"روشن خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 6:
روشن خان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ کچھ لوگوں کو ان کے سخت مزاجی سے شکوہ رہا لیکن درحقیقت اس تلخی کے پیچھے وہ حالات اور واقعات تھے جن کا سامنا روشن خان کو اپنے کریئر کے دوران کرنا پڑا۔ لیکن جو لوگ انہیں قریب سے جانتے تھے وہ بتاتے ہیں کہ روشن خان اندر سے ایک نرم مزاج انسان تھے۔ روشن خان نے ایک انٹرویو میں ان مشکل حالات کا تفصیل سے ذکر کیا تھا۔
 
{{cquote|ʹمیں راولپنڈی کلب میں اپنے والد فیض اللہ خان کے ساتھ کام کرتا تھا لیکن بہتر مستقبل کی خاطر میں راولپنڈی سے کراچی آ گیا مگر میرے پاس سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ تھا نہ کوئی ملازمت تھی۔ میں نے کئی راتیں سڑکوں پر گزاری تھیں۔}} یہ وہ دور تھا جب [[ہاشم خان]] نے برٹش اوپن جیت کر اپنی شناخت کروا لی تھی۔ انہیں پاکستان فضائیہ نے لندن بھجوانے کا انتظام کیا تھا۔ روشن خان بھی انہی کی طرح اپنی پہچان بنانا چاہتے تھے لیکن حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ روشن خان نے سنہ 1949ء میں کاکول میں پاکستان پروفیشنل سکواش چیمپئن شپ جیتی تھی لیکن اس میں ہاشم خان نہیں کھیلے تھے۔ روشن خان چاہتے تھے کہ ان کی صلاحیت کا پتہ اس وقت چلے گا جب وہ ہاشم خان سے مقابلہ کریں گے۔روشن خان کے ذہن میں یہ تھا کہ ہاشم خان پاکستان میں چیمپئن شپ نہیں کھیلتے ہیں لہذا کراچی میں ان کے لیے مواقع ہو سکتے ہیں کہ وہ یہاں سے لندن جاکر قسمت آزمائی کر سکیں۔ اس دوران ان کے بڑے بھائی نصراللہ نے جو کراچی میں ٹینس اور سکواش کھیلتے تھے، نے ان کی مدد کی۔ 1952ء میں جب پاکستان پروفیشنل چیمپئن شپ ہوئی تو ہاشم خان اور ان کے چھوٹے بھائی [[اعظم خان]] نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ روشن خان کا خیال تھا کہ یہ دونوں بھائی جان بوجھ کر ان سے کھیلنا نہیں چاہتے تھے۔ روشن خان نے ایک بار پھر چیمپئن شپ جیت لی لیکن انہیں ہاشم خان کے ساتھ نہ کھیلنے کا دکھ تھا۔نصراللہ خان نے ایک تجویز نکالی اور ہاشم خان اور روشن خان کے درمیان چیلنج میچ کرانا چاہا جس کے لیے انہوں نے پانچ سو روپے انعام کا اعلان بھی کیا لیکن ہاشم خان نے اس میں بھی کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
=== سیاست عروج پر تھی===
 
سنہ 1952 میں جب پاکستان پروفیشنل چیمپئن شپ ہوئی تو ہاشم خان اور ان کے چھوٹے بھائی اعظم خان نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ روشن خان کا خیال تھا کہ یہ دونوں بھائی جان بوجھ کر ان سے کھیلنا نہیں چاہتے تھے۔ روشن خان نے ایک بار پھر چیمپئن شپ جیت لی لیکن انھیں ہاشم خان کے ساتھ نہ کھیلنے کا دکھ تھا۔نصراللہ خان نے ایک تجویز نکالی اور ہاشم خان اور روشن خان کے درمیان چیلنج میچ کرانا چاہا جس کے لیے انھوں نے پانچ سو روپے انعام کا اعلان بھی کیا لیکن ہاشم خان نے اس میں بھی کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔روشن خان نے بتایا تھا کہ یہ وہ دور تھا جب وہ قومی چیمپئن ہونے کے باوجود انگلینڈ میں ہونے والے مقابلوں میں شرکت سے محروم تھے جبکہ اس دور میں ہاشم خان، اعظم خان، سفیراللہ اور محمد امین انگلینڈ جا رہے تھے۔ان کے مطابق محمد امین کراچی جمخانہ اور سفیراللہ سندھ کلب سے وابستہ تھے لیکن یہ دونوں ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے بلکہ انھیںانہیں ان دونوں جگہوں میں کھیلنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔روشن خان کے مطابق ’سیاست اپنے عروج پر تھی۔‘ ان کا کہنا تھا ʹراتکہ اس کے باوجود میں رات کے وقت میں ایک کھلے میدان میں جا کر دوڑ لگایا کرتا تھا تاکہ خود کو فٹ رکھ سکوں۔ اسی میدان میں انٹرکانٹینٹل ہوٹل بنا۔ ایک دن میں نے مایوسی کے عالم میں بڑے بھائی نصراللہ سے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ مجھے ہاشم خان اور دوسرے کھلاڑیوں سے کھیلنے کا موقع مل سکے گا لہذا مجھے کوئی نوکری تلاش کرنی چاہیے تاکہ گزر اوقات ہو سکے۔ʹ
 
===پاکستان نیوی کی نوکری===