"محسن خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 106:
1982-83ء میں لاہور میں بھارت کے خلاف پاکستان کے اوپنر کے طور پر کھیلتے ہوئے، انہوں نے پاکستان کی دوسری اننگز میں 135/1 کے مجموعی مجموعے میں سے 101 رنز ناٹ آؤٹ بنائے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں کسی ٹیم کا سب سے کم اسکور ہے جس میں سنچری شامل ہے۔
=== ٹیسٹ کیرئیر===
محسن جنوبی ایشیائی کھلاڑیوں میں سے ایک اقلیت تھے جنہوں نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کے حالات کو پورا کیا، 1983/84ء میں آسٹریلیا میں لگاتار دو سنچریاں اسکور کیں اور لارڈز میں ٹیسٹ ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بلے باز بن گئے، جس نے اس نے پہلے 1982ء میں کیا تھا۔محسن خان کو 1978-79ء کی سیریز میں انگلستان کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع ملا جس میں انہوں نے 44 رنز بنائے۔ اسی سیزن میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا۔ برمنگھم کے ٹیسٹ میں انہوں نے 35 اور 38 جبکہ لارڈز کے ٹیسٹ میں 31 اور 46 بنائے۔ سیریز کے آخری ٹیسٹ میں لیڈز کے مقام پر 41 رنز بنائے۔ وہ 1982ء تک ملی جلی کارکردگی کے ساتھ کرکٹ مقابلوں میں شریک رہے۔ 1982ء میں جب سری لنکا نے پاکستان کا دورہ کیا تو فیصل آباد کے ٹیسٹ میں انہوں نے 74 رنز کی اننگ کھیلی جو ان کی ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی نصف سنچری تھی۔ لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں انہوں نے شاندار اننگ کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کی باری 500 رنز 7 کھلاڑی آئوٹ پر ڈکلیئر کردی۔ اننگ میں ظہیر عباس 134 رنز، محسن حسن خان 129 رنز سکور کئے۔ 173 گیندوں پر بننے والے ان رنزوں میں تکمیل میں انہوں نے 17 چوکے رسید کئے تھے۔ سری لنکا کی ٹیم پہلی اننگ میں 240 بنا سکی تھی، دوسری اننگ میں 158 رنز پر آئوٹ ہوگئی۔ اس طرح پاکستان نے یہ ٹیسٹ ایک اننگ اور 102 رنز سے جیت لیا۔ محسن حسن خان کیلئے یہ ٹیسٹ سیریز اتنی اہم ثابت ہوئی کہ آنے والے سالوں میں وہ کرکٹ ٹیم کا مستقل حصہ بن گئے۔ 1982ء میں پاکستان نے انگلستان کا وہ مشہور دورہ کیا جس میں محسن خان نے لارڈز کے کرکٹ گرائونڈ پر ڈبل سنچری بنائی تھی حالانکہ برمنگھم کے پہلے ٹیسٹ میں وہ 26 اور 35 تک ہی محدود رہے لیکن لارڈز کا ٹیسٹ ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا جہاں انہوں نے پاکستان کی پہلی اننگ 428 رنز 8 وکٹوں کے نقصان پر بنائے۔ محسن خان نے اوپنر کی حیثیت سے کئی ریکارڈ بنائے۔ انہوں نے 386 گیندوں پر 23 چوکوں کی مدد سے یہ 200 رنز بنائے۔ اس دوران انہوں نے منصور اختر کے ساتھ مل کر دوسری وکٹ کیلئے 143 رنز بنائے جبکہ چوتھی وکٹ کیلئے جاوید میانداد کے ساتھ سکور میں 153 رنز کا اضافہ کیا۔ انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا تھا۔ 1982ء کے سیزن میں ہی آسٹریلیا کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تو محسن حسن خان اپنی کارکردگی کے عروج پر تھے۔ انہوں نے کراچی میں 58، فیصل آباد میں 76 رنز کی باریاں سکور کیں لیکن لاہور میں انہوں نے ایک اور سنچری سکور کردی۔ انہوں نے 135 رنز بنائے۔ یہ ٹیسٹ بھی پاکستان کی 9وکٹوں سے فتح پر ختم ہوا تھا جس کے مرد میدان عمران خان تھے جنہوں نے میچ میں 8وکٹیں لیں۔ محسن خان نے پاکستان کی 467 رنز کی اننگ میں ایک بڑا حصہ ڈالا تھا۔ جاوید میانداد کے 138 کے بعد یہ محسن خان ہی تھے جنہوں نے 218 گیندوں پر 17 چوکوں کی مدد سے یہ اننگ ترتیب دی تھی۔ اسی سیزن میں بھارت کی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان کے دورہ پر آ موجود ہوئی۔ لاہور کے پہلے ٹیسٹ میں ہی انہیں محسن حسن خان کی بلے بازی کے جوہر دیکھنے کو ملے جہاں اس نے پہلی اننگ میں 94 اور دوسری اننگ میں 101 ناقابل شکست رنز سکور کئے تاہم کراچی، فیصل آباد، حیدر آباد اور لاہور کے ٹیسٹوں میں وہ کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ 1983ء کے سیزن کے آغاز میں ہی بھارت نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی کے ٹیسٹ میں ان کے 91 رنز کی باری بھی ہمیں دیکھنے کو ملی۔ پاکستان کے جوابی دورے میں وہ 44 رنز کی ایک باری ناگپور کے ٹیسٹ میں کھیلنے کے علاوہ کوئی نمایاں اننگ کا نہ کھیل سکے۔ اسی سیزن میں پاکستان نے آسٹریلیا کا دورہ کیا۔ اس دورے میں انہوں نے 2 سنچریاں سکور کیں۔ پرتھ، برسبین اور سڈنی کے ٹیسٹوں میں اگرچہ رنز ان کے بلے سے ناراض رہے لیکن ایڈیلیڈ کے تیسرے ٹیسٹ میں ان کا دائو چل گیا جب پاکستان نے آسٹریلیا کے 465 رنز کے جواب میں 624 رنز بنا ڈالے۔ اس میچ میں محسن خان کی 16چوکوں سے مزین 149 رنز کی باری بھی شامل تھی۔ جاوید میانداد 131، قاسم عمر 113 اور سلیم ملک 77 نے بھی اس میں حصہ ڈالا تھا۔ اس دوران انہوں نے قاسم عمر کے ساتھ مل کر دوسری وکٹ کیلئے 233 رنز سکور کئے۔ میچ بڑی اننگز کی وجہ سے ڈرا پر ختم ہوا۔ چوتھے ٹیسٹ میں بھی محسن حسن خان نے اپنی کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 470 رنز بنائے جس میں محسن خان 152، عمران خان 83، عبدالقادر 45 نے نمایاں حصہ ڈالا تھا تاہم دوسری باری میں محسن خان صرف 3 رنز ہی بنا سکے۔ سڈنی میں 14 اور 1 رنز کے ساتھ یہ سیریز بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔ وطن واپسی پر ان کا سامنا انگلستان کی ٹیم سے ہوا۔ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں 54 رنز بنانے کے بعد فیصل آباد میں 20 اور 2 جبکہ لاہور کے آخری ٹیسٹ میں انہوں نے ایک بار پھر 104 رنز پر مشتمل ایک بڑی اننگ کھیلی۔ اگلا دورہ بھارت کا تھا جس میں انہوں نے فیصل آباد کے مقام پر 59 رنز بنائے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف اگلے ٹیسٹ میں انہوں نے ایک اور نصف سنچری 58 رنز سکور کئے۔ اس کے بعد اگلے ٹیسٹوں میں نیوزی لینڈ کے خلاف ان کی کارکردگی ملی جلی رہی۔ تاہم انہوں نے 1985ء میں سری لنکا کے خلاف سیالکوٹ میں 85 اور 44 رنز سکور کئے۔ 1986ء میں سری لنکا کے خلاف 35 اور 1986ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنی آخری سیریز میں 40 اس کا بہترین سکور تھا۔ 1986ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کراچی کے آخری ٹیسٹ میں وہ بالکل ناکام رہے اور انہوں نے 1 اور 4 رنز پر ہی ہمت ہار دی اور یوں اپنے آخری ٹیسٹ کو یادگار نہ بنا سکے۔
محسن جنوبی ایشیائی کھلاڑیوں میں سے ایک اقلیت تھے جنہوں نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کے حالات کو پورا کیا، 1983/84ء میں آسٹریلیا میں لگاتار دو سنچریاں اسکور کیں اور لارڈز میں ٹیسٹ ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بلے باز بن گئے، جس نے اس نے پہلے 1982ء میں کیا تھا۔
 
 
=== ون ڈے کرکٹ کیرئیر===