"عبد القادر (کرکٹ کھلاڑی)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 96:
عبدالقادر نے اپنا پہلا ٹیسٹ انگلستان کے خلاف لاہور میں کھیلا جس میں انہوں نے 82 رنز دے کر ایک وکٹ حاصل کی جبکہ بیٹنگ میں انہوں نے 11 رنز بنائے۔ عبدالقادر نے انگلش فاسٹ بولر بوب ولز کو اقبال قاسم کے ہاتھوں کیچ کروا کے اپنی پہلی ٹیسٹ وکٹ حاصل کی۔ نووارد عبدالقادر کے بارے میں کسی کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ 1977ء سے 1990ء تک کے 13 سال کیریئر میں یہ سلو گگلی بولر ٹیسٹ کرکٹ کے میدانوں پر کیا کرشمہ سازیاں انجام دے گا۔ سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں حیدر آباد کے مقام پر عبدالقادر نے اپنے پر کھولنے شروع کئے۔ انگلستان کی اننگز 191 اور 186 میں عبدالقادر نے پہلی اننگ میں 44 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ انہوں نے برائن روز، ڈیرک رینڈل، گراہم روپ، باب ٹیلر، فل ایڈمنڈ اور جان لیور کو آئوٹ کرکے اپنی پہلی پانچ وکٹوں کا کارنامہ مکمل کیا۔ دوسری اننگز میں وہ کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے۔ کراچی کے اگلے ٹیسٹ میں 5 انگلش کھلاڑی ان کے ہتھے چڑھے۔ پہلی اننگ میں 81 رنز کے عوض 4 اور دوسری باری میں 26/1 کے ساتھ انہوں نے دوسری بار اپنے 5 وکٹ مکمل کئے۔ 1979ء کی سیریز میں پاکستان نے بھارت کا دورہ کیا۔ بنگلور میں 114/1، دلی میں 16/0، ممبئی میں 43/1 کے ساتھ انہوں نے اپنے پہلے بیرونی دورے میں توقع کے مطابق کارکردگی پیش نہیں کی۔ 1980ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم گرائونڈ پر وہ ایک بار پھر نظروں میں آئے۔ لاہور کے ٹیسٹ میں انہوں نے ویسٹ انڈیز کی 297 رنز کی اننگ میں ایلون کالی چرن، ڈیوڈ مرے، جیول گارنر، سلوسٹر کلارک کی وکٹیں 131 رنز دے کر حاصل کیں۔ یہ ٹیسٹ برابری پر ختم ہوا۔ فیصل آباد کے ٹیسٹ میں بھی انہوں نے 4/93 کے ساتھ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 2 سال کے بعد 1982ء میں جب پاکستان نے انگلینڈ کا دورہ کیا تو عبدالقادر ٹیم کیلئے کچھ منفرد کرنا چاہتے تھے۔ برمنگھم کے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کو 113 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم عمران خان میچ میں 9وکٹیں حاصل کرنے کے علاوہ 65 رنز بنا کر میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے۔ عبدالقادر نے پہلی اننگ میں ایک اور دوسری میں 2 کھلاڑی کریز سے رخصت کئے۔ لارڈز کے دوسرے ٹیسٹ میں جو محسن خان کی سنچری کے حوالے سے ایک یادگار ٹیسٹ قرار دیا جاتا ہے پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 428 رنز بنائے اور باری ختم کردی۔ محسن خان کے 200 رنز کے علاوہ ظہیر عباس 75 اور منصور اختر 57 نمایاں باریاں تھیں۔ پاکستان جواب میں انگلش ٹیم صرف ایک رن کے کمی سے فالو آن کا شکار ہوگئی۔ جب ساری ٹیم 227 رنز پر پویلین لوٹ گئی تھی۔ عبدالقادر کی ٹرن ہوتی گیندوں نے 4 انگلش کھلاڑیوں کو صرف 39 رنز پر کریز چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ سرفراز نواز 3 اور عمران خان 2 وکٹوں کے ساتھ اسی مشن پر تھے۔ دوسری اننگ میں انگلستان کی ٹیم 276 پر ڈھیر ہوگئی۔ اس بار عبدالقادر کے حصے میں 2/94 آئیں۔ پاکستان نے درکار 76 رنز بغیر نقصان کے بنا لئے اور پاکستان یہ ٹیسٹ 10 وکٹوں سے جیت گیا۔ لیڈز کے آخری ٹیسٹ میں صرف ایک وکٹ حاصل کرسکے۔ 1982ء میں آسٹریلیا نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں عبدالقادر ایک بار پھر مرکز نگاہ تھے۔ انہوں نے پہلی اننگ میں 2/80 کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ 29 قیمتی رنز بھی بنائے۔ انگلینڈ دونوں اننگز میں 284 اور 179 بنانے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوا۔ دوسری اننگ میں عبدالقادر نے 76 رنز کے عوض 5 آسٹریلوی کھلاڑی اپنے شکار بنائے تھے۔ یوں صرف چوتھی اننگ میں پاکستان کو 45 رنز کا ہدف ملا جسے اس نے ایک وکٹ کے نقصان پر پورا کرکے 9 وکٹوں سے پورا کرکے کامیابی کو اپنا مقدر بنایا۔ پاکستان نے پہلی اننگ میں ظہیر عباس 91، ہارون رشید 82، محسن خان 58 اور مدثر نذر 52 کی مدد سے 419 رنز 9 وکٹوں پر اننگ ڈکلیئر کردی تھی۔ 48 بالوں پر 64 منٹس میں عبدالقادر نے بھی 5 چوکوں کی مدد سے 29 رنز اس مجموعے میں شامل کئے تھے۔ فیصل آباد کا اگلا ٹیسٹ جو سیریز کا دوسرا ٹیسٹ تھا۔ عبدالقادر کی زبردست کارکردگی کے باعث ایک اننگ اور 3 رنز سے پاکستانی فتح پر ختم ہوا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 6 وکٹوں پر 501 رنز بنا کر اننگ ڈکلیئر کردی۔ ظہیر عباس 126، منصور اختر 111، مدثر نذر 79، محسن خان 76 اور ہارون رشید کے 51 رنز بنانے کی وجہ سے سکور یہاں تک تو پہنچنا ہی تھا۔ جواب میں آسٹریلوی ٹیم صرف 168 پر پویلین لوٹ گئی۔ گریم ووڈ 49 اور گریگ رچی 34 رنز کے ساتھ کچھ مزاحمت دکھانے والوں میں شامل تھے۔ پاکستان کی طرف سے عبدالقادر نے 4/76 سے آسٹریلوی کھلاڑیوں کو رنز بنانے سے روکا تھا۔ فالو آن کے بعد آسٹریلوی ٹیم دوسری اننگ میں کچھ بہتر پرفارمنس دکھانے میں کامیاب ہوئی مگر پہلی اننگ کا خسارہ اس کارکردگی پر حاوی ہوگیا۔ گریگ رچی نے ناقابل شکست 106، بروس لائرڈ 60 اور جان ڈائسن 43 سکور کو آگے لے جانے میں معاون ثابت ہوئے تھے۔ عبدالقادر نے آسٹریلوی اننگ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے 142 رنز تو دیئے مگر 7قیمتی وکٹیں لے کر آسٹریلیا کے بچنے کے تمام راستے مسدود کردیئے۔ لاہور کے تیسرے ٹیسٹ میں عبدالقادر 188 رنز کے عوض 4 وکٹیں لے پائے۔ پاکستان نے یہ ٹیسٹ 9 وکٹوں سے جیت لیا تھا۔ عبدالقادر نے پہلی اننگ میں 2/86، دوسری اننگ میں 102/2 کے ساتھ پاکستان کی فتح میں اہم کردار کیا تھا اور اس ٹیسٹ کے اختتام پر انہیں 22 وکٹوں لینے پر سیریز کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا تھا۔ 1982-83ء کی سیریز میں بھارت نے پاکستان کا دورہ کیا۔ عبدالقادر نے اس ٹیسٹ سیریز میں مجموعی طور پر 11 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں جس میں کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں انہوں نے 6 وکٹیں لے کر اچھا آغاز کیا مگر بعد کے ٹیسٹوں میں انہیں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ کراچی میں پہلی اننگ میں بھارت 169 رنز بنا کر آئوٹ ہوا۔ عمران، سرفراز اور عبدالقادر نے بھارتی بلے بازوں کیلئے مشکلات کھڑی کریں۔ عبدالقادر نے 67/4 کا جادو جگایا تھا جبکہ دوسری اننگ میں عبدالقادر کے حصے میں 2 وکٹ آئے مگر اس کیلئے انہیں 75 رنز جھونکنا پڑے۔ پاکستان نے عمران خان کی تباہ کن بولنگ کے سبب یہ ٹیسٹ ایک اننگ اور 86 رنز سے جیت لیا تھا۔ عمران خان نے میچ میں 79 رنز دے کر 11 وکٹ حاصل کئے جبکہ بیٹنگ میں 33 رنز کی ایک باری بھی کھیلی تھی۔
===1983-84ء کا کرکٹ سیزن===
اس سیزن میں اس نے آسٹریلیا کے دورے سے اپنی کامیابیوں کا سفر شروع کیا۔ پرتھ کے پہلے ٹیسٹ میں اس نے 3 وکٹیں اپنے نام کیں۔ برسبین کے دوسرے ٹیسٹ میں انہیں محض ایک ہی وکٹ مل سکی جبکہ ایڈلیڈ کے ٹیسٹ میں انہوں نے 228 رنز دے کر 3 وکٹیں اپنے نام کیں۔ یہ ٹیسٹ ڈرا ہوگیا تھا جہاں پاکستان نے 624 رنز کی بڑی اننگ کھیلی تھی جس میں محسن حسن خان 149، جاوید میانداد 131، قاسم عمر کی 113 رنز کی سنچریاں شامل تھیں۔ عبدالقادر کے حصے میں 96/1 اور 132/2 ہی آ سکیں۔ میلبورن کے چوتھے ٹیسٹ میں عبدالقادر نے بیٹنگ میں 45 رنز سکور کئے۔ ساتھ ہی انہوں نے 166 رنز دے کر ایلن بارڈر، گریگ چیپل، روڈنی مارش، جیف لارسن اور جان میگیور کی وکٹیں اپنے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔ سڈنی کے اگلے ٹیسٹ میں انہیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔ اسی سیزن میں انگلستان نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی کا ٹیسٹ عبدالقادر کے ہاتھوں انگلش کھلاڑیوں کی بے بسی تصویر بنا۔ اس لو سکورنگ میچ میں پاکستان نے 3 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ اس کا سبب عبدالقادر کی شاندار کارکردگی تھی جنہوں نے پہلی اننگز میں 5/74 اور دوسری اننگز میں 40 رنز بنانے کے علاوہ 3/59 کی شاندار پرفارمنس کے سبب پاکستان کی فتح کو ممکن بنایا اور مین آف دی میچ کا اعزاز بھی لے اڑے۔ فیصل آباد کے دوسرے ٹیسٹ میں انہیں صرف ایک ہی وکٹ مل سکی مگر سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں اپنے ہوم گرائونڈ پر انہوں نے ایک مرتبہ پھر وکٹوں کے حصول کو مشن بنالیا۔ انگلستان کی ٹیم پہلی اننگ میں 241 رنز بنا سکی۔ عبدالقادر نے 84 رنز دے کر 5 انگلش کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا تھا۔ پاکستان نے جواب میں 343 رنز بنائے تھے جس میں سرفراز نواز 90، ظہیر عباس 82 اور قاسم عمر 73 رنز کے ساتھ نمایاں سکورر تھے۔ عبدالقادر نے دوسری اننگ میں بھی 5 وکٹیں لیں مگر اس بار انہیں 110 رنز دینے پڑے تھے۔ 19 وکٹوں کے ساتھ سیریز کا اختتام اس کی ایک اور بہترین سیریز کا پیغام دے رہا تھا۔ 1984ء میں اسے بھارت کے دورہ پاکستان میں صرف فیصل آباد کا ایک ٹیسٹ ہی کھیلنے کو ملا جس میں اس نے 104 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں۔ 1984-85ء میں نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ یہاں اس نے لاہور کے ٹیسٹ میں 140 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو اپنا شکار بنایا لیکن اس سیریز میں ان کی قابل دید کارکردگی حیدر آباد کے دوسرے ٹیسٹ میں سامنے آئی۔ یہ میچ پاکستان نے جاوید میانداد کی دونوں اننگز میں سنچریوں کے منفرد کارنامے کی وجہ سے 7 وکٹوں سے اپنے نام کرلیا تھا لیکن عبدالقادر نے پہلی اننگ میں 5/108 اور دوسری باری میں 3/59 کے ساتھ کہیں نہ کہیں اس فتح میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اگلا ٹیسٹ کراچی۔میں تھاجہاں ان کے حصے میں کوئی وکٹ نہ آ سکی اس کے بعد پاکستان نے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا ولنگٹن کے پہلے ٹیسٹ میں عبد القادر کافی مہنگے ثابت ہوئے جہاں ان کو ایک وکٹ 160 رنز کے عوض ملی اکلینڈ ٹیسٹ میں بھی ایک ہی کھلاڑی ان کے ہتھے چڑھا
 
=== اعدادو شمار ===