کمپنی]] قابض و متصرف ہو گئی جسے سلطنت برطانیہ نے ہندوستان کی سرزمین پر اپنا خود مختار عامل و نائب قرار دے رکھا تھا۔ لیکن ہندوستان کے باشندے [[کمپنی راج]] سے سخت بیزار اور بد دل تھے۔ نتیجتاً [[جنگ آزادی ہند 1857ء|1857ٔ میں تحریک آزادی کی لہر]] اٹھی اور شمالی ہند سے لے کر وسطی ہند تک اس لہر نے حصول آزادی کی روح پھونک دی لیکن یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے بعد سلطنت برطانیہ نے کمپنی کو تحلیل کر دیا اور ہندوستان براہ راست [[تاج برطانیہ]] کے ماتحت آگیا۔ [[پہلی جنگ عظیم]] کے بعد [[محمد علی جوہر]]، [[ابو الکلام آزاد]]، [[موہن داس گاندھی]] اور دیگر ہندو مسلم رہنماؤں نے اپنی تحریروں، تقریروں، تحریکوں اور رسائل و جرائد کے ذریعہ پورے ملک میں حصول آزادی کا نغمہ چھیڑ دیا۔ اول اول [[تحریک خلافت]] نے، پھر [[انڈین نیشنل کانگریس]] نے ہندوستان کے باشندوں کے اس جذبہ کو ایک مہم کی شکل میں مہمیز کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد اس جد و جہد میں [[آل انڈیا مسلم لیگ]] بھی شامل ہو گئی۔ تھوڑی ہی مدت گذری تھی کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں نے بوجوہ علاحدہ مسلم اکثریتی [[قومی ریاست|ریاست]] کا مطالبہ رکھا اور آہستہ آہستہ یہ مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا۔ بالآخر کانگریسی قیادت کی رضامندی کے بعد سلطنت برطانیہ نے ہندوستان کو [[بھارت ڈومینین]] اور [[ڈومنین پاکستان]] میں تقسیم کر کے انھیں برطانوی استعمار سے آزاد کر دیا۔