"انتخاب عالم (پاکستانی کرکٹ کھلاڑی)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 57:
انتخاب عالم بھارتی ریاست پنجاب کے [[ہوشیارپور]] تب بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔<ref name =bbc/> انہیں پاکستان کرکٹ کی اہم شخصیات میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے انتخاب عالم کرکٹ کے کھیل سے محبت کرنے والے فرد اور اس کھیل میں قوم کو عروج پر لے جانے کے لیے اہم تھے۔ وہ باؤلنگ آل راؤنڈر تھے ایک مستحکم لیگ اسپنر کی طرح وہ ہمیشہ توقعات پر پورے اترے جو ہاتھ میں ولو کے ساتھ گیند کو سختی سے نشانہ بنا سکتا تھا۔ اگرچہ ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے افراد کے لیے مستقل مزاجی ہمیشہ نہیں آتی تھی، لیکن ان کی موجودگی نے ایک تبدیلی کے مرحلے کو یقینی بنایا کیونکہ پاکستان ایک ڈرپوک ٹیم سے ایک غالب قوت بن چکا تھا ۔ ان کی شخصیت میں جوش و خروش کا مطلب یہ تھا کہ ٹیم کا کپتان مقرر ہونے سے پہلے یہ صرف وقت کی بات ہے۔ حکمت عملی کے لحاظ سے، عالم ایک بہترین رہنما تھے لیکن زیادہ تر انہیں ایک سفارتی شخص کے طور پر جانا جاتا تھے جس کے اپنے فوائد اور نقصانات تھے۔ کھیل کے تیز رفتار سیکھنے والے، عالم ان پہلے پاکستانیوں میں شامل تھے جنہوں نے اپنی مہارت کے سیٹ کو بہتر بنانے کے لیے انگلینڈ کاؤنٹی کے ساحلوں کا رخ کیا۔ سرے میں ان کا تجربہ انمول ثابت ہوا کیونکہ پاکستان کا 1974ء کا دورہ ایک پریوں کی کہانی بن گیا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اس سیریر میں ناقابل شکست رہے۔ انتخاب عالم خاص طور پر اپنی لیگ سپن کے ساتھ اہم معماروں میں سے تھے۔ اگرچہ ایک کپتان کے طور پر ان کو کڑی تنقید کا سامنا رہا مگر جب انہوں نے کوچنگ شروع کی تو وہ کام آئے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت وہ لاجواب سمجھ بوجھ ہے جب عمران خان نے قیادت کی۔ یہ جوڑی اپنی کرکٹ کی تاریخ میں پاکستان کے لیے سب سے بڑے لمحے کو تراشنے کے لیے ایک پیج پر تھے جب پاکستان نے 1992ء میں ورلڈ کپ کی شاندار جیت کو پاکستان کا مقدر بنا دیا انتخاب عالم کو ٹیم کے کوچ اور مینیجر کی حیثیت سے یکساں ذمہ داری ادا ککرنے کی عادت تھی۔ عمران اور جاوید میانداد میں پاکستان کے دو سینئر کھلاڑی تھے جو ایک دوسرے کے بالکل برعکس تھے۔ ڈریسنگ روم انا کا میدان ہو سکتا تھا لیکن عالم کی ہم آہنگی اور سفارت کاری کا مطلب یہ تھا کہ ان ممکنہ مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا۔ کوچ مینیجر کا کردار دو بار مزید انتخاب عالم کے پاس واپس آیا، پاکستان کرکٹ کے بحران میں ان کی خدمات کو ایک واحد حل کے طور پر جانچا جاتا رہا ہے پہلی بار 2000ء میں اور آخری 2008ی میں انہیں چیلنجز سے نمٹنے کا مسیحا سمجھا گیا مؤخر الذکر اس لحاظ سے سراہے جانے کے لائق تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کیونکہ اگلے سال پاکستان نے اپنا پہلا ورلڈ T20 ٹائٹل جیتا تھا۔
=== ٹیسٹ کرکٹ کیرئیر ===
انتخاب عالم /ٹیسٹ کیریئر
 
انتخاب عالم کو ان کی آل رائونڈ کارکردگی کے سبب 1959-60ء میں پاکستان کا دورہ کرنے والی آسٹریلیوی ٹیم کے خلاف ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اس ڈرا ٹیسٹ میں ان کے ساتھ منیر ملک نے بھی اپنا ٹیسٹ کیریئر شروع کیا تھا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 287 رنز بورڈ پر سجائے۔ اس میں سعید احمد 91' اعجاز بٹ 58 اور حنیف محمد 51 کے ساتھ ساتھ والز میتھائس کے 43 رنز نمایاں تھے۔ رچی بینوں 93/5 کی کارکردگی نہ دکھاتے تو اننگ اور بھی طوالت اختیار کرسکتی تھی۔ جواب میں آسٹریلوی ٹیم 257 رنز تک محدود رہی۔ نیل ہاروے 54 اور کین میکے 40 کے ساتھ اپنی ٹیم کے مددگار ثابت ہوئے تھے۔ انتخاب عالم بیٹنگ میں تو رنز بنائے بغیر ہی کریز سے بے دخل ہوئے تاہم بولنگ میں انہوں نے 49/2 کے ساتھ 19 اوورز میں 4 میڈن کئے تھے۔ آسٹریلوی اوپنر کولن میکڈونلڈ 15 رنز پر ان کی پہلی ٹیسٹ وکٹ بنے۔ اسی اننگز میں بلی گرائوٹ ان کی دوسری وکٹ بنے۔ پاکستان کے کپتان امتیاز احمد نے 8 وکٹوں پر ہی اننگ کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ حنیف محمد کی دلکش سنچری 101 اس اننگ کا نمایاں پہلو تھا۔ انتخاب عالم نے 6 رنز کا حصہ ڈالا۔ آسٹریلیا نے سنبھل کر کھیلتے ہوئے 83/2 بنائے تھے کہ میچ کی برابری پر ختم ہونے کا اعلان ہوگیا۔ اسی سیزن میں دورئہ بھارت وہ پہلے ٹیسٹ میں ہی سب کی نظروں میں آگئے جب انہوں نے 67/4 وکٹوں کے ساتھ پہلی اننگ میں 56 رنز بھی بنائے۔ مشتاق محمد 61 کے ساتھ' حنیف محمد اور انتخاب عالم 56,56 نے پاکستان کا سکور 301 تک پہنچا دیا تھا۔ سریندر ناتھ اور چندو بوڈے نے 4,4 پاکستانی کھلاڑیوں کی اننگز کے خاتمے کا فریضہ انجام دیا تھا۔ بھارت کی ٹیم اپنے بولرز کی اس محنت کو باآور نہ لاسکی اور پوری ٹیم 180 رنز پر ہی اپنی شائقین کے سامنے بے بس نظر آئی۔ بھارت کو اس مقام تک لانے میں 26/5 فضل محمود کا ہاتھ تھا۔ جبکہ انتخاب عالم نے بھی 2 وکٹ لئے۔ دوسری اننگ میں انتخاب عالم نے 13 رنز سکور کئے۔ پاکستان نے ایک بار پھر 148 رنز 3 کھلاڑی آئوٹ ہونے پر اننگ کو ڈکلیئر کرنے کا اعلان کردیا اور بھارت کو 267 رنز کا ہدف ملا جو کہ میچ کے اختتام تک بھارت 127/4 ہی بنا سکا۔ انتخاب عالم اور حسیب احسن کی 2,2 وکٹوں کے ساتھ کوششوں کے باوجود یہ ٹیسٹ فیصلہ کن ثابت نہ ہوسکا۔ چنائی کے دوسرے ٹیسٹ میں 13 اور دہلی کے ٹیسٹ میں 10 رنز کے ساتھ 76 رنز کے عوض ہی انتخاب عالم کی کارکردگی رہی۔ اسی سیزن میں انگلستان کے خلاف پاکستان اور انگلش سرزمین پر 5 ٹیسٹ میچ میں قدرے مایوس کے ساتھ انتخاب عالم نے صرف 6 کھلاڑیوں کو ہی اپنی گیندوں پر پویلین بھجوایا جبکہ بیٹنگ میں انہوں نے 109 رنز جوڑے۔ اس سریز کے بعد انتخاب عالم پاکستانی ٹیم کا حصہ نہ بنے۔ تاوقتیکہ 1964-65ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف انہوں نے کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں 13 اور 61 کی باریاں کھیل کر خود سے منسوب توقعات کی لاج رکھنے کا اہتمام کیا۔ ان کی گیندیں البتہ انہیں کسی وکٹ کا مالک نہ بنا سکیں۔ (اضافہ جاری)
=== بھارتی ریاست پنجاب کی کرکٹ ٹیم کے کوچ ===
[[2004ء]] میں انتخاب عالم کو بھارتی ریاست پنجاب کی کرکٹ ٹیم کے کوچ کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ پنجاب کرکٹ ایسوسی ایشن نے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انتحاب تین سال تک یہ ذمہ داری نبھائیں۔<ref name =bbc/>