"احمد سرہندی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ردِّ ترمیم بصری خانہ ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ردِّ ترمیم بصری خانہ ترمیم)
سطر 27:
 
=== از نسلِ خلیفہ دوم، [[عمر بن خطاب|امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ]] ===
[[سرہند شریف]] ([[ہندوستان]])[[14ء|14]]<nowiki/>شوال [[971ھ]] 
 
[[28ء|28]]<nowiki/>صفر [[1032ھ]] [[سرہند شریف|سرہندشریف]]
سطر 326:
== رُشد و ہدایت ==
 
جب آپ کو تجدیدِدین اور قیومِ زمان کا خلعت پہنایا جا چکا تو آپ کے کمالات کا شُہرہ عالمگیر ہو گیا۔ خلقت آپ کے گرد موروملخ کی طرح جمع ہونا شروع ہو گئی۔ ہر ملک میں آپ کے خلفا  ئپہنچ گئے، رُشدو ہدایت کا بازار گرم ہوا، فرماں روایانِ ایران و توران و بدخشاں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔
 
بادشاہِ ہندوستان جہانگیر کے لشکر میں بھی چیدہ چیدہ لوگ آپ کے حلقہئ اِرادت میں داخل ہوئے، جن میں سے شیخ بدیع الدین قدس سرہٗ  آپ کے نامور خلفا ئمیں سے تھے۔
 
== وزیر آصف جاہ کا خبث ِباطن ==
جب ارکانِ سلطنت کی کثیر تعداد نے آپ سے بیعت کر لی تو شدہ شدہ یہ خبر آصف جاہ وزیر اعظم(1)، جو شیعہ مذہب کا پیرو تھا،تک پہنچی (اورجو پہلے آپ کے تصنیف کردہ رسالہ”ردِ ّ روافض“ کی وجہ سے بھی آپ کے خلاف ہو گیا تھا،) اُسے  خلیفہ بدیع الدینقدس سرہٗ  کا لشکر میں قیام اور اشاعت ِطریقہ نقشبندیہ بہت ناگوار تھی اور شب و روز موقع کی جستجومیں تھا، ایک روز بادشاہ کو خلوت میں عرض کی؛
 
”حضور! سر ہند شہر کے ایک مشائخ زادہ شیخ احمد جس نے مختلف درویشوں سے خلافت پائی ہے اور مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ہے، اس نے اپنے سینکڑوں خلفأ ملک در ملک بھیج دئیے ہیں، لکھوکھ ہا آدمی اُس کے خلفا ئکے مرید ہیں اور اس سے زیادہ اس کے اپنے مرید ہیں، ہمارے لشکر میں بھی اُن کا ایک خلیفہ مقیم ہے اور اُمرا ئسلطانی خانِ خاناں، فرید بخاری، سیّد صدر جہاں، خان جہاں خان، مہابت خاں، تربیت خاں، اسلام خاں، سکندر خاں، دریا خاں، مرتضیٰ خاں اس کے مرید اور حلقہ بگوش ہو گئے ہیں اور اب معلوم ہوا ہے کہ اس نے ایک لاکھ سوارمسلح اور بے شمار پیادے تیار کر لئے ہیں۔ خوفِ ہے کہ غفلت میں کوئی ناخوشگوار واقعہ ظہور پذیر نہ ہو جائے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر اُمرا  ئ اس کے معتقد ہیں، ان کے تبادلے دُور دراز علاقوں میں کر دئیے جائیں۔“
 
بادشاہ کو وزیر کی رائے بہت پسند آئی چنانچہ دوسرے ہی روز علی الصبح دربارِ خاص منعقد کر کے خانِ خاناں کو ملک دکن کی صوبہ داری، صدر جہاں کو بنگال کی صوبہ داری، خان جہاں کو صوبہ مالوہ کی صوبہ داری اور مہابت خاں کو کابل کی صوبہ داری پر اور اسی طرح سے چار سو امرا  ئکو جو حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کے معتقد ِخاص تھے، دُور دراز کے علاقوں کا حاکم بنا کر بھیج دیا۔جب ان سب امرا ئکے مقاماتِ مبتدأ پر پہنچنے کی اطلاع مل گئی تو جہانگیر بادشاہ نے ایک شاہی فرمان حضرت شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ کے نام(جس میں آپ کی ملاقات کا شوق ظاہر کر کے آپ کو معہ مریدین خاص دعوت دی گئی) حاکمِ سرہند کو ارسال کیا کہ خود حاضر ہو کر حضرت صاحب کو پیش کرے۔
 
== ِجُرمِ محبت ==
اِدھر شَیخ مجدد قدس سرہ العزیز کی مجلس میں روزانہ اپنے خدام میں اِسی موضوع پر بیان ہوتا کہ وما من نبی الَّااوذی۔ یعنی ایسا کوئی نبی نہیں جس کو راہِ خدا میں تکلیف نہ ہوئی ہو،  وما من ولی الارابتلیٰ۔ یعنی کوئی ولی ایسا نہیں جس کو بلاؤں میں نہ رکھا گیا ہو او ر  والبلاء بقدرالولاء۔یعنی بلاء بقدرِ محبت آتی ہے، اس لئے اب رضائے الٰہی ایسی ہی معلوم ہوتی ہے۔
 
اُنہی دنوں حاکمِ سرہند شاہی فرمان لے کر حاضر ہوا۔ ہر چند کہ معتقدین نے اصرار کیا کہ بادشاہ کے دربار میں جانے سے آپ کو سخت خطرہ ہے لیکن آپ تن تنہا حاکمِ کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئے کیونکہ    ؎
 
'''بہ جُرم عشقِ تو ام می کشند و غوغا ئیست'''
 
'''تو نیز بر سر بام آعجب تماشا ئیست'''
 
(اِلٰہی! تیرے عشق کے جرم میں یہ لوگ مجھے کھینچتے ہیں شور برپا ہے،تو سب کچھ دیکھ رہا ہے، عجب تماشا ہے)
 
== شہزادہ خرم کی سعی ==
دربار میں حاضری سے پہلے شہزادہ خرم (بعد کا شاہجہان)(1) جو آپ کا زبردست معتقد تھا اور جانتاتھا کہ دربار میں بادشاہ آپ سے سجدہئ تعظیم کا تقاضا کرے گا،نے خواجہ مفتی عبدالرحمن (2)اور علامہ افضل خاں کو بمعہ کتب متعلقہ حضرت شیخ مجدد قدس سرہٗ کی خدمت میں بھیجا تو مفتی صاحب نے دلیل پیش کی کہ فقہ ایسے سجدہ کو جائز قرار دیتی ہے جو زندگی بچانے کے لئے کسی جابر سلطان کو کیا گیا ہو، ان حالات میں تعظیمی سجدہ حرام نہیں رہتا۔
 
== حضرت مجدد الف ثانی کی عزیمت ==
حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے جو جواب دیا، وہ رہتی دُنیا تک یاد گار رہے گا۔ آپ نے فرمایا؛
 
'''”یہ حکم بطور رُخصت (مصلحت) ہے،جان بچانے کے لئے، لیکن بطور عزیمت یہ حکم اٹل ہے کہ غیر حق کو سجدہ نہ کیا جائے۔“'''
 
مفتی عبدالرحمن اور علامہ افضل خاں آپ کی جرأت اور عزیمت پر عش عش کر اُٹھےاورآپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے واپس آکر شہزادہ خرم کو حالات کی اطلاع د ی۔
 
== گردن نہ جھکی ==
حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ جب جہانگیر کے دربار میں اِس شان سے داخل ہوئے کہ بادشاہ اس مردِ مومن کی دلیری اور جرأت کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا کیونکہ حضرت مجدد نے دربار جہانگیر میں آئین دربار کے مطابق بادشاہ کو سجدہ کرنے کی بجائے السلام علیکم ورحمۃ اللہ یا امیر المومنین کہا تو جہانگیر نے اپنی عادت کے خلاف سکوت اختیار کر لیا اور حضرت پر اعتراض نہ کیا لیکن اسی وقت وزیر آصف جاہ بادشاہ سے کہنے لگا؛
 
'''”یہی وہ شخص ہے جو آپ کو سجدہ نہیں کرتا اور اپنے آپ کو نعوذباللہ حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے افضل کہتا ہے۔“'''
 
اس کے بعد بادشاہ کو آپ کا وہ مکتوب پیش کیا جو آپ نے اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ العزیز کو تحریر فرمایا تھا اس میں آپ کی رُوحانی سیر کا ذکر کر کیا گیا تھا؛
 
”اور اس مقام سے اوپر ایک مقام پر جب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مقام ہے اور دوسرے خلفا ء کو بھی اس مقام سے عبور حاصل ہو چکا ہے۔ اس مقام سے بھی اوپر حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کا مقام ظاہر ہوا اس مقام پر بھی پہنچنا نصیب ہوا۔ حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے بالکل مقابل ایک اور مقام ظاہر ہوا جو نہایت ہی نورانی تھا۔ ایسا نورانی مقام کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا اور حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے مقام سے کچھ بلند تھا جس طرح چپوترے کو زمین سے قدرے بلند بناتے ہیں اور معلوم ہوا کہ وہ مقام محبوبیت ہے یہ مقام رنگین اور منقش تھا مَیں نے اس کے پر تو سے اپنے آپ کو بھی رنگین اور منقش پایا۔ اس کے بعد اِسی کیفیت میں اپنے آپ کو لطیف پایا اور ہوا کی طرح یا قطعہ بادل کی طرح آفاق میں منتشر دیکھا۔“
 
مندرجہ بالا مکتوب پیش کر کے کہا کہ یہ شخص خود کو حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہسے بلند مرتبہ سمجھتا ہے تو بادشاہ نے برہمی سے پوچھا؛کیا یہ دُرست ہے کہ تم خود کو حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے بلند مرتبہ سمجھتے ہو؟ آپ نے جواب دیا؛
 
”ہر گز نہیں! یہ کس طرح ممکن ہے کہ مَیں اِس گستاخی کا مرتکب ٹھہروں؟“
 
بادشاہ نے پھر پوچھا: پھر آپ کی اس تحریر کا کیا مطلب ہے؟“
 
'''آپ نے فرمایا؛ ”مَیں نے اپنی سیرو عروج کا حال اپنے پیرو مرشد کو لکھا ہے اور اس حال سے صوفیا  ئکو گزرنا پڑتا ہے اور انہیں پھر اپنے مرتبے اور حال میں واپس آنا پڑتا ہے۔“'''
 
== بے نظیر مثال ==
پھر آپ نے ایک بے نظیر مثال پیش کی، آپ نے پنج ہزاری، دس ہزاری امرأکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا؛
 
”اب اگر ان معزز امرا  کی موجودگی میں بادشاہ ان سے کم مرتبہ شخص کو اپنے قریب بلائے اور اس سے کچھ راز کی باتیں کہہ کر واپس کر دے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ان امرا کا مرتبہ گھٹ گیا اور اس کم مرتبہ شخص کا رُتبہ بڑھ گیا۔
 
== سجدہ تعظیم کے خلاف استقامت ==
بادشاہ اس دلیل سے قطعی طور پر قائل ہو گیا اور آپ کے جواب سے دِل میں خوش ہوا اور کچھ دیر پہلے آپ کے خلاف جو جذبہ موجزن تھا، وہ سرد پڑ گیا لیکن اِسی وقت ایک خوشامدی امیر نے بادشاہ سے عرض کیا؛”حضور والا! اس شخص کے تکبر اور رعونت کو دیکھیں کہ آپ ظل اللہ اور خلیفۃ اللہ ہیں اور یہ خود بھی آپ کے اس مرتبہ سے واقف ہے لیکن حال یہ ہے کہ سجدہ تعظیمی تو بہت دُور رہا معمولی احترام و تواضع بھی نہیں بجا لایا۔“
 
قدر کے باوجود ایک مردِ درویش کی صرف گردن جھکانے میں ناکام ہو گیا وہ مردِ درویش حضرت مجدد الف ثانی، نقشبندیوں کے بے تاج شہنشاہ،خود شناسی اور حق آگاہی کی قوت سے اپنے وقت کی سب سے بڑی طاغوتی طاقت سے نبردآزما تھے۔
 
جب یہ حربہ بھی ناکام ہو گیا تو مجبوراً جہانگیر نے حکم دیا کہ ان کو اس چھوٹے سے دروازے میں سے گزارا جائے تاکہ جب یہ اس میں سے جھک کر گزریں تو اسی کو سجدہ تعظیمی تصور کر لیا جائے۔ آپ کو جب اس چھوٹے سے دروازے سے گزرنے کا حکم دیا گیا تو آپ نے اس دروازے میں سے پہلے ایک ٹانگ گزاری پھر دروازے کو پکڑکر دوسری ٹانگ گزاری اور پھر سر کو پیچھے کی طرف جھکا کر دروازے سے نکل گئے اور اُن کے نفسِ گرم کی گرمی سے بادشاہ کے تمام حربے ناکام ہو گئے   ؎
 
'''گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے'''
 
'''جس کے نفسِ گرم سے ہے گر می ئ احرار'''
 
== حضرت مجدد قید میں ==
آپ کے اس سخت رویہ کو دیکھ کر امرا  ئنے بادشاہ سے کہا کہ اس شخص سے کیا بعید ہے کہ باہر جا کر شورش نہ برپا کر دے تو جہانگیر نے آپ کو گوالیار کے قلعہ میں بند کرنے کا حکم دے دیا۔
 
جہانگیر بادشاہ کا اپنا بیان
 
تزک ِجہانگیری میں خود جہانگیر اس واقعہ کے متعلق نہایت رعونت کے ساتھ لکھتا ہے؛
 
”اُنہی دنوں مجھ سے عرض کیا گیا کہ شَیخ احمد نامی ایک مکار سرہند میں مکرو فریب کا جال بچھا کر کئی نادان اور بے سمجھ لوگوں کو اپنے مکرو فریب میں پھانسے ہوئے ہے۔ ہر شہر اور علاقےمیں اس نے اپنے مریدوں میں سے ایک ایک کو جو معرفت کی دکانداری، معرفت فروشی اور لوگوں کو فریب دینے میں پوری مہارت رکھتے ہیں، خلیفہ کے نام سے مقرر کیا ہے مذخرفات اور واہیات قسم کے خطوط اپنے مریدوں اور معتقدوں کے نام لکھ کر مکتوبات کے نام سے ایک مجموعہ جمع کیا ہے۔ اس نے اس مجموعے میں اکثر ایسی فضول اور بے ہودہ باتیں لکھی ہیں جو کفر اور زندیقیت تک پہنچتی ہیں۔ ازآں جملہ اس نے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ سلوک کی منزلیں طے کرتے ہوئے میرا گزر مقامِ ذالنورین رضی اللہ عنہسے ہوا جو نہایت عالیشان اور پاکیزہ تھا، وہاں سے گزر کر میں مقامِ فاروق رضی اللہ عنہمیں پہنچا اور مقامِ فاروق رضی اللہ عنہسے مقامِ صدیق رضی اللہ عنہمیں آیا۔ اُس نے ہر مقام کی تعریف اس کے مناسب حال لکھی ہے۔ پھر اس نے لکھا کہ وہ وہاں سے گزر کر مقامِ محبوبیت میں پہنچا۔ جو نہایت منور و رنگیں تھا۔ اس مقام پر اُس نے اپنے اندر مختلف انوار اور الوان کو منعکس پایا۔ استغفراللہ! بزغمِ خود وہ خلفا  ئکے مرتبے سے بھی آگے بڑھ گیا اور ان سے بھی عالی مرتبہ پر فائز ہو گیا۔ اس کے علاوہ اس نے اور بھی گستاخانہ باتیں لکھی ہیں جن کا تذکرہ طوالت کا باعث ہے اور ادب کے خلاف ہے۔اس بنا ئ پر مَیں نے حکم دیا کہ اُسے ہماری عدالت ِآئین میں حاضر کیا جائے۔ حسب الحکم وہ حاضر کیا گیا مَیں نے اس سے جو بھی پوچھا وہ اس کا معقول جواب نہ دے سکا، بے وقوف اور کم عقل ہونے کے ساتھ نہایت مغرور اور خود پسند معلوم ہوا۔ مَیں نے اس کی اصلاح کے لئے یہی مناسب سمجھا کہ اسے چند دن قید رکھا جائے تاکہ اس کے دماغ کی شوریدگی اور اس کے ذہن کی آشفتگی دور ہو اور عوام میں اس کے مذخرفات کی وجہ سے جو شورش پھیل رہی ہے، وہ رُک جائے۔ چنانچہ اُسے انی رائے سنگھ دلن کے حوالے کیا کہ وہ اُسے قلعہ گو الیار میں بند کر دے۔(1) عبارت بالا میں جہانگیر نے حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ العزیز کے متعلق انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ الزامات لگائے ہیں یعنی;
 
# شیخ احمد مکار ہے اور سرہند میں مکرو فریب کا جال پھیلا رہا ہے۔
# اس کے خلیفہ شہر و علاقہ میں معرفت فروشی کے ذریعے لوگوں کو فریب دینے میں پوری مہارت رکھتے ہیں۔
# اس کے مکتوبات مذخرفات اور واہیات ہیں بعض کفراور زندیقیت تک پہنچانے والے ہیں۔
# بزُعمِ خود وہ خلفا ئ کے مرتبے سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔
# ہمارے سوالوں کا کوئی معقول جواب نہ دے سکا۔
# بے وقوف کم عقل، نہایت مغرور اور خود پسند معلوم ہوا اور شورش پھیلا رہا ہے۔
 
اصل واقعہ اور سوال و جواب پہلے گزر چکے ہیں۔ سوالات کے جوابات بھی تسلی بخش دئیے جا چکے تھے۔ اصل وجہ تو آخری الزام بے وقوف کم عقل مغرور اور خود پسند، شورش پھیلانا ہے اور شورش یہ تھی کہ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہی اصل وجہ تھی۔ یہی جہانگیر نے نہیں بتائی کیونکہ اس سے اصل بھید کھلتا تھا۔
 
القصہ آپ نے قلعہ میں محبوس قیدیوں میں تبلیغِ دین کا کام شروع کر دیا اور ہزاروں ہندو مسلمان ہو گئے۔ نیز کثیر التعداد مسلمان آپ کے حلقہ اِرادت میں شامل ہو گئے۔
 
== علوِہمت اور صاحبزادگان کو نصیحت ==
آپ کے صبرو تحمل، برداشت و بُردباری، علوِہمت کا اندازہ ان پندو نصائح سے ہوتا ہے جو زمانہ قید میں قلعہ گوالیار سے اپنے صاحبزادگان کو لکھیں، وہ آب ِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ انبیا ئے کرام و صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بعد ایسی علوِ ہمت اور برداشت و تحمل شاید ہی کسی فرد سے وقوع پذیر ہوئی ہو۔ آپ نے لکھا؛
 
”فرزندانِ گرامی! آزمائش کی گھڑی جتنی بھی کڑوی کسیلی ہو لیکن موقع و فرصت کی گھڑی اگر مل جائے تو غنیمت ہے۔ تمھیں اللہ تعالیٰ نے فرصت دی ہے لہٰذا اُس کا شکر بجا لاؤ اور اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور اپنا ایک لمحہ ضائع نہ کرو۔ اِن تین چیزوں میں سے کسی ایک میں اپنے کو مشغول رکھو، تلاوتِ کلام پاک، لمبی قرأت سے ادائے نماز اور کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللّٰہ  کی تکرار۔ کلمہ لا  کہتے وقت اپنے تمام مقاصد و مُرادات اور خواہشاتِ نفس کی نفی کرو کیونکہ خواہشات و مُرادات کی طلب میں اپنی اُلوہیت کا دعویٰ مستترہے، لہٰذا ساحت سینہ میں کسی خواہش کے لئے جگہ نہ ہونی چاہیے۔ نہ کوئی ہوس دماغ میں رہے تاکہ کامل طور پر بندگی ثابت ہو پھر فرمایا حتیٰ کہ میری رہائی کا مقصد جو کہ تمھارے اہم مقاصد میں سے ہے، تمھارے دِل میں نہ رہے۔
 
اللہ کی تقدیر اور اس کے فعل و اِرادہ پر راضی رہو اور کلمہ طیبہ پڑھتے وقت جانب اثبات میں (یعنی الا اللّٰہ کہتے وقت) غیب ہویت کے سوا کچھ نہ ہونا چاہیے، اپنی حویلی،سرا، کنْواں، باغ و کتب اور دوسری اشیا ئکے غم و فکر کو مزاحم نہ ہونے دو۔ یہ سب چیزیں سہل ہیں، اللہ کی رضا تمہاری رضا ہونی چاہیے۔ اگر مَیں مرتا یہ سب چیزیں جاتیں ”گودر حیاتِ مارفتہ باشد“ یعنی ان سب چیزوں کا چھوٹنا تو تھا ہی، ابھی سے چھٹ جائیں۔ اولیا  ئنے ان سب چیزوں کو خود چھوڑ دیا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے اِرادہ سے اِن چیزوں کو چھوڑ رہے ہیں لہٰذا ہم کو شکر بجالاناچاہیے کہ ہم اس کے مخلص بندوں میں سے ہوں مخلص کے لام پر فتح ہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کے پسند کئے ہوئے بندے)
 
جہاں بھی بیٹھے ہو اسی کو اپنا وطن سمجھو۔ چند روزہ حیات ہے، جہان بھی گزرے اللہ کی یاد میں گزرے۔ اپنی والدہ کو تسلی دو اور آخرت کی رغبت دِلاؤ۔ رہی ایک دوسرے سے ملاقات تو اگر اللہ کو منظور ہے میسر ہو گی ورنہ اس کی تقدیر پر راضی رہو اور دُعا کرو کہ دارالسلام میں اکٹھے ہوں اور دُنیوی ملاقات کی تلافی کو آخرت میں اللہ کے کرم کے حوالے کریں۔ الحمدللّٰہ علیٰ کل حال۔“
 
== قید سے رہائی ==
القصہ امامِ ربانی، حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز تقریباً ایک سال تک گوالیار کے قلعہ میں بند رہے۔تزک ِجہانگیری میں جہانگیر اِنتہائی ڈھٹائی سے لکھتا ہے؛ ”جمادی الآخر 1029ھ، 1630ء مَیں نے شیخ احمد سرہندی (قدس سرہٗ) کو جو اپنی دکان خود فروشی اور بے ہودہ گوئی سے سجانے کی وجہ سے بہ غرضِ تادیب چند روز قید میں رکھا تھا، اپنے حضور طلب کر کے رہا کر دیااور اسے خلعت اور ہزار روپے بطور خرچ عنایت کر کے جانے اور رہنے کا اختیار دیا۔ شیخ نے ازرُؤے انصاف کہا کہ یہ تنبیہ و تادیب درحقیقت ایک طرح کی ہدایت اور سبق ہے۔ میرا نقشِ مراد آپ کی خدمت میں رہنے سے ہی جلی ہو گا۔“
 
یہاں بھی جہانگیر نے اصل حقائق کو چھپانے کی پوری کوشش کی ہے، لیکن اس کے اپنے ہی الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس نے خلعت اور ہزار روپیہ دیا۔ جو کسی مجرم اور خود سر کو نہیں دیا جاتا۔ اِس کے باوجود آپ کو تقریباً تین سال تک اپنے ساتھ پابند رکھا۔
 
== وہ ہند میں سرمایہئ ملت کا نگہبان ==
بہر حال امامِ ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز نے جہانگیر سے درجِ ذیل احکامجاری کرائے؛(قید کے بعد احکام کیسے جاری کروائے، مضمون میں تسلسل نہیں ہے)
 
بادشاہ کے دربار میں سجدہ قطعی طور پر موقوف کر دیا گیا۔
 
# گاؤ کشی (گائے کی قربانی) میں آزادی دی گئی اور گوشت بر سر بازار بکنا شروع ہو گیا۔ بادشاہ اور ارکانِ سلطنت نے ایک ایک گائے دربارِ عام کے دروازے پر اپنے اپنے ہاتھ سے ذبح کی، کباب تیار ہوئے اور سب نے کھائے۔
# جہاں جہاں ملک میں مسجدیں شہید کی گئیں تھیں، دوبارہ تعمیر کی گئیں۔
# دربارِ عام کے قریب ایک خوشنما مسجد تعمیر ہوئی اور اس مسجد میں بادشاہ بمعہ امرأ نمازِ باجماعت ادا کرنے لگے۔
# شہر شہر محتسب شرعی مفتی وقاضی مقرر ہوئے۔
# کفار پر جزیہ مقرر ہوا۔
# جس قدر قانون خلاف ِشریعت جاری تھے۔ بیک قلم منسوخ کر دئیے گئے، دینی تعلیم پھر سے عام ہو گئی۔
 
== مغل شہنشاہان میں طریقہ نقشبندیہ ==
جہانگیر نے یہ اصلاحات تو جاری کر دیں لیکن کلی طور پر پابند نہ ہو سکا،لیکن شہزادہ خرم جو بعد میں ”شاہ جہاں“ کے لقب سے مغل شہنشاہ بنا، آپ کا مرید ِخاص تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر حضرت مجدد کے صاحبزادہ خواجہ محمد معصوم قدس سرہٗ کا مرید ِخاص بنا۔ جس نے پورے ملک میں نفاذِ شریعت کیا اور”فتاویٰ عالمگیری“کی تدوین کرائی۔
 
== گوشہ نشینی اور وفات ==
اب آپ کا مشن کام مکمل ہو چکا تھا   اور عمر کے تریسٹھویں سال میں داخل ہو چکے تھےاور گوشہ نشینی مکمل طور پر اختیار کر لی تھی۔ ایک دن آپ نے فرمایا، آئندہ جاڑوں سردیوں میں ہم یہاں نہیں ہوں گے۔پھر فرمایا؛
 
”لوگو! اب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا میری اورتمہاری ملاقات قیامت کے دن ہو گی، وہاں رسولِ مقبولﷺ دریافت فرمائیں گے کہ شَیخ احمد! تو نے کیا خدمات انجام دیں، اس وقت تمھیں یہ شہادت دینی ہو گی۔“
 
لوگوں نے بیک آواز کہا؛”ہم قیامت کے دن گواہی دیں گے کہ آپ نے اپنے فرائض پوری دیانتداری اور محنت سے سر انجام دئیے ہیں۔“
 
آپ نے سکون کی سانس لی اور آبدیدہ ہو گئے۔
 
زندگی کے آخری دِنوں میں خیرات زیادہ ہو گئی۔ وِصال مبارک سے پہلے رات کے آخری حصہ میں تہجد ادا کی، فجر کی نماز با جماعت ادا کی اور فرمایا، یہ ہماری آخری تہجد اور نمازِ فجر ہے۔ حسب ِعادت مراقبہ کیا بعد ازاں اشراق بڑی دلجمعی سے پڑھی۔
 
بالآخر تریسٹھ سال کی عمر میں سہ شنبہ کے دن 28صفر 1034ھ، دسمبر1624ء کو بوقت ِاشراق اللہ اللہ کا وِرد کرتے ہوئے اس دُنیائے فانی سے اعلیٰ علیین کو تشریف لے گئے۔
 
== مرقد ِپُر انوار ==
سرہند شریف (بھارت) جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ جہاں مغل شہنشاہوں نے اپنی بے نظیر عقیدت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے عظیم الشان مزار اور گنبد سنگ ِمرمر سے تعمیر کرایا اور مزارِ مقدس کے ملحق وسیع باغات مغل بادشاہوں کے خلوص و عقیدت اور ذوق و شوق کا پتا دیتے ہیں۔ اس کے بعد روضہئ مقدسہ کو حاجی ولی محمد و حاجی ہاشم خلف حاجی دادا ساکن دوراجی ملک کاٹھیا واڑنے 1344ھ،  1925ء میں دوبارہ بنوا کر مکمل کرایا ہے اور سنگ مرمر کا عالیشان گنبد دل کو سُرور اور آنکھوں کو نور بخشتا ہے۔ اس پر پانچ سال کے عرصہ میں ایک لاکھ پنتالیس ہزار روپیہ خرچ ہوا جنوبی دروازہ پر یہ لکھا ہے؛
 
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
 
لَا ٓ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم
 
مزارِ پُر انوار حضرت امام ربانی
 
مجدد الف ثانی، شَیخ احمد فارُوقی نقشبندی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
 
ایں روضہ منورہ بتاریخ 1344ھ، بمطابق 1925ء تعمیر یافت
 
یہ ُرباعی بھی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہکے مزارِ اقدس کے دروازہ پر لکھی ہوئی ہے؛
 
ز آفاتِ زماں دِل تنگ و زارم
 
مدد کن! یا مجدد الف ثانی
 
حُلیہ مبارک
 
آپ کا  قد دراز، نازک اندام، رنگ گندم گوں مائل بہ سفیدی،کشادہ پیشانی، پیشانی اور رُخسار سے ایسانور برستا تھا کہ دیکھنے والے کی آنکھ کام نہ کرتی تھی۔ آپ کے اَبرو سیاہ، درازو باریک تھے۔ بینی مبارک بلند و باریک، دہن مبارک بڑا نہ چھوٹا، دندان مبارک ایک دوسرے سے متصل اور درخشاں مثل لعلِ بدخشاں اور ریش مبارک گھنی دراز اور رُبع تھی۔ رُخسار مبارک پر بال نہ تھے، ہاتھ مبارک بڑے بڑے، انگلیاں باری اور پاؤں لطیف تھے۔ غرضیکہ آپ کی شکل مبارک ایسی محبوبانہ تھی کہ جو دیکھتا بے اختیار سبحان اللہ! ہذا ولی اللہ کہتا۔
 
لباس
 
آپ کا لباس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مطابق ایک بڑا عمامہ سر پر، مسواک دستار کی کور میں، شملہ دونوں کندھوں کے بیچ تک اور قمیض کے گریبان کا شگاف دونوں کندھوں پر، پاجامہ شرعی ٹخنوں کے اوپر تک ہوتا تھا۔ ہاتھ میں عصا اور پیشانی پر سجدے کا نشان تھا۔
 
معمولات
 
حضرت مجدد ہمیشہ سرماوگرما، سفرو حضر میں بعد نصف شب بیدار ہوتے اور دُعا مسنون پڑھتے۔ بعد ازاں بیت الخلا ئ  تشریف لے جاتے ہوئے یہ دُعا پڑھتے؛
 
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اعُوْذُ بکَ منَ الخُبُثِ والخبَائث
 
بعد فراغت طاق ڈھیلے استعمال فرماتے، اس کے بعد پانی سے بھی طہارت فرماتے اور بیت الخلا ئسے باہر نکلتے وقت داہنا پاؤں باہر رکھتے۔
 
اس کے بعد قبلہ رُو ہو کر وضو فرماتے لیکن بوقت ِوضو کسی سے مدد طلب نہ فرماتے۔ آفتابہ (لوٹا) بائیں طرف رکھتے ہاتھ دھو کر پہلے مسواک استعمال فرماتے پھر وضو فرماتے لیکن ہر کام میں وتر کی رعایت فرماتے۔ بعد فراغت مسواک اکثر خادم کے سپرد کر دیتے۔ وضو کرتے وقت دعائے مسنونہ پڑھتے۔ وضو کے بعد اعضائے مبارکہ کپڑے سے صاف نہ فرماتے۔
 
پوشاک لطیف و نفیس پہنتے اور بہ تحمل و وقار ِتمام متوجہ نماز ہوتے اور دورکعت تحیۃ الوضو ادا فرماتے پھر باقی تمام نماز کو بطوالِ قرأت (دو تین سیپارے قرآن) ادا فرماتے۔ گاہ گاہ حالت ِغلبہئ حضور میں نصف شب سے صبح تک ایک رکعت میں ہی وقت گزر جاتااور جب خادِم پکارتا کہ صبح ہوئی جاتی ہے تب دوسری رکعت بہ تحفیف ادا فرما کر سلام پھیرتے اور باقی رکعتیں ایک دوسری سے کم ادا فرماتے۔ اگر وتر اول شب میں پڑھ لئے ہوتے تو تہجد بارہ رکعت پوری فرماتے، کبھی آٹھ پر ہی اکتفا فرماتے۔
 
نمازِ تہجد میں اکثر اوقات سورہئ یٰسین تلاوت فرماتے۔ اِرشاد فرمایا کرتے کہ اس کیقرأت میں نفعِ بسیار اور نتائجِ بے شمار حاصل ہوتے ہیں۔ ہر دو گانہ کے بعد مراقبہ میں مشغول ہو جاتے۔ بعد از تہجد یک صد 100مرتبہ استغفراللہ، کبھی کبھی آیت کریمہ رَبِِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَغَفَرَ لَہٗ (سورہئ قصص 16)ستر مرتبہ پڑھتے، بعدہٗ بمطابق سنت تھوڑی دیر نیند فرماتے۔ پھر تازہ وضو کے ساتھ صبح کی سنت رکعت گھر پڑھتے اور فجر کے فرض با جماعت اوّل وقت ادا فرماتے،خود اِمامت فرماتے اور طوال مفصل فرماتے۔ بعد ادائے فرض اُسی جلسہ میں دس مرتبہ لَا ٓاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ۱  لَہُ الْمُلْک وَلَہُ الْحَمْد یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ بِیَدِہِ الْخَیْر ۱ وَہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر٭ اور سات بار اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّار اور دیگر اذکار میں مشغول ہو جاتے پھر ہاتھ اٹھ کر دُعا فرماتے۔
 
بعد ازاں مع اصحاب حلقہئ ذکر فرماتے اور شغلِ باطنی میں بلندیئ آفتاب بقدرِ نیزہ تک مشغول رہتے۔ حلقہ میں حافظ سے قرآن بھی سنتے حلقہ سے فراغت کے بعد دو رکعت نماز اشراق پڑھتے پھر دو رکعت بہ نیت اِستخارہ پڑھتے پھر دُعائے استخارہ اور دُعائے ماثورہ بھی پڑھتے، خلوت میں قرآنِ مجید یا ختمِ کلمہ طیبہ فرماتے اور کیفیات و واردات سے آگاہ فرماتے۔ اکثر اصحاب آپ کے رُعب و ہیبت سے خاموش رہتے اور کسی کی مجال نہ ہوتی کہ دم مار سکے۔
 
بعدہٗ آٹھ رکعت نمازِچاشت اور کبھی کبھی چار رکعت بھی پڑھتے پھر طعام تناوُل فرماتے۔ اکثر اوقات درویشوں میں لنگر خود تقسیم فرماتے۔ نوالہ تین انگلیوں میں پکڑتے، درویشوں کے ساتھ کھانے میں مشغول رہتے حالانکہ دیکھنے والا محسوس کرتا کہ آپ کو کھانے کی حاجت نہیں ہے۔
 
کھانا کھانے کے بعد سنت نبویﷺ کے مطابق قیلولہ فرماتے اور جس وقت مؤذننمازِ ظہر کی اللہ اکبر کہتا۔ آپ فوراً اُٹھ کھڑے ہوتے اور اذان کے کلمے ساتھ ساتھ پڑھتے اور اذان ختم ہونے پر دُعا فرماتے پھر وضو فرما کر دو رکعت تحیۃ المسجد ادا فرماتے پھر چار رکعت سنت زوال ادا کرتے۔ بعدہٗ چار رکعت سنت نماز ِظہر پڑھتے۔ اِقامت کے بعد خود اِمامت فرماتے۔ فرائضِ ظہر کی ادائیگی کے بعد دُعا فرماتے اور دو رکعت سنت مؤکدہ کے بعد چار رکعت سنت مزید ادا کرتے۔
 
بعد از نمازِ ظہر دوستوں کے ساتھ مراقبہ فرماتے یا حافظ سے قرآنِ پاک کی تلاوت سنتے پھر ایک دو سبق کا درس دیتے۔ دو مثل اور سایہ اصلی کے گزر جانے پر آپ مسجد میں تشریف لے جاتے۔ تجدید ِوضو کے بعد دو رکعت تحیۃ المسجد ادافرماتے اور چار رکعت سنت ادا کرنے کے بعد وقت پر نمازِ عصر کی اِمامت فرماتے۔ بعد از اذکار اصحاب کے حلقہ میں حافظ سے قرآنِ پاک سنتے اور اصحاب کی باطنی اصلاح و ترقی کی طرف متوجہ ہوتے۔ پھر اوّل وقت میں نمازِ مغرب ادا فرماتے۔ سنتوں کی ادائیگی کے بعد چھ رکعت نماز تین سلام کے ساتھ نوافل اوابین ادا فرماتے۔
 
عشا ئکی نماز کے وقت مسجد میں آکر تجدید ِوضو کے بعد دو رکعت تحیۃ المسجد ادا فرماتے۔ پھر عشا ئکی نماز باجماعت ادا فرماتے۔ وتر کبھی اوّل شب اور کبھی آخر شب پڑھتے۔ سوتے وقت تسبیحات و دیگر دُعائے ماثورہ پڑھتے پڑھتے دا ہنی کروٹ سو جاتے کہ رُوئے مبارک قبلہ کی طرف اور دایاں ہاتھ رُخسار کے نیچے ہوتا۔
 
رمضان المبار ک کے آخری عشرہ میں اِعتکاف بیٹھتے، عشرہ ذوالحجہ میں گوشہ نشینی میں روزہ رکھتے اور ذکر اذکار، درُود شریف میں مشغول رہتے۔ آپ افطار میں عجلت اور سحری میں آخر وقت کے لئے کوشش فرماتے۔ بعد از نمازِ جمعہ چار رکعت سنت آخر ظہر کی نیت سے ادا فرماتے۔ تکرار کلمہ طیبہ ”لاَ  ٓاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ“    کی ترغیب دِلایا کرتے اورفرماتے کہ تمام عالم اِس کلمہ معظمہ کے مقابلہ میں ایک قطرہ کی مثال ہے۔ یہ کلمہ جامعِ کمالاتِ ولایت و نبوت ہے اور فرماتے فقیر کو معلوم ہوا ہے کہ اگر تمام جہان کو ایک مرتبہ کلمہ پڑھ کر بخش دیں اور بہشت بھیج دیں تو بھی اس میں گنجائش ہے اور نمازِ تراویح سفرو حضر میں ہمیشہ بیس رکعت ادا فرماتے اور ماہِ رمضان المبارک میں تین ختمِ قرآنِ پاک سے زیادہ پڑھتے۔
 
قرآنِ کریم نماز کے اندر یا باہر اِس طریقہ سے تلاوت فرماتے کہ گویا ان کے معنی و مطالب بیان فرما رہے ہیں اور سامعین کو ایسا معلوم ہوتا کہ اسرار ِقرآنِ پاک ان پر ظاہر ہو رہے ہیں اور جو لوگ آپ کے مرید نہ بھی ہوتے وہ بھی کہتے کہ حضرت مجدد اس طرح قرآن کی تلاوت فرماتے ہیں جیسے الفاظ دِل سے نکل رہے ہوں اور سامعین میں سے اکثر پر غنودگی طاری ہو جاتی حالانکہ آپ تلاوت عموماً کھڑے ہو کر کرتے لیکن غنودگی یاسستی کبھی نزدیک نہ پھٹکتی۔
 
تصرُّفات
 
شوقِ زیارت بیت اللہ
 
ایک دفعہ عرفہ کے دِن فجر کی نماز کے بعد حضرت مجدد قدس سرہ العزیز کو زیارت ِبیت اللہ شریف کا شوق غالب آیا۔ اس بے قراری اور اضطراب میں دیکھا کہ تمام عالم جن و انس نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ آپ کی جانب کرتے ہیں۔ حضرت مجدد قدس سرہٗ نہایت حیران ہوئے اورمتوجہ کشف و اسرار ہوئے تو بتایا گیا کہ کعبہ معظمہ آپ کی ملاقات کے لئے آیا ہے اور بیت اللہ شریف نے آپ کا احاطہ کر لیا ہے اس لئے جو بھی کعبہ کو سجدہ کرتا ہے وہ آپ کی طرف ساجد معلوم ہوتا ہے۔اسی اثنا  ئ میں ندائے غیب آئی کہ تُو ہمیشہ زیارت بیت اللہ شریف کا مشتاق رہتا تھا اِس لئے ہم نے کعبہ معظمہ کو تیری زیارت کے واسطے بھیجا ہے۔
 
لوحِ محفوظ پیشِ اُو
 
عبدالرحیم خانِ خاناں صوبہ دار دکن بوجہ غمازی مورد ِعتابِ سلطانی ہو کر شاہی دربار طلب ہوا۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ جان کا خطرہ لاحق ہوا اس پریشانی میں اس نے حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کے جلیل القدر خلیفہ محمدنعمان قدس سرہٗسے مدد طلب کی۔حضرت میر نے خانِ خاناں کی سفارش لکھ کر حضرت مجدد قدس سرہٗ کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت شیخ نے عریضہ ملاحظہ فرما کر جواب تحریر فرمایا کہ”دروقت ِمطالعہئ کتابت ِخانِ خاناں در نظر رفیع القدر درآمد خاطر شریف از مطالعہ اوجمع شد‘(خانِ خاناں کے خط کے مطالعہ کے وقت۔۔۔)میر محمد نعمان نے وہ خط بجنسہٖ خاناں کے پاس بھیج دیا۔ اس کے چند روز بعد ہی بادشاہ نے خانِ خاناں سے راضی ہو کر خلعت ِخاص عطا کی اور صوبہ داری پر بحال کر دیا۔
 
ایسا ہی ایک واقعہ خواجہ طاہر بندگی لاہوری قدس سرہٗ کے ساتھ پیش آیا جن کی قضائے مبرم حضرت مجدد الف ثانی  قدس سرہٗنے ٹال دی خواجہ طاہر بندگی قدس سرہٗکے حالات میں یہ واقعہ درج کر دیا گیا ہے۔
 
مکتوبات شریف کا مقام
 
ایک سیّد صاحب کا بیان ہے کہ جن اصحاب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے لڑائی کی، اُن میں سے بالخصوص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مجھے نفرت اور بد ظنی تھی۔ ایک روز مَیں مکتوبات شریف کا مطالعہ کر رہاتھا کہ اس میں لکھا تھا،اِمام مالک رضی اللہ عنہ،شیخین رضی اللہ عنہماکی شتم کرنے والے پر جوحد لگاتے تھے۔ وہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر شتم کرنے والے پر لگاتے تھے۔
 
مَیں نے یہ دیکھ کر غصہ کی حالت میں کہا کہ حضرت مجدد قدس سرہٗ نے یہ کیسی بے خبری کی بات نقل کی ہے۔ یہ کہہ کر مَیں مکتوبات شریف کو زمین پر پھینک دیا تو مَیں نے خواب میں دیکھاکہ حضرت شیخ مجدد قدس سرہٗ غصہ کی حالت میں آئے اور میرے دونوں کان پکڑ کر فرمانے لگے تو ہماری تحریر پر اعتراض کرتا ہے، اس کو زمین پر پھینکتا ہے اگر تو میرے قول کو معتبر نہیں سمجھتا تو تجھے حضرت علی المرتضیٰ کے پاس لے چلوں جن کی خاطر تو اُن کے بھائیوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بُرا بھلا کہتا ہے اور حضرت مجدد قدس سرہٗمجھے پکڑ کر ایک باغ میں لے گئے، مَیں نے دیکھا کہ وہاں نہایت نورانی شکل والے بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت مجدد اس بزرگ کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گئے اور کچھ عرض کیاپھر مجھے نزدیک بلایا اور فرمایا؛”یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں، سنو کیا فرماتے ہیں“  مَیں نے سلام عرض کی تو حضرت امیر نے فرمایا؛
 
”خبردار! حضرت پیغمبرﷺ کے اصحاب سے دِل میں کدورت نہ رکھو اور اُن کی ملامت زبان پر نہ لاؤ! ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بھائی کے ساتھ ہمارا جھگڑا ہوا، اُن کی نیتیں پاک تھیں۔“
 
پھر حضرت شیخ  قدس سرہٗکا نام لے کر فرمایا کہ ان سے ہر گز سر نہ پھرنا۔اس نصیحت کے باوجود جب مَیں نے اپنے دل کی طرف رُجوع کیا تو دل میں اصحاب کی دشمنی بدستور موجود تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ یہ جان کر سخت ناراض ہوئے اور حضرت مجدد  قدس سرہٗسے فرمایا کہ اس کا دِل ابھی صاف نہیں ہوا اور تھپڑمارنے کا اشارہ کیا۔
 
حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗنے پوری قوت سے ایک تھپڑ میری گدی پر مارا،اسی وقت میرا دل کدورت سے پاک صاف ہو گیا اور حضرت مجدد قدس سرہٗکے کلا م پر میرا اعتقاد کئی سو گناہ زیادہ ہو گیا۔
 
عمر مبارک
 
ایک روز خاص احباب سے فرمایا کہ مجھے دِکھایا گیا ہے کہ میری عمر تریسٹھ سال ہے۔ شب ِبرات ماہِ شعبان 1033ھ کو شب بیداری کی، مخدوم زادوں کی زبانِ عظمت پناہ سےنکلا کہ آج تقدیر و تقسیم رزق کی رات ہے، خدا جانے آج کس کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے؟یہ سن کر حضرت مجدد الف ثانی  قدس سرہٗ نے فرمایا کہ آپ تو بطور شک و تردد فرما رہے ہیں لیکن اس شخص کا کیا حال ہے جو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے اور اشارہ اپنی طرف فرمایا۔ اس کے تقریباً ساڑھے چھ ماہ بعد آپ کا وصال ہو گیا۔
 
حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز کے خوارق و تصرُّفات بڑے اختصار کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ کیونکہ کثرت ِخوارق سے کسی ولی کی شان نہیں بڑھتی اور نہ ہی قلت سے کسر شان ہوتی ہے۔ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی  قدس سرہٗنے فرمایا؛
 
”یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا ئیں ہیں کبھی اولیا ئاللہ میں سے ایک گروہ کو ان خوارق کا مکاشفہ کرایا جاتا ہے اور اسے عطا کی جاتی ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان سب لوگوں کے اوپر وہ شخص ہوتا ہے جس سے ان میں سے کوئی بات بھی ظاہر نہ ہوئی ہو۔“
 
مزید فرمایا، کثرت ظہورِ خوارق کو افضلیت کی دلیل بنانا بالکل ایسے ہے جس طرح کوئی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کثرت فضائل و مناقب کو حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ پر افضلیت کی وجہ بنائے کیونکہ جس قدر فضائل و مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ظہور پذیر ہوئے ہیں، سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئے۔
 
مجدد الف ثانی
 
صاحبِ حضرات القدس شَیخ بدر الدین سر ہندی قدس سرہٗ فرماتے ہیں؛
 
”ہزار سال بالیستے تا ایں چنیں گوہرے بوجود آید۔“
 
ہزار سال بباید کہ تا بباغِ یقین
 
زشاخِ ہمت چوں تو گلے ببار آید
 
بہر قرآن و بہر قرن چوں توے نبود
 
بروزگارچوں تو کسے بروزگار بہ آید
 
(ہزار سال درکار ہیں کہ یقین کے باغ کی شاخ پر آپ جیسا پھول کھلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
 
مجدد اسمِ فاعل کا صیغہ ہے،”تجدید کرنے والا“ یا”پُرانے کو نیا کرنے والا“ حدیث شریف میں مجدد کابیان اس طرح آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا؛
 
”اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَبْعثُ لِہٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأسِِ کُلّ مِاءَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدلَہَا دِیْنَہا“(اللہ تعالیٰ اِس اُمت کے لئے ہر صدی کے شروع میں کسی کو مبعوث فرمائے گا تاکہ وہ اُمت کے واسطے ان کے دین کی تجدید کرے)
 
ملا علی قاریقدس سرہٗنے اس حدیث شریف کے بیان میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول لکھا ہے کہ
 
”ایسا کوئی سال نہ گزرے گا جس میں لوگ کسی بدعت کو رائج اور کسی سنت کو ضائع نہ کریں یہاں تک کہ سنتیں ختم اور بدعتیں رائج ہو جائیں گی۔“(1)
 
مشکوٰۃ شریف میں حدیث قدسی ہے کہ؛
 
”رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے؛اس علم کو (جو قرآن اور حدیث کا علم ہے)عادل (اور ثقہ افراد) اپنے اسلاف (جانشینوں) سے حاصل کردہ غلو کرنے والوں کی تحریفات باطل پرستوں کے غلط دعاویٰ اور جاہلوں کی تاویلات کا انتقا کریں گے۔“(2)
 
اس حدیث شریف میں تین قسم کے افراد کے مفاسد کا ازالہ حق پرست اور عادِلاشخاص کے کرنے کا ذکر ہے؛
 
. 1
 
. 2
 
. 3   
 
غلو کرنے والوں کی تحریفات کا
 
باطلوں کے غلط دعاویٰ کا۔
 
جاہلوں کی تاویلات کا۔
 
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس سرہٗ اپنی کتاب ”مجموعہ فتاویٰ عزیزی“ کے صفحہ نمبر 242پر لکھتے ہیں؛
 
”……اچھی طرح ظاہر ہے کہ حضرت مجدد کی ذاتِ شریف کی وجہ سے ملحدوں، رافضیوں، توحید میں غلو کرنے والوں اور سلاسل کے مبتدعینِ شرکِ جلی وخفی کے معتقدین کے شبہات بالکل دُور ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کی پیروی کرنے والے سنت ِمطہرہ کی پیروی میں خوب ساعی اور بدعت سے اپنے آپ کو بچانے میں پیش قدم ہیں۔“
 
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس سرہٗ نے امام بیہقی کی رِوایت کردہ حدیث کے مفہوم کا ذکر کیا ہے کہ حضرت مجدد قدس سرہٗ اس پر عامل تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس حدیث کا اُتم مصداق بنایا اور اکابر علما ئنے کھلے دِل سے اِس کا اعتراف کیا ہے۔ خواجہ ہاشم قدس سرہٗ نے ”زُبدۃ المقامات“میں لکھا ہے، علامہ ئروز گار مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی قدس سرہٗنے سب سے پہلے ”مجدد الف ثانی“کا خطاب آپ کے لئے تجویز فرمایا،خود فرماتے ہیں؛
 
”اللہ تعالیٰ نے اِس اُمت کے علما  ئکو بنی اسرائیل کے انبیا ئکی جگہ دی ہے۔ ہر صدی کے شروع میں کسی عالم کا انتخاب ہوتا ہے تاکہ وہ دین حق کی تجدید کرے اور شریعت میں جان ڈالے (یعنی اس میں قوت آئے اور اس کے احکام نافذہوں) پہلی اُمتوں میں ایک ہزار سال گزارنے کے بعد اولو العزم پیغمبر کی بعثت ہوا کرتی تھی، اس اُمت میں چونکہ کوئی نبی نہیں ہو گا اس لئے اُمت میں ایک ہزار سال گزرنے پر ایسے عالم کی ضرورت ہے جو معرفت ِتامّہ رکھتا ہو(شریعت کے احکام، طریقت کے اسرار اور حقائق کے رموز سے پوری طرح باخبر ہو)
 
فیضِ روح القدس ارباز مدد فرماید
 
دیگراں ہم بکنند آں چہ مسیحا می کرد
 
(اگر مولیٰ جل شانہٗ کا لطف و کرم ساتھ دے تو جو کچھ مسیحا نے کیا ہے وہ دوسرے بھی کر دکھائیں)
 
حدیث ِصلہ
 
علامہ جلال الدین سیوطی قدس سرہٗ کی کتاب ”جمع الجوامع“میں یہ حدیث نقل ہے؛
 
”میری اُمت میں ایک شخص ہو گا،اس کو صلہ کہا جائے گا، اس کی شفاعت سے اتنے اتنے آدمی جنت میں داخل ہوں گے۔“
 
اس حدیث شریف کو محمد بن سعدنے طبقات میں بھی معمولی لفظی تغیر سے روایت کیا ہے۔ سر شارِ بادہئ احمدی، خواجہ ہاشم کشمی قدس سرہٗ نے لکھا ہے؛
 
”ایک مرتبہ حضرت مجدد قدس سرہٗ کو سرورِ دو عالمﷺ سے بشارت ملی کہ تمھاری شفاعت سے قیامت کے دِن کتنے ہزار افراد بخشے جائیں گے۔ اس بشارت کے ملنے پر آپ نے کھانا پکا کر لوگوں کو کھلایا اور اس بشارت کا بیان فرمایا۔ چنانچہ مکتوبات شریف میں فرماتے ہیں؛مَیں اپنی پیدائش کا مقصدجو سمجھتا ہوں، وہ پورا ہو گیا اور ایک ہزار سالہ تجدید کی طلب مقرونِ اجابت ہوئی، حمد اللہ تعالیٰ کے لئے ہے کہ اس نے مجھے دو سمندروں کو جوڑنے والا اور دو جماعتوں میں اِصلاح کرنے والا بنایا۔“
 
حضرت شاہ عبدالعزیز قدس سرہٗ اپنے رسالہ دردفعہ اعتراضات کے آخر میں فرماتے ہیں؛  ”یہ بات مثل آفتاب کے روشن ہے کہ یہ کام حضرت مجدد نے خوب کیا ہے۔ بخارا، سمرقند، بلخ، بدخشاں، قندھار، کابل، غزنی، تاشقند، یارقند، شہر سبز حصار اہل اسلام کے گڑھ ہیں۔ وہاں نہ ہنود ہیں نہ نصاریٰ نہ روافض، ان مقامات میں صرف آپ کا ہی طریقہ رائج ہے، شاید ہی کسی دوسرے طریقے سے کوئی وابستہ ہو اور یہ بات بھی خوب ظاہر ہے کہ ملحدوں، رافضیوں، خالی توحیدیوں اور اہل طریق کے بدعتیوں اور شرکِ خفی و جلی کے معتقدوں کے تمام شبہات آپ کی مبارک ذات کی برکت سے بالکل دُور ہو گئے اور آپ کے متبعین اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِتباعِ سنت میں سر گرم اور اِجتناب از بدعت میں پیش قدم ہیں۔ آپ کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دعویٰ کرے کہ مجھ کو اس حکیم نے نائب بنا کر بھیجا اور وہ لوگوں کا علاج کرے اور لوگوں کو فائدہ ہو۔“
 
(پھر شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فوق الذکر حدیث ِصلہ نقل کی ہے)
 
آپ کی اس تحریر پر اور آپ کے مبشر ہونے پر حدیث ِصلہ پوری طرح صادِق آرہی ہے۔ ہزار سال کے دَور میں مجدد کا لقب کسی دوسرے شخص کو نہیں ملا ہے اور آپ کے اِس استنباط کی تائید نقلیات اور کشفیات سے بھی ہو رہی ہے۔ حضرت مجدد نے اللہ کا شکر ادا کیا ہے اور شکر قبول کرنے والا وہی ہے، وہ فرماتا ہے؛ ”لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُم“(سورہئ ابراھیم (7(اگر شکر ادا کرو گے تو زیادہ دوں گا تمھیں) اور وعدہ ئاِلٰہی بموجب آپ کی دُعا جو شکرِ اِلٰہی ہے مقبول ہے،  ع از قبول کساں دیگر کارے نیست۔
 
حضرت شاہ عبدالعزیز قدس سرہٗنے اسی پر ختم کر کے اشارہ کیا ہے کہ اہل فضل و اصحابِ کمال حضرت مجدد قدس سرہٗ کے مداح ہیں،جاہل اور گم کردہ راہ جو چاہیں کہیں۔
 
شواہد ِتجدید
 
حضرت امامِ ربانی، مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کی تجدید ِدین اسلام اور احیائے سنت رسول اللہﷺ کے کارنامے اِس قدر عظیم ہیں کہ یہ صفحات کماحقہ اُس کے بیان کے متحمل نہیں ہو سکتے پھر بھی اُن کامختلف پہلوؤں کا اجمالی جائزہ لیا جاتا ہے؛
 
1۔ اکبری الحاد کا استیصال
 
تاریخِ عالم میں فرعونِ مصر کے بعد شاید ہی کوئی ایسا حکمران گزرا ہو گا جس نے خود کو سجدہ کرایا ہو، لیکن اکبر بادشاہ جو بظاہر ایک مسلمان حکمران تھا،اس کا کردار بے دینوں سے بھی بدترتھا کہ دربارِ شاہی میں حاضری کے وقت اپنے آپ کو سجدہ کراتا تھا۔ فرعون کے بعد شاید یہ پہلا بادشاہ تھا جو خود کو سجدہ کراتا تھا اور جس نے”دین الٰہی“کے نام سے ایک نیا مذہب رائج کر لیا تھااس لئے ہندو اور عیسائی مؤرخوں نے اکبر کو”اکبر اعظم“ اور مغل اعظم مشہور کرنے میں اپنی ساری قوت صرف کر دی۔ اسلام میں چونکہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کرنے کی سخت تاکید ہے۔ اس ناچیز کے خیال کے مطابق حضرت مجدد الف ثانی  قدس سرہٗکو ہندوستان میں مبعوث فرمانے کی یہی مشیت ایزی تھی کہ آدمی کو سجدہ کرنے کے شرک کا قلع قمع کیا جائے۔
 
حضرت مجدد قدس سرہٗنے اُمرأ و اراکینِ سلطنت کو وقتاً فوقتاً مکاتیب ارسال کر کے اسلام کی زبوں حالی کا بیان اس انداز سے کیا کہ ان کے دِلوں میں اسلام کا درد پیدا ہوا۔ ان میں خان خاناں، فرید بخاری، سیّد صدرجہاں، خان جہاں، خانِ اعظم، مہا بت خاں، اسلام خاں، سکندر خاں، دریا خاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ پھر جب حضرت مجدد قدس سرہٗ میدان میں آگئے تو شہنشاہ جہانگیر اپنی عظیم الشان دُنیاوی طاقت و عظمت،جاہ و جلال، کبرونخوت کے باوجود ایک مردِ درویش حضرت مجدد قدس سرہٗ کو جھکانے میں ناکام رہا اور اس دُنیا کو بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں جھکنے والی گردن کسی دوسرے کے سامنے نہیں جھک سکتی اور اس کے مقابلے میں ہر طاغوتی طاقت خس و خاشاک کی طرح تہس نہس ہو جائے گی۔
 
حضرت مجدد قدس سرہٗنے اپنی حق آگاہی اور خودشناسی کی بدولت ایک عظیم مملکت کے سربراہ کے دل کو اپنے اخلاق و اخلاص سے پھیر دیا اور پھر اُسی فسق و فجور میں مست شرابی بادشاہ جہانگیر نے عدلِ جہانگیری کی ایک ایسی مثال قائم کی جو آج تک یاد گار ہے اور اس کی اولاد میں شاہ جہان اور اورنگزیب عالمگیر جیسی عظیم ہستیاں وجود میں آئیں،جنھوں نے تبلیغِ اسلام کے وہ کارہائے نمایاں سر انجام دئیے کہ جو تاریخِ اسلام میں آب ِزر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ ذٰلک فضل من اللّٰہ۔
 
جارحانہ ہندو احیائیت
 
اکبر بادشاہ کی بے راہ روی کی وجہ سے ہندوؤں کی جرأت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ہندو بے تحاشا مسجدوں گو گرا کر اپنے مندر تعمیر کر رہے تھے، تھانیسر کے علاقہ میں ایک مسجد اور بزرگ کا مقبرہ گرا کر اس جگہ مندر بنوادیا گیا۔متھرا میں ایک برہمن نے مسجد کی اینٹ پتھر کو مندر کی تعمیر میں استعمال کیا، مسلمانوں کی مزاحمت پر اس نے رسولِ اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کی لیکن عجیب واقعہ یہ ہوا کہ اس برہمن کو سزائے قتل دینے پر اکبر کے دربار میں بڑا ہنگامہ ہوا۔یہی وجہ تھی کہ حضرت مجدد الف ثانی  قدس سرہٗ ہندوؤں کے معاملہ میں سختی اور شدت کا اظہار کرتے تھے۔
 
تاریخ کا فیصلہ
 
شیخ محمد اکرام اپنی تصنیف”رودِ کوثر“میں رقم طراز ہیں؛”ہندوؤں کے متعلق حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز نے بسا اوقات بڑی تلخی اور غیض و غضب کا اظہار کیا ہے، بہر کیف ان کا اندازِ فکر اور اسلوبِ اِظہار اُن صوفیہ سے بالکل مختلف ہے جنہیں ہندو احیائیت کا سامنا نہ کرنا پڑا، لیکن ہندو مسلم اختلافات کے متعلق تاریخ نے حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کے نقطہئ نظر کی تائید کی اور ہندو مسلم اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔انگریزی عہدمیں اختلاف اور بڑھ گئے اور بر صغیر کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنا پڑا۔ شاید ان ملکوں کے رہنما اور بیرونی خیر خواہ بھی کبھی سرہند کے اس مردِ آخر بین کی رائے تسلیم کر لیں کہ ان دونوں کے درمیان امن و سلامتی کا راستہ اتحاد نہیں بلکہ ہمسایانہ رواداری ہے۔“
 
2۔ ملحدین صوفیا ئ
 
یہ وہ لوگ تھے جو حضراتِ مشائخ کرام کے اقوال کی غلط اور گمراہ کن تاویلات و تشریحات کر کے عوام کو گمراہ کر رہے تھے اور اپنی دکان سجانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ حضرت مجدد قدس سرہٗنے ان کی قلعی کھول کر رکھ دی اور عوام الناس کو بتا دیا کہ ان کی اندرونی حالت کیا ہے اور ان کی تشریحات کی قباحتوں کو واضح فرما دیا۔
 
3۔ بیباک علمأ  
 
بے باک علما ئاور جاہل صوفیا ئ کو حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے باور کرایا کہ شریعت کی متابعت کے بغیر تم کچھ بھی نہیں ہو کیونکہ قیامت کے دِن شریعت کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی نہ کہ طریقت کے متعلق، کیونکہ شریعت کا ثبوت وحی سے ہوا جو قطعی اور یقینی ہے اور طریقت کا ثبوت الہام سے ہوا ہے جو کہ ظنی ہے اس قطعی کے مقابل ظنی کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔آپ نے فرمایا، مشائخ کی رُوحانیات اور ان کی امدادات پر ہر گز مغرور نہ ہو۔
 
  پھر فرمایا؛ تمام مشائخ کے اقوال و اعمال کو سرکارِ دو جہاں ﷺ کے اقوال و واعمال پر جانچو!
 
4۔ شریعت، طریقت اور حقیقت
 
حکیمِ مطلق نے حضرت مجددقدس سرہٗکو حکمت و بصیرت ِتامہ عطا فرمائی اور آپ پر پوری طرح منکشف ہوا کہ کچھ بے سمجھ لوگ جن کے دِلوں میں مرض ہے، طریقت و حقیقت کو شریعت سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ طریقت کے نام پر عوام کو گمراہ کر کے باطنیوں کے مسلک کو رواج دے رہے ہیں۔ آپ نے اِن سب مفاسد و افترا ئ کا ایسا سدِّباب فرمایا کہکسی کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی۔
 
5۔ وحدت ِوجود، وحدتِ شہود
 
شیخ اکبرقدس سرہٗکے نزدیک تمام کائنات کی اصل اور حقیقت علمِ الٰہی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ انسان جن فرشتے، حیوان، زمین، ستارے، عرش، کرسی، لوح قلم، جنت، دوزخ غرض ہر شے کے متعلق اللہ تعالیٰ کے علم میں سب کچھ موجود ہے اور جس شے کے متعلق جو کچھ علمِ الٰہی میں ہے وہی اس شے کی حقیقت اور اس کی اصل ہے جب تک علمِ الٰہی کا ظہور نہیں ہوا، ساری حقیقیتں عالمِ غیب میں مستور رہیں اور جب علمِ الٰہی کا ظہور ہوا، حقیقتیں بھی ظاہر ہو گئیں۔ شیخ اکبرقدس سرہٗظاہر حقیقتوں کو اعیانِ ثانیہ کہتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب اعیان ثانیہ کے ظہور کا وقت آیا تو ان کا عکس ظاہر ہوا، وہی عکس ان کا وجود ہے۔ چونکہ یہ عکس بھی اللہ تعالیٰ کی صنعت و کاریگری ہے اس لئے اس کے واسطے پائیداری ثابت ہے یعنی خارجی شے شیخ اکبرقدس سرہٗکے نزدیک کچھ نہیں۔
 
اس کے برعکس حضرت مجدد الف ثانیقدس سرہٗ کے نزدیک کائنات کی حقائق اجزائے عدمیہ ہیں جو خالی ہیں۔ ان پر اوصافِ الٰہیہ کا پر تو اور ظل پڑا۔ آپ کے نزدیک ظل عین اصل نہیں لہٰذا افتراق ثابت ہو گیا یعنی حضرت مجدد قدس سرہٗکے قول سے اتحاد کی جڑ اور اساس سرے سے نکل جاتی ہے اور وحدت ِوجود کا نظریہ قائم نہیں رہتا۔ حضرت مجدد قدس سرہٗفرماتے ہیں کہ سالک جب فنایت کے مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو بجز محبوب کے کچھ نظر نہیں آتا حتیٰ کہ وہ اپنا وجود بھی نہیں دیکھتا، لہٰذا اس کی زبان سے اتحاد کا قول نکلتا ہے کوئی انالحق کوئی سبحانی کہتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں اگر اس مقام اور کیفیت کی حالت میں سالک کی عالم میں مراجعت ہوتی ہے تو عالم کے ہر ذرہ میں اس کو جمالِ محبوب نظر آتا ہے اور وہ کہتا ہے   ؎
 
دیدہ بکشا و جمالِ یار بیں
 
ہر طرف ہرجا رُخِ دلدار بیں
 
(آنکھیں کھول! اور جمالِ یار دیکھ، اور ذرے ذرے جلوہئ محبوب کا نظارہ کر!)
 
آپ فرماتے ہیں؛یہ مقامِ وِلایت ہے اور اس سے بالا تر مقامِ ارشاد ہے جس کا تعلق نبوت کے مقام سے ہے۔ ابھی سالک کو اس شاہراہ پر پہنچنا ہے وہاں اس کی زبان سے نکلتاہے؛”سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ“(تیری ذات پاک ہیمَیں  توبہ کرتا ہوں تیرے پاس اور مَیں سب سے پہلے یقین لانے والا ہوں۔)
 
یہ مقامِ عبدیت ہے اور بالا صالت اس کا تعلق سردارِ کل کائنات سیدنا محمد علیہ افضل الصلوٰۃ واکمل التحیات سے ہے۔
 
ایک نکتہ
 
مؤمن کی معراج نماز ہے اور نماز کا آخر قعدہ ہے اور قعدہ میں اس مبارک مکالمہ کو رکھا گیا ہے، جس سے رسول اللہﷺ کے معراج میں مکالمہ کی ابتداکی ہے اور اس کا سر زیر اقدام آنحضرتﷺ اور اس بات کا اِشارہ ہے کہ مؤمن کی معراج کی انتہا ئوصول بہ حضرت رسولِ اکرمﷺ ہے اور رسول اللہﷺ کی معراج کی انتہا بارگاہِ رب العلمن ہے، لہٰذا تشہد کے بعد نمازی درُود شریف پڑھے۔
 
جس مقام کو شیخ اکبر حقیقت ِمحمدی کہہ کر درجہئ وجوب ثابت کرتے ہیں حضرت مجدد قدس سرہٗ کے نزدیک وہی مقام ِعبدیت ہے۔ اس کو واجب تعالیٰ و تقدس سے کوئی اشتراک نہیں، اس کو نسبت ِعبدیت ہے وہ عبد ہے اور واجب تعالیٰ معبود، جس کی تخلیق ہو اس کے لئے وجوب کیا؟ ارشادِ نبویﷺ ہے؛”اَللّٰہُمّ اَنْتَ رَبِیّ لَا ٓاِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُکَ“(اے اللہ!تُومیرا پالنے والا ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تُو نے مجھے پیدا کیا اور مَیں تیرا بندہ ہوں)حضرت مجدد  قدس سرہٗ کی تالیفات
 
حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کی تالیفات کی ابتدأ رسائل سے ہوئی اور انتہا ئ مکتوبات شریف پر ہوئی۔ آپ کے سات رسائل مشہور ہیں؛
 
. 1
 
رسالہ تہلیلیہ؛ اس کو”رسالہ تحقیق درکلمہ طیبہ“ بھی کہتے ہیں یہ بارہ صفحے کا رسالہ آپ کی پہلی تالیف ہے۔
 
. 2
 
. 3
 
. 4
 
. 5
 
. 6
 
. 7
 
رسالہ اثبات نبوت؛اِس کو ”رسالہ تحقیقِ نبوت“بھی کہتے ہیں۔
 
رسالہ ردِ شیعہ؛ اِس کو”رسالہ ردِّروافض“ بھی کہتے ہیں، تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ یہ رسالہ شیعہ حضرات کے ایک رسالہ کے جواب میں لکھا تھا۔ اس میں شیعوں کے چودہ طائفوں کا بیان ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے حضرت مجدد قدس سرہٗ کے رسالہ”ردِّ روافض“کا عربی ترجمہ کیا ہے،شروع میں عہدِ اکبری کے مذہبی رجحانات پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗکے کارنامے اور احسانات تفصیل سے گنائے ہیں۔
 
مندرجہ بالا تینوں رسالے سلسلہ نقشبندیہ میں داخل ہونے سے پہلے تالیف ہوئے۔
 
رسالہ معارف ِلدنیہ۔
 
رسالہ شرح الشرح بعض رُباعیات حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ۔
 
رسالہ مبداؤ معاد
 
رسالہ مکاشفاتِ عینیہ
 
اول الذکر دو رسالے عربی میں،  باقی تین تا سات فارسی میں ہیں۔
آپ کی ولادت '''جمعۃ المبارک 14 شوال971 ھ''' (یہی [[باقی باللہ|خواجہ باقی باللہ]] کا سال ولادت ہے)بمطابق '''26 مئی 1564ء''' کو نصف شب کے بعد ہندوستان میں ہوئی۔<ref>جہان امام ربانی، اقلیم اول، ص 328،امام ربانی فاؤنڈیشن، کراچی</ref> آپ کے والد شیخ عبد الاحد ایک ممتاز عالم دین تھے اور صوفی تھے۔ صغر سنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر [[سیالکوٹ]] جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محدثّین سے فن حدیث حاصل کیا۔ آپ سترہ سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ تصوف میں سلسلہ [[چشتیہ]] کی تعلیم اپنے والد سے پائی، [[سلسلہ قادریہ]] کی اور سلسلہ [[سلسلہ نقشبندیہ|نقشبندیہ]] کی تعلیم [[دلی|دہلی]] جاکر [[خواجہ باقی باللہ]] سے حاصل کی۔ 1599ء میں آپ نے خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ [[اناطولیہ|روم]]، [[شام]]، [[ماوراء النہر]] اور [[افغانستان]] وغیرہ تمام عالم اسلام کے مشائخ علما اور ارادتمند آکر آپ سے مستفید و مستفیض ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ ’’مجدد الف ثانی ‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے۔ یہ خطاب سب سے پہلے آپ کے لیے ’’[[عبدالحکیم سیالکوٹی]]‘‘ نے استعمال کیا۔ طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے۔ آپ کو مرشد کی وفات (نومبر 1603ء) کے بعد [[سلسلہ نقشبندیہ]] کی سربراہی کا شرف حاصل ہوا اور آخری عمر تک دعوت وارشاد سے متعلق رہے [[سرہند]] میں بروز سہ شنبہ 28 صفرالمظفر 1034؁ھ بعمر 62 سال اور کچھ ماہ وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔<ref>مجدد الف ثانی ص: 233، بحوالہ زبدۃالمقامات وحضرات القدس</ref>