"اعجازاحمد (کرکٹ کھلاڑی)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 65:
اعجاز احمد کو 1987ء میں بھارت کے خلاف چنئی میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا موقع دیا گیا تھا جس میں وہ صرف 3 رنز ہی بنا پائے۔ اسی سیزن میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا تو اعجاز احمد ٹیم کا حصہ تھے۔ انہوں نے لارڈز کے پہلے ٹیسٹ میں تو ان کی باری نہ آئی مگر لیڈز کے ٹیسٹ میں انہوں نے اپنی پہلی نصف سنچری سکور کی۔ برمنگھم کے اگلے ٹیسٹ میں وہ 20 اور 11 رنز ہی بنا سکے۔لیکن اوول کے ٹیسٹ میں انہوں نے ایک بار پھر 69 رنز کی اننگ کے ساتھ سیریز کا شاندار اختتام کیا۔ 1987ء کے آخر میں انگلستان کے جوابی دورے میں وہ صرف لاہور کے ٹیسٹ میں 41 رنز بنا سکے، جبکہ فیصل آباد اور کراچی کے بقیہ 2 ٹیسٹوں میں ان کی کارکردگی نمایاں نہ تھی۔ 1988ء میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا۔ تو اعجاز احمد نے جارج ٹائون کے ٹیسٹ میں 31 اور پورٹ آف سپین کے دوسرے ٹیسٹ میں 43 رنز سکور کئے۔ آسٹریلیا کی ٹیم کے دورئہ پاکستان 1988ء میں وہ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں صرف 12 رنز پر ہی کریز چھوڑ گئے تاہم فیصل آباد کے دوسرے ٹیسٹ میں وہ ایک بڑی اننگ کھیلنے میں کامیاب رہے۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 316 رنز بنائے جس میں 221 گیندوں پر 297 منٹ میں 17 چوکوں اور 2 چھکوں کی مدد سے 122 رنز اس کے کھاتے میں درج ہوئے۔ سلیم یوسف 62 اور جاوید میانداد 43 کے ساتھ بھی اس اننگ کو تعمیر کرنے میں معاون ثابت ہوئے۔ آسٹریلیا کی ٹیم نے 321 رنز بنائے۔ دوسری اننگ میں بدقسمتی سے اعجاز بغیر کوئی رن بنائے آئوٹ ہوئے۔ لاہور میں 23 اور 15 رنز ان کے حصے میں آئے۔2 سال کے بعد 1990ء میں پاکستان نے آسٹریلیا کا جوابی دورہ کیا۔ میلبورن کے پہلے ٹیسٹ میں اعجاز احمد نے آسٹریلیا میں اپنی پہلی سنچری سکور کی۔ یہ ٹیسٹ اگرچہ آسٹریلیا نے 92 رنز سے جیت لیا تھا تاہم وسیم اکرم 11 وکٹیں لے کر اس ٹیسٹ کے مرد میدان رہے تھے۔ آسٹریلیا نے پہلے کھیلتے ہوئے 223 رنز بنائے تھے جس میں وسیم اکرم نے 6/62 کے ساتھ ان کی خوب خبر لی تھی۔ پاکستان کی ٹیم صرف 107 پر ہی آئوٹ ہوگئی تھی۔ اعجاز احمد نے اس میں صرف 19 رنز کا حصہ ڈالا تھا۔ اس کا سبب آسٹریلوی بولرز کی تباہ کن بولنگ تھی۔ ٹیری آلڈرمین، کارل ریکمین اور مرو ہیوز نے 3,3 کھلاڑیوں کو اپنے چنگل میں پھنسایا۔ آسٹریلیا نے دوسری اننگ میں 312 رنز سکور کئے۔ وسیم اکرم نے 98/5 کے ساتھ اپنی شاندار بولنگ کا کرشمہ پیش کیا تھا۔ اعجاز احمد 121، جاوید میانداد 65، عمران خان 45 اور سلیم یوسف 38 کے ساتھ پاکستان نے اپنی دوسری اننگ میں 36 رنز بنائے تھے۔ تاہم انہیں جیتنے کیلئے 429 رنز کا ہدف ملا تھا جس کیلئے قومی ٹیم کو پورا وقت نہیں ملا تھا۔ایڈیلیڈ کے دوسرے ٹیسٹ میں اعجاز احمد 28 اور 4 جبکہ سڈنی کے تیسرے ٹیسٹ میں صرف 8 رنز بنا سکے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کے دورے پر آئی نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے خلاف کراچی کے مقام پر ان کے حصے میں صرف 9 رنز آئے لیکن اس کے باوجود انہیں ٹیم میں شامل رکھا گیا اور لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں وہ ایک اور نصف سنچری کے ساتھ سامنے آئے۔ اس بار انہوں نے 86 رنز سکور کئے تاہم فیصل آباد کے تیسرے ٹیسٹ میں وہ 5 اور 6 کی باریاں ہی ٹیم کو دے سکے۔
===1994ء کا کرکٹ سیزن===
1994ء میں انہیں دوبارہ پاکستان ٹیم میں طلب کیا گیا جب آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی۔ انہوں نے لاہور کے ٹیسٹ میں 48 اور 6 کی کارکردگی دکھائی۔ اگلے سال انہیں سائوتھ افریقہ کے دورے پر لے جایا گیا مگر انہیں ایک ہی ٹیسٹ میں شرکت کا موقع ملا جس میں وہ جوہانسبرگ کے مقام پر 19 اور 1 تک ہی محدود رہے۔ اس دورے کے بعد پاکستان کی ٹیم زمبابوے کے دورے پر تھی جہاں اعجاز احمد نے ہرارے کے ٹیسٹ میں 65 ، بلاویو کے ٹیسٹ میں 76 اور ہرارے کے تیسرے ٹیسٹ میں 41 اور 55 کی نسبتاً بہتر کارکردگی پیش کی۔
 
===اعداد و شمار===