"عبد القادر (کرکٹ کھلاڑی)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 105:
 
=== 1988-89 میں عبدالقادر کی کارکردگی===
1988-89ء میں بھی عبدالقادر کی کامیابیوں کا سلسلہ دراز رہا۔ اپریل میں پاکستانی ٹیم کے دورئہ ویسٹ انڈیز میں عبدالقادر نے 3 ٹیسٹ میچوں میں 14 وکٹیں لیں۔ جارج ٹائون میں 4/197 اور برج ٹائون میں 2/150 کے علاوہ اس نے پورٹ آف سپین کے ٹیسٹ میں کالی آندھی کی 8 وکٹیں حاصل کیں۔ میچ کے مرد میدان ویوین رچرڈ تھے۔ ویسٹ انڈیز نے پہلی اننگ میں 174 رنز بنائے۔ عبدالقادر نے 83 رنز دے کر گس لوگی، ویوین رچرڈ، کارل ہوپر اور ونسٹن بنجمن کی وکٹیں اپنے نام کیں۔ پاکستان کی ٹیم بھی کچھ زیادہ بہتر کارکردگی نہ دکھا سکی اور 194 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ سلیم ملک 66 اور سلیم یوسف 39 کے ساتھ نمایاں سکورر رہے۔ میلکم مارشل 55/4 اور ونسٹن بنجمن 32/3 اس کے ذمہ دار تھے۔ ویسٹ انڈیز نے دوسری اننگ میں ویوین رچرڈ کی سنچری 123 اور جیف ڈوجان کے 106 کی صورت میں تیسرے ہندسے تک رسائی کی بدولت 391 رنز بنا لئے۔ اس بار پھر عبدالقادر نے 148 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو پویلین واپس بھجوایا تھا۔ پاکستان کو جیتنے کیلئے 372 رنز کا ہدف ملا۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم 9 وکٹوں پر 341 رنز بنا سکی۔ چوتھی اننگ میں یہ رنز بہت نمایاں کارکردگی کے حامل تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی ٹیم ہدف عبور نہ کرسکی۔ جاوید میانداد 102، رمیز راجہ 44 اور اعجاز احمد 43 کے ساتھ کریز پر قیام کرتے نظر آئے۔ اس میچ کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان کی اننگ میں ایکسٹرا رنزوں کی تعداد 61 تھی جس میں 17 بائی، 17 لیگ بائی، 25 نو بال اور 2 وائڈ بال بھی شامل تھے۔ اسی سیزن میں آسٹریلیا کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں عبدالقادر کے حصے میں 11 وکٹ آئے۔ کراچی کا ٹیسٹ پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے ایک اننگ اور 188 رنز سے جیتا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 9 وکٹوں پر 474 رنز بنا کر اننگ ڈکلیئر کردی۔ اس میں جاوید میانداد کے 211، شعیب محمد 94 رنز شامل تھے۔ شعیب محمد اور جاوید میانداد کے درمیان 196 کی شراکت دیکھنے کو ملی۔ آسٹریلیا کی ٹیم 165 رنز پر ہی ڈھیر ہوکر فالو آن کا شکار ہوگئی۔ پیٹر ٹیلر 54 کے سب سے زیادہ سکور کے ساتھ ٹیم کی مدد کو آئے تھے۔ اقبال قاسم نے 35/5 اور عبدالقادر نے 54/2 کے ساتھ آسٹریلوی کھلاڑیوں کے تمام راستے مسدود کردیئے تھے۔ فالو آن کے بعد بھی نتیجہ زیادہ مختلف نہ تھا جہاں کیوی بلے باز 116 تک محدود رہے۔ اقبال قاسم 4/49 اور عبدالقادر 3/34 کے ساتھ پاکستان کی فتح کے ضامن بنے۔بنے۔فیصل آباد کے اگلے ٹیسٹ میں 118/3 اور لاہور میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے آخری ٹیسٹ میں 114/3 عبدالقادر کی عمدہ کارکردگی کا سبب تھے۔ فروری 1989ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ دورہ پر گئی۔ ولنگٹن کے پہلے ٹیسٹ میں عبدالقادر خاصے مہنگے ثابت ہوئے۔ انہوں نے 122 رنز دے کر ایک ہی وکٹ پر اکتفا کیا لیکن آکلینڈ کے دوسرے ٹیسٹ میں وہ کیوی بیٹسمینوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے سے باز نہ رہ سکے۔ یہ ٹیسٹ جاوید میانداد کی 271 رنز کی اننگز کیلئے مشہور ہے۔ جس کی بدولت پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 5 وکٹوں پر 516 رنز سکور کئے۔ شعیب محمد کے 112، سلیم ملک 80، عمران خان 69 اور عامر ملک 56 رنز کے ساتھ اس پہاڑ جیسے مجموعے کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرگئے تھے۔ جواب میں نیوزی لینڈ کی ٹیم 403 رنز بنا کر آئوٹ ہوگئی۔ مارٹن کرو 78، مارک گریٹ بیچ 76 اور برڈ وینس 68 رنز کے ساتھ نمایاں سکورر تھے۔ عبدالقادر نے 160 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ اس نے 58.1 اوورز میں 18 اوورز ایسے کئے جس میں کوئی رن نہ بن سکا تھا۔ دوسری اننگ میں عبدالقادر نے 27 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کی۔ اسی سال کے آخر میں بھارت کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورہ پر آئی تو عبدالقادر توقعات کے خلاف زیادہ وکٹوں کے حصول میں ناکام رہے۔ لاہور کے ٹیسٹ میں 39 ناقابل شکست رنز بنانے کے علاوہ 97 رنز کے عوض 3 وکٹیں لینے کے علاوہ انہوں نے کراچی میں 152/2 اور فیصل آباد میں 57/1 کی کارکردگی دکھائی تاہم سیالکوٹ کے ٹیسٹ میں انہیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔ ایک سال کے وقفے کے بعد نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے دورئہ پاکستان میں عبدالقادر نے کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں ایک اور لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں 3/48 کی کارکردگی دکھائی اور اگلے مہینے 1990-91ء میں ویسٹ انڈیز کے دورئہ پاکستان میں بھی عبدالقادر قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے حالانکہ یہ ان کی آخری سیریز تھی۔ کراچی کے ٹیسٹ میں 78/1 اور لاہور کے ہوم گرائونڈ میں 94 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کرکے ان کے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام ہوگیا۔
 
 
=== اعدادو شمار ===