"اعجازاحمد (کرکٹ کھلاڑی)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 69:
اس سیزن میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا۔ لارڈز کے ٹیسٹ میں اعجاز احمد 76 رنز کی خوبصورت باری ٹیم کو دینے میں کامیاب رہے جبکہ لیڈز کے ٹیسٹ میں ان کے بلے سے ایک اور سنچری نے جنم لیا۔ پاکستان نے اپنی پہلی اننگ میں 448 رنز بنائے تھے۔ 201 گیندوں پر 279 منٹ میں اعجاز احمد نے 141 رنز کا مجموعہ ترتیب دیا جس میں 20 چوکے اور 2 چھکے بھی شامل تھے۔ معین خان نے بھی 105، سلیم ملک 55 اور آصف مجتبیٰ نے 51 رنز کے ساتھ سکور میں اضافہ کیا تھا۔ اعجاز احمد نے دوسری اننگ میں بھی 52 رنز سکور کئے۔ یہی نہیں بلکہ اوول کے آخری ٹیسٹ میں انہوں نے 61 رنز کی ایک اور باری ٹیم کو منتقل کی۔تاہم حیرت انگیز طور پر وہ زمبابوے کے دورہ پاکستان کے موقع پر بیٹنگ میں ناکام رہے۔ شیخوپورہ میں 9 اور فیصل آباد ٹیسٹ میں وہ محض 2 رنز ہی بنا سکے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں بھی ان کی رسائی 3 اور 8 تک ہی ہوسکی جس پر ان کے انتخاب پر گہرے سوالات نمودار ہوئے جس کا انہوں نے موثر جواب راولپنڈی کے ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف 125 رنز سے خوب دیا۔ انہوں نے 198 گیندوں پر 273 منٹ میں 19 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 125 کی اننگ کھیل ڈالی۔ جبکہ سعید انور جو اس میچ میں پاکستان کے کپتان تھے نے بھی 149 رنز، سلیم ملک نے 78 رنز کا حصہ ڈالا۔ اس کے بعد پاکستان نے سری لنکا کا دورہ کیا تو اعجاز احمد نے کولمبو کے پریما داسا سٹیڈیم میں 113 رنز کی ایک اور سنچری کا جادو جگایا تاہم اگلے ٹیسٹ میں وہ 4 اور 47 تک ہی کامیاب دکھائی دیئے۔
===1997-98ء کا ٹیسٹ سیزن===
اس سیزن میں اس کا پہلا سامنا جنوبی افریقہ کی مہمان ٹیم سے ہوا۔ راولپنڈی کے ٹیسٹ میں 11 اور 16 جبکہ فیصل آباد کے ٹیسٹ میں صرف 16 رنز نے اس کے مداحوں کو تشویش میں مبتلا کیا۔ شیخوپورہ کے ٹیسٹ میں اس کی باری نہیں آ سکی تھی۔ اعجاز احمد کی اگلی آزمائش ویسٹ انڈیز کے خلاف تھی جس نے نومبر 1997ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ پشاور کے ٹیسٹ میں اعجاز احمد نے 65 اور راولپنڈی میں 10 رنز سکور کئے۔ لیکن اس سیریز میں کراچی کے مقام پر اس کی 151 رنز کی اننگ قابل دید تھی۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے خلاف 10 وکٹوں سے جیتے جانے والا یہ ٹیسٹ ثقلین مشتاق کی 9 وکٹوں کی مرہون منت تھا۔ تاہم بیٹنگ میں عامر سہیل 160 اور اعجاز احمد 151 رنز کے ساتھ رنز کا پہاڑ کھڑا کرنے میں کامیاب رہے۔ اعجاز احمد نے اپنی سنچری کیلئے 337 گیندوں کا سامنا کیا جس کیلئے انہیں 485 منٹ کریز پر گزارنے پڑے۔ 1998ء کے اوائل میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم جنوبی افریقہ کے دورے پر گئی مگر حیرت انگیز طور پر اعجاز احمد 34 رنز کی ایک بڑی اننگ کھیلنے کے علاوہ متاثر نہ کرسکے۔کرسکے۔اسی سیزن میں اسے زمبابوے کے خلاف بلائیو کے ایک ٹیسٹ میں شرکت کا موقع دیا گیا مگر وہ 23 اور 15 ہی بنا سکے۔ لیکن آسٹریلیا کے دورہ پاکستان کے 2 ٹیسٹ اس کیلئے اطمینان کا باعث تھے کیونکہ اس نے پشاور کے دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان کی اننگ 580 میں 155 رنز کا حصہ ڈالا تھا۔ جبکہ سعید انور کے 126 رنز بھی قابل دید تھے۔ انضمام الحق بدقسمتی سے 3 رنز کی کمی سے اپنی ٹیسٹ سنچری سے محروم رہے لیکن اس میچ کی خاص بات آسٹریلوی کپتان مارک ٹیلر کی ٹرپل سنچری تھی جنہوں نے 564 گیندوں پر 720 منٹ میں ناقابل شکست 334 رنز بنائے۔ ان کی یہ سنچری کی نسبت آسٹریلیا 4 وکٹوں پر 599 رنز کا ہدف دینے میں کامیاب رہا۔ اعجاز احمد کیلئے کراچی کا تیسرا ٹیسٹ بھی خوش قسمت ثابت ہوا کیونکہ اس نے پہلی اننگ میں تو صرف 5 رنز تک ہی رسائی حاصل کی مگر دوسری اننگ میں 120 ناٹ آئوٹ کے ساتھ اس نے اپنی سنچریوں میں ایک اور تیسرے ہندسے کا اضافہ کیا۔
 
===اعداد و شمار===