"احمد سرہندی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ردِّ ترمیم بصری خانہ ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ردِّ ترمیم بصری خانہ ترمیم)
سطر 25:
 
=== امامِ ربانی،مجدد الف ثانی شیخ اَحمد فارُوقی سرہندی نقشبندی قدس سرہٗ ===
 
=== دیگر القابات ===
بارگاہ فلک رفعت، آرام گاہ عالی مرتبت، دربار گوہر بار، مزار، اعلیٰ عظیم البرکت، قیوم ملت، خزینۃ الرحمۃ، محدث رحمانی، غوث صمدانی، امام ربانی، المجدد المنور الف ثانی، ابو البرکات شیخ بد ر الدین احمد فاروقی، نقشبندی، سرہندی۔<ref>جہان امام ربانی، اقلیم اول، ص 389،امام ربانی فاؤنڈیشن، کراچی</ref>
 
=== از نسلِ خلیفہ دوم، [[عمر بن خطاب|امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ]] ===
سطر 456 ⟵ 459:
سرہند شریف (بھارت) جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ جہاں مغل شہنشاہوں نے اپنی بے نظیر عقیدت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے عظیم الشان مزار اور گنبد سنگ ِمرمر سے تعمیر کرایا اور مزارِ مقدس کے ملحق وسیع باغات مغل بادشاہوں کے خلوص و عقیدت اور ذوق و شوق کا پتا دیتے ہیں۔ اس کے بعد روضہئ مقدسہ کو حاجی ولی محمد و حاجی ہاشم خلف حاجی دادا ساکن دوراجی ملک کاٹھیا واڑنے 1344ھ،  1925ء میں دوبارہ بنوا کر مکمل کرایا ہے اور سنگ مرمر کا عالیشان گنبد دل کو سُرور اور آنکھوں کو نور بخشتا ہے۔ اس پر پانچ سال کے عرصہ میں ایک لاکھ پنتالیس ہزار روپیہ خرچ ہوا جنوبی دروازہ پر یہ لکھا ہے؛
 
== مزارِ پُر انوار حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی، شَیخ احمد فارُوقی نقشبندی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ ==
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
 
====== ایں روضہ منورہ بتاریخ 1344ھ، بمطابق 1925ء تعمیر یافت ======
لَا ٓ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم
یہ ُرباعی بھی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے مزارِ اقدس کے دروازہ پر لکھی ہوئی ہے؛
 
'''ز آفاتِ زماں دِل تنگ و زارم'''
مزارِ پُر انوار حضرت امام ربانی
 
'''مدد کن! یا مجدد الف ثانی'''
مجدد الف ثانی، شَیخ احمد فارُوقی نقشبندی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
 
زمانے کی آفات سے میرا دل تنگ اور رو رہا ہے،اے مجدد الف ثانی، خدا کے لیے میری مدد فرمائیے!
ایں روضہ منورہ بتاریخ 1344ھ، بمطابق 1925ء تعمیر یافت
 
یہ ُرباعی بھی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہکے مزارِ اقدس کے دروازہ پر لکھی ہوئی ہے؛
 
ز آفاتِ زماں دِل تنگ و زارم
 
مدد کن! یا مجدد الف ثانی
 
حُلیہ مبارک
 
== حُلیہ مبارک ==
آپ کا  قد دراز، نازک اندام، رنگ گندم گوں مائل بہ سفیدی،کشادہ پیشانی، پیشانی اور رُخسار سے ایسانور برستا تھا کہ دیکھنے والے کی آنکھ کام نہ کرتی تھی۔ آپ کے اَبرو سیاہ، درازو باریک تھے۔ بینی مبارک بلند و باریک، دہن مبارک بڑا نہ چھوٹا، دندان مبارک ایک دوسرے سے متصل اور درخشاں مثل لعلِ بدخشاں اور ریش مبارک گھنی دراز اور رُبع تھی۔ رُخسار مبارک پر بال نہ تھے، ہاتھ مبارک بڑے بڑے، انگلیاں باری اور پاؤں لطیف تھے۔ غرضیکہ آپ کی شکل مبارک ایسی محبوبانہ تھی کہ جو دیکھتا بے اختیار سبحان اللہ! ہذا ولی اللہ کہتا۔
 
== لباس ==
 
آپ کا لباس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مطابق ایک بڑا عمامہ سر پر، مسواک دستار کی کور میں، شملہ دونوں کندھوں کے بیچ تک اور قمیض کے گریبان کا شگاف دونوں کندھوں پر، پاجامہ شرعی ٹخنوں کے اوپر تک ہوتا تھا۔ ہاتھ میں عصا اور پیشانی پر سجدے کا نشان تھا۔
 
== معمولات ==
 
حضرت مجدد ہمیشہ سرماوگرما، سفرو حضر میں بعد نصف شب بیدار ہوتے اور دُعا مسنون پڑھتے۔ بعد ازاں بیت الخلا ئ  تشریف لے جاتے ہوئے یہ دُعا پڑھتے؛
 
'''اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اعُوْذُ بکَ منَ الخُبُثِ والخبَائث'''
 
بعد فراغت طاق ڈھیلے استعمال فرماتے، اس کے بعد پانی سے بھی طہارت فرماتے اور بیت الخلا ئسے باہر نکلتے وقت داہنا پاؤں باہر رکھتے۔
سطر 508 ⟵ 503:
قرآنِ کریم نماز کے اندر یا باہر اِس طریقہ سے تلاوت فرماتے کہ گویا ان کے معنی و مطالب بیان فرما رہے ہیں اور سامعین کو ایسا معلوم ہوتا کہ اسرار ِقرآنِ پاک ان پر ظاہر ہو رہے ہیں اور جو لوگ آپ کے مرید نہ بھی ہوتے وہ بھی کہتے کہ حضرت مجدد اس طرح قرآن کی تلاوت فرماتے ہیں جیسے الفاظ دِل سے نکل رہے ہوں اور سامعین میں سے اکثر پر غنودگی طاری ہو جاتی حالانکہ آپ تلاوت عموماً کھڑے ہو کر کرتے لیکن غنودگی یاسستی کبھی نزدیک نہ پھٹکتی۔
 
== تصرُّفات ==
 
شوقِ زیارت بیت اللہ
 
====== شوقِ زیارت بیت اللہ ======
ایک دفعہ عرفہ کے دِن فجر کی نماز کے بعد حضرت مجدد قدس سرہ العزیز کو زیارت ِبیت اللہ شریف کا شوق غالب آیا۔ اس بے قراری اور اضطراب میں دیکھا کہ تمام عالم جن و انس نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ آپ کی جانب کرتے ہیں۔ حضرت مجدد قدس سرہٗ نہایت حیران ہوئے اورمتوجہ کشف و اسرار ہوئے تو بتایا گیا کہ کعبہ معظمہ آپ کی ملاقات کے لئے آیا ہے اور بیت اللہ شریف نے آپ کا احاطہ کر لیا ہے اس لئے جو بھی کعبہ کو سجدہ کرتا ہے وہ آپ کی طرف ساجد معلوم ہوتا ہے۔اسی اثنا  ئ میں ندائے غیب آئی کہ تُو ہمیشہ زیارت بیت اللہ شریف کا مشتاق رہتا تھا اِس لئے ہم نے کعبہ معظمہ کو تیری زیارت کے واسطے بھیجا ہے۔
 
====== لوحِ محفوظ پیشِ اُو ======
 
عبدالرحیم خانِ خاناں صوبہ دار دکن بوجہ غمازی مورد ِعتابِ سلطانی ہو کر شاہی دربار طلب ہوا۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ جان کا خطرہ لاحق ہوا اس پریشانی میں اس نے حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کے جلیل القدر خلیفہ محمدنعمان قدس سرہٗسے مدد طلب کی۔حضرت میر نے خانِ خاناں کی سفارش لکھ کر حضرت مجدد قدس سرہٗ کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت شیخ نے عریضہ ملاحظہ فرما کر جواب تحریر فرمایا کہ”دروقت ِمطالعہئ کتابت ِخانِ خاناں در نظر رفیع القدر درآمد خاطر شریف از مطالعہ اوجمع شد‘(خانِ خاناں کے خط کے مطالعہ کے وقت۔۔۔)میر محمد نعمان نے وہ خط بجنسہٖ خاناں کے پاس بھیج دیا۔ اس کے چند روز بعد ہی بادشاہ نے خانِ خاناں سے راضی ہو کر خلعت ِخاص عطا کی اور صوبہ داری پر بحال کر دیا۔
 
ایسا ہی ایک واقعہ خواجہ طاہر بندگی لاہوری قدس سرہٗ کے ساتھ پیش آیا جن کی قضائے مبرم حضرت مجدد الف ثانی  قدس سرہٗنے ٹال دی خواجہ طاہر بندگی قدس سرہٗکے حالات میں یہ واقعہ درج کر دیا گیا ہے۔
 
====== مکتوبات شریف کا مقام ======
 
ایک سیّد صاحب کا بیان ہے کہ جن اصحاب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے لڑائی کی، اُن میں سے بالخصوص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مجھے نفرت اور بد ظنی تھی۔ ایک روز مَیں مکتوبات شریف کا مطالعہ کر رہاتھا کہ اس میں لکھا تھا،اِمام مالک رضی اللہ عنہ،شیخین رضی اللہ عنہماکی شتم کرنے والے پر جوحد لگاتے تھے۔ وہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر شتم کرنے والے پر لگاتے تھے۔
 
سطر 532 ⟵ 524:
حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗنے پوری قوت سے ایک تھپڑ میری گدی پر مارا،اسی وقت میرا دل کدورت سے پاک صاف ہو گیا اور حضرت مجدد قدس سرہٗکے کلا م پر میرا اعتقاد کئی سو گناہ زیادہ ہو گیا۔
 
====== عمر مبارک ======
 
ایک روز خاص احباب سے فرمایا کہ مجھے دِکھایا گیا ہے کہ میری عمر تریسٹھ سال ہے۔ شب ِبرات ماہِ شعبان 1033ھ کو شب بیداری کی، مخدوم زادوں کی زبانِ عظمت پناہ سےنکلا کہ آج تقدیر و تقسیم رزق کی رات ہے، خدا جانے آج کس کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے؟یہ سن کر حضرت مجدد الف ثانی  قدس سرہٗ نے فرمایا کہ آپ تو بطور شک و تردد فرما رہے ہیں لیکن اس شخص کا کیا حال ہے جو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے اور اشارہ اپنی طرف فرمایا۔ اس کے تقریباً ساڑھے چھ ماہ بعد آپ کا وصال ہو گیا۔
 
حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز کے خوارق و تصرُّفات بڑے اختصار کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ کیونکہ کثرت ِخوارق سے کسی ولی کی شان نہیں بڑھتی اور نہ ہی قلت سے کسر شان ہوتی ہے۔ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی  قدس سرہٗنے فرمایا؛
 
'''”یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا ئیں ہیں کبھی اولیا ئاللہ میں سے ایک گروہ کو ان خوارق کا مکاشفہ کرایا جاتا ہے اور اسے عطا کی جاتی ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان سب لوگوں کے اوپر وہ شخص ہوتا ہے جس سے ان میں سے کوئی بات بھی ظاہر نہ ہوئی ہو۔“'''
 
مزید فرمایا، کثرت ظہورِ خوارق کو افضلیت کی دلیل بنانا بالکل ایسے ہے جس طرح کوئی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کثرت فضائل و مناقب کو حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ پر افضلیت کی وجہ بنائے کیونکہ جس قدر فضائل و مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ظہور پذیر ہوئے ہیں، سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئے۔
 
== مجدد الف ثانی ==
 
صاحبِ حضرات القدس شَیخ بدر الدین سر ہندی قدس سرہٗ فرماتے ہیں؛
”ہزار سال بالیستے تا ایں چنیں گوہرے بوجود آید۔“
آپ جیسے قیمتی گوہر کووجود میں آنے کے لئے ہزار سال درکار ہیں
 
”ہزار سال بالیستے تا ایں چنیں گوہرے بوجود آید۔“
 
'''ہزار سال بباید کہ تا بباغِ یقین'''
 
'''زشاخِ ہمت چوں تو گلے ببار آید'''
 
'''بہر قرآن و بہر قرن چوں توے نبود'''
 
'''بروزگارچوں تو کسے بروزگار بہ آید'''
 
(ہزار سال درکار ہیں کہ یقین کے باغ کی شاخ پر آپ جیسا پھول کھلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سطر 562 ⟵ 553:
مجدد اسمِ فاعل کا صیغہ ہے،”تجدید کرنے والا“ یا”پُرانے کو نیا کرنے والا“ حدیث شریف میں مجدد کابیان اس طرح آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا؛
 
'''”اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَبْعثُ لِہٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأسِِ کُلّ مِاءَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدلَہَا دِیْنَہا“(اللہ تعالیٰ اِس اُمت کے لئے ہر صدی کے شروع میں کسی کو مبعوث فرمائے گا تاکہ وہ اُمت کے واسطے ان کے دین کی تجدید کرے)'''
 
(اللہ تعالیٰ اِس اُمت کے لئے ہر صدی کے شروع میں کسی کو مبعوث فرمائے گا تاکہ وہ اُمت کے واسطے ان کے دین کی تجدید کرے)
ملا علی قاریقدس سرہٗنے اس حدیث شریف کے بیان میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول لکھا ہے کہ
 
[[ملا علی قاری|ملا علی قاری قدس سرہٗ]] نے اس حدیث شریف کے بیان میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول لکھا ہے کہ
 
”ایسا کوئی سال نہ گزرے گا جس میں لوگ کسی بدعت کو رائج اور کسی سنت کو ضائع نہ کریں یہاں تک کہ سنتیں ختم اور بدعتیں رائج ہو جائیں گی۔“(1)
سطر 574 ⟵ 567:
اس حدیث شریف میں تین قسم کے افراد کے مفاسد کا ازالہ حق پرست اور عادِلاشخاص کے کرنے کا ذکر ہے؛
 
# غلو کرنے والوں کی تحریفات کا
. 1
# باطلوں کے غلط دعاویٰ کا۔
 
# جاہلوں کی تاویلات کا۔
. 2
 
. 3   
 
غلو کرنے والوں کی تحریفات کا
 
باطلوں کے غلط دعاویٰ کا۔
 
جاہلوں کی تاویلات کا۔
 
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس سرہٗ اپنی کتاب ”مجموعہ فتاویٰ عزیزی“ کے صفحہ نمبر 242پر لکھتے ہیں؛
سطر 594 ⟵ 579:
”اللہ تعالیٰ نے اِس اُمت کے علما  ئکو بنی اسرائیل کے انبیا ئکی جگہ دی ہے۔ ہر صدی کے شروع میں کسی عالم کا انتخاب ہوتا ہے تاکہ وہ دین حق کی تجدید کرے اور شریعت میں جان ڈالے (یعنی اس میں قوت آئے اور اس کے احکام نافذہوں) پہلی اُمتوں میں ایک ہزار سال گزارنے کے بعد اولو العزم پیغمبر کی بعثت ہوا کرتی تھی، اس اُمت میں چونکہ کوئی نبی نہیں ہو گا اس لئے اُمت میں ایک ہزار سال گزرنے پر ایسے عالم کی ضرورت ہے جو معرفت ِتامّہ رکھتا ہو(شریعت کے احکام، طریقت کے اسرار اور حقائق کے رموز سے پوری طرح باخبر ہو)
 
'''فیضِ روح القدس ارباز مدد فرماید'''
 
'''دیگراں ہم بکنند آں چہ مسیحا می کرد'''
 
(اگر مولیٰ جل شانہٗ کا لطف و کرم ساتھ دے تو جو کچھ مسیحا نے کیا ہے وہ دوسرے بھی کر دکھائیں)
 
== حدیث ِصلہ ==
 
علامہ جلال الدین سیوطی قدس سرہٗ کی کتاب ”جمع الجوامع“میں یہ حدیث نقل ہے؛
 
سطر 614 ⟵ 598:
(پھر شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فوق الذکر حدیث ِصلہ نقل کی ہے)
 
آپ کی اس تحریر پر اور آپ کے مبشر ہونے پر حدیث ِصلہ پوری طرح صادِق آرہی ہے۔ ہزار سال کے دَور میں مجدد کا لقب کسی دوسرے شخص کو نہیں ملا ہے اور آپ کے اِس استنباط کی تائید نقلیات اور کشفیات سے بھی ہو رہی ہے۔ حضرت مجدد نے اللہ کا شکر ادا کیا ہے اور شکر قبول کرنے والا وہی ہے، وہ فرماتا ہے؛ ”لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُم“(سورہئ ابراھیم (7(اگر شکر ادا کرو گے تو زیادہ دوں گا تمھیں) اور وعدہ ئاِلٰہی بموجب آپ کی دُعا جو شکرِ اِلٰہی ہے مقبول ہے،  ع

'''از قبول کساں دیگر کارے نیست۔'''
 
حضرت شاہ عبدالعزیز قدس سرہٗنے اسی پر ختم کر کے اشارہ کیا ہے کہ اہل فضل و اصحابِ کمال حضرت مجدد قدس سرہٗ کے مداح ہیں،جاہل اور گم کردہ راہ جو چاہیں کہیں۔
 
== شواہد ِتجدید ==
 
حضرت امامِ ربانی، مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کی تجدید ِدین اسلام اور احیائے سنت رسول اللہﷺ کے کارنامے اِس قدر عظیم ہیں کہ یہ صفحات کماحقہ اُس کے بیان کے متحمل نہیں ہو سکتے پھر بھی اُن کامختلف پہلوؤں کا اجمالی جائزہ لیا جاتا ہے؛
1۔ اکبری الحاد کا استیصال
 
1۔ اکبری الحاد کا استیصال
 
تاریخِ عالم میں فرعونِ مصر کے بعد شاید ہی کوئی ایسا حکمران گزرا ہو گا جس نے خود کو سجدہ کرایا ہو، لیکن اکبر بادشاہ جو بظاہر ایک مسلمان حکمران تھا،اس کا کردار بے دینوں سے بھی بدترتھا کہ دربارِ شاہی میں حاضری کے وقت اپنے آپ کو سجدہ کراتا تھا۔ فرعون کے بعد شاید یہ پہلا بادشاہ تھا جو خود کو سجدہ کراتا تھا اور جس نے”دین الٰہی“کے نام سے ایک نیا مذہب رائج کر لیا تھااس لئے ہندو اور عیسائی مؤرخوں نے اکبر کو”اکبر اعظم“ اور مغل اعظم مشہور کرنے میں اپنی ساری قوت صرف کر دی۔ اسلام میں چونکہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کرنے کی سخت تاکید ہے۔ اس ناچیز کے خیال کے مطابق حضرت مجدد الف ثانی  قدس سرہٗکو ہندوستان میں مبعوث فرمانے کی یہی مشیت ایزی تھی کہ آدمی کو سجدہ کرنے کے شرک کا قلع قمع کیا جائے۔
 
سطر 629 ⟵ 612:
 
حضرت مجدد قدس سرہٗنے اپنی حق آگاہی اور خودشناسی کی بدولت ایک عظیم مملکت کے سربراہ کے دل کو اپنے اخلاق و اخلاص سے پھیر دیا اور پھر اُسی فسق و فجور میں مست شرابی بادشاہ جہانگیر نے عدلِ جہانگیری کی ایک ایسی مثال قائم کی جو آج تک یاد گار ہے اور اس کی اولاد میں شاہ جہان اور اورنگزیب عالمگیر جیسی عظیم ہستیاں وجود میں آئیں،جنھوں نے تبلیغِ اسلام کے وہ کارہائے نمایاں سر انجام دئیے کہ جو تاریخِ اسلام میں آب ِزر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ ذٰلک فضل من اللّٰہ۔
جارحانہ ہندو احیائیت
 
جارحانہ ہندو احیائیت
 
اکبر بادشاہ کی بے راہ روی کی وجہ سے ہندوؤں کی جرأت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ہندو بے تحاشا مسجدوں گو گرا کر اپنے مندر تعمیر کر رہے تھے، تھانیسر کے علاقہ میں ایک مسجد اور بزرگ کا مقبرہ گرا کر اس جگہ مندر بنوادیا گیا۔متھرا میں ایک برہمن نے مسجد کی اینٹ پتھر کو مندر کی تعمیر میں استعمال کیا، مسلمانوں کی مزاحمت پر اس نے رسولِ اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کی لیکن عجیب واقعہ یہ ہوا کہ اس برہمن کو سزائے قتل دینے پر اکبر کے دربار میں بڑا ہنگامہ ہوا۔یہی وجہ تھی کہ حضرت مجدد الف ثانی  قدس سرہٗ ہندوؤں کے معاملہ میں سختی اور شدت کا اظہار کرتے تھے۔
تاریخ کا فیصلہ
 
تاریخ کا فیصلہ
 
شیخ محمد اکرام اپنی تصنیف”رودِ کوثر“میں رقم طراز ہیں؛”ہندوؤں کے متعلق حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز نے بسا اوقات بڑی تلخی اور غیض و غضب کا اظہار کیا ہے، بہر کیف ان کا اندازِ فکر اور اسلوبِ اِظہار اُن صوفیہ سے بالکل مختلف ہے جنہیں ہندو احیائیت کا سامنا نہ کرنا پڑا، لیکن ہندو مسلم اختلافات کے متعلق تاریخ نے حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کے نقطہئ نظر کی تائید کی اور ہندو مسلم اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔انگریزی عہدمیں اختلاف اور بڑھ گئے اور بر صغیر کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنا پڑا۔ شاید ان ملکوں کے رہنما اور بیرونی خیر خواہ بھی کبھی سرہند کے اس مردِ آخر بین کی رائے تسلیم کر لیں کہ ان دونوں کے درمیان امن و سلامتی کا راستہ اتحاد نہیں بلکہ ہمسایانہ رواداری ہے۔“
2۔ ملحدین صوفیا ئ
 
2۔ ملحدین صوفیا ئ
 
یہ وہ لوگ تھے جو حضراتِ مشائخ کرام کے اقوال کی غلط اور گمراہ کن تاویلات و تشریحات کر کے عوام کو گمراہ کر رہے تھے اور اپنی دکان سجانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ حضرت مجدد قدس سرہٗنے ان کی قلعی کھول کر رکھ دی اور عوام الناس کو بتا دیا کہ ان کی اندرونی حالت کیا ہے اور ان کی تشریحات کی قباحتوں کو واضح فرما دیا۔
3۔ بیباک علمأ  
 
بے باک علما ئاور جاہل صوفیا ئ کو حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے باور کرایا کہ شریعت کی متابعت کے بغیر تم کچھ بھی نہیں ہو کیونکہ قیامت کے دِن شریعت کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی نہ کہ طریقت کے متعلق، کیونکہ شریعت کا ثبوت وحی سے ہوا جو قطعی اور یقینی ہے اور طریقت کا ثبوت الہام سے ہوا ہے جو کہ ظنی ہے اس قطعی کے مقابل ظنی کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔آپ نے فرمایا، مشائخ کی رُوحانیات اور ان کی امدادات پر ہر گز مغرور نہ ہو۔
3۔ بیباک علمأ  
 
بے باک علما ئاور جاہل صوفیا ئ کو حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے باور کرایا کہ شریعت کی متابعت کے بغیر تم کچھ بھی نہیں ہو کیونکہ قیامت کے دِن شریعت کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی نہ کہ طریقت کے متعلق، کیونکہ شریعت کا ثبوت وحی سے ہوا جو قطعی اور یقینی ہے اور طریقت کا ثبوت الہام سے ہوا ہے جو کہ ظنی ہے اس قطعی کے مقابل ظنی کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔آپ نے فرمایا، مشائخ کی رُوحانیات اور ان کی امدادات پر ہر گز مغرور نہ ہو۔
 
  پھر فرمایا؛ تمام مشائخ کے اقوال و اعمال کو سرکارِ دو جہاں ﷺ کے اقوال و واعمال پر جانچو!
4۔ شریعت، طریقت اور حقیقت
 
4۔ شریعت، طریقت اور حقیقت
 
حکیمِ مطلق نے حضرت مجددقدس سرہٗکو حکمت و بصیرت ِتامہ عطا فرمائی اور آپ پر پوری طرح منکشف ہوا کہ کچھ بے سمجھ لوگ جن کے دِلوں میں مرض ہے، طریقت و حقیقت کو شریعت سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ طریقت کے نام پر عوام کو گمراہ کر کے باطنیوں کے مسلک کو رواج دے رہے ہیں۔ آپ نے اِن سب مفاسد و افترا ئ کا ایسا سدِّباب فرمایا کہکسی کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی۔
5۔ وحدت ِوجود، وحدتِ شہود
 
5۔ وحدت ِوجود، وحدتِ شہود
 
شیخ اکبرقدس سرہٗکے نزدیک تمام کائنات کی اصل اور حقیقت علمِ الٰہی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ انسان جن فرشتے، حیوان، زمین، ستارے، عرش، کرسی، لوح قلم، جنت، دوزخ غرض ہر شے کے متعلق اللہ تعالیٰ کے علم میں سب کچھ موجود ہے اور جس شے کے متعلق جو کچھ علمِ الٰہی میں ہے وہی اس شے کی حقیقت اور اس کی اصل ہے جب تک علمِ الٰہی کا ظہور نہیں ہوا، ساری حقیقیتں عالمِ غیب میں مستور رہیں اور جب علمِ الٰہی کا ظہور ہوا، حقیقتیں بھی ظاہر ہو گئیں۔ شیخ اکبرقدس سرہٗظاہر حقیقتوں کو اعیانِ ثانیہ کہتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب اعیان ثانیہ کے ظہور کا وقت آیا تو ان کا عکس ظاہر ہوا، وہی عکس ان کا وجود ہے۔ چونکہ یہ عکس بھی اللہ تعالیٰ کی صنعت و کاریگری ہے اس لئے اس کے واسطے پائیداری ثابت ہے یعنی خارجی شے شیخ اکبرقدس سرہٗکے نزدیک کچھ نہیں۔
 
اس کے برعکس حضرت مجدد الف ثانیقدس سرہٗ کے نزدیک کائنات کی حقائق اجزائے عدمیہ ہیں جو خالی ہیں۔ ان پر اوصافِ الٰہیہ کا پر تو اور ظل پڑا۔ آپ کے نزدیک ظل عین اصل نہیں لہٰذا افتراق ثابت ہو گیا یعنی حضرت مجدد قدس سرہٗکے قول سے اتحاد کی جڑ اور اساس سرے سے نکل جاتی ہے اور وحدت ِوجود کا نظریہ قائم نہیں رہتا۔ حضرت مجدد قدس سرہٗفرماتے ہیں کہ سالک جب فنایت کے مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو بجز محبوب کے کچھ نظر نہیں آتا حتیٰ کہ وہ اپنا وجود بھی نہیں دیکھتا، لہٰذا اس کی زبان سے اتحاد کا قول نکلتا ہے کوئی انالحق کوئی سبحانی کہتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں اگر اس مقام اور کیفیت کی حالت میں سالک کی عالم میں مراجعت ہوتی ہے تو عالم کے ہر ذرہ میں اس کو جمالِ محبوب نظر آتا ہے اور وہ کہتا ہے   ؎
 
'''دیدہ بکشا و جمالِ یار بیں'''
 
'''ہر طرف ہرجا رُخِ دلدار بیں'''
 
(آنکھیں کھول! اور جمالِ یار دیکھ، اور ذرے ذرے جلوہئ محبوب کا نظارہ کر!)
سطر 667 ⟵ 638:
 
یہ مقامِ عبدیت ہے اور بالا صالت اس کا تعلق سردارِ کل کائنات سیدنا محمد علیہ افضل الصلوٰۃ واکمل التحیات سے ہے۔
ایک نکتہ
 
ایک نکتہ
 
مؤمن کی معراج نماز ہے اور نماز کا آخر قعدہ ہے اور قعدہ میں اس مبارک مکالمہ کو رکھا گیا ہے، جس سے رسول اللہﷺ کے معراج میں مکالمہ کی ابتداکی ہے اور اس کا سر زیر اقدام آنحضرتﷺ اور اس بات کا اِشارہ ہے کہ مؤمن کی معراج کی انتہا ئوصول بہ حضرت رسولِ اکرمﷺ ہے اور رسول اللہﷺ کی معراج کی انتہا بارگاہِ رب العلمن ہے، لہٰذا تشہد کے بعد نمازی درُود شریف پڑھے۔
 
جس مقام کو شیخ اکبر حقیقت ِمحمدی کہہ کر درجہئ وجوب ثابت کرتے ہیں حضرت مجدد قدس سرہٗ کے نزدیک وہی مقام ِعبدیت ہے۔ اس کو واجب تعالیٰ و تقدس سے کوئی اشتراک نہیں، اس کو نسبت ِعبدیت ہے وہ عبد ہے اور واجب تعالیٰ معبود، جس کی تخلیق ہو اس کے لئے وجوب کیا؟ ارشادِ نبویﷺ ہے؛”اَللّٰہُمّ اَنْتَ رَبِیّ لَا ٓاِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُکَ“(اے اللہ!تُومیرا پالنے والا ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تُو نے مجھے پیدا کیا اور مَیں تیرا بندہ ہوں)حضرت مجدد  قدس سرہٗ کی تالیفات
 
== '''حضرت مجدد  قدس سرہٗ کی تالیفات''' ==
حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کی تالیفات کی ابتدأ رسائل سے ہوئی اور انتہا ئ مکتوبات شریف پر ہوئی۔ آپ کے سات رسائل مشہور ہیں؛
 
# رسالہ تہلیلیہ؛ اس کو”رسالہ تحقیق درکلمہ طیبہ“ بھی کہتے ہیں یہ بارہ صفحے کا رسالہ آپ کی پہلی تالیف ہے۔
. 1
# رسالہ اثبات نبوت؛اِس کو ”رسالہ تحقیقِ نبوت“بھی کہتے ہیں۔
# رسالہ ردِ شیعہ؛ اِس کو”رسالہ ردِّروافض“ بھی کہتے ہیں، تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ یہ رسالہ شیعہ حضرات کے ایک رسالہ کے جواب میں لکھا تھا۔ اس میں شیعوں کے چودہ طائفوں کا بیان ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے حضرت مجدد قدس سرہٗ کے رسالہ”ردِّ روافض“کا عربی ترجمہ کیا ہے،شروع میں عہدِ اکبری کے مذہبی رجحانات پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗکے کارنامے اور احسانات تفصیل سے گنائے ہیں۔
# مندرجہ بالا تینوں رسالے سلسلہ نقشبندیہ میں داخل ہونے سے پہلے تالیف ہوئے۔
# رسالہ معارف ِلدنیہ۔
# رسالہ شرح الشرح بعض رُباعیات حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ۔
# رسالہ مبداؤ معاد
# رسالہ مکاشفاتِ عینیہ
# اول الذکر دو رسالے عربی میں،  باقی تین تا سات فارسی میں ہیں۔
 
== مکتوبات شریف ==
رسالہ تہلیلیہ؛ اس کو”رسالہ تحقیق درکلمہ طیبہ“ بھی کہتے ہیں یہ بارہ صفحے کا رسالہ آپ کی پہلی تالیف ہے۔
آپ کے مکتوبات شریف کے تین دفتر یعنی حصے ہیں۔ پہلے حصے کو خواجہ یار محمد الجدید بدخشی طالقانی قدس سرہٗنے جمع کیا ہے۔ جب 1025ھ میں مکتوبات کی تعدادتین سو تیرہ ہو گئی جو کہ انبیا  ئمرسل اور اصحابِ بدر کی تعداد ہے۔ تو حضرت مجددقدس سرہٗکے اِشارے پر اس دفتر کو بند کر دیا گیا۔ اِس کا تاریخی نام ”دُرّالمعرفت“ ہے۔
 
دوسرے دفتر کو خواجہ عبدالحئی حصاری قدس سرہٗنے جمع کیا ہے۔ اس دفتر کو ننانوے مکتوبات پر حضرت مجددقدس سرہٗنے 1028ھ میں بند کرا دیا۔ آپ نے فرمایا، اسمائے حسنہ بھی ننانوے ہیں۔ اس دفتر کا تاریخی نام ”نورُ الخلائق“ ہے۔ تیسرے دفتر کو جمع کرنے کی ابتدا ئمیر محمد نعمان قدس سرہٗنے کی تھی۔ تیس مکاتیب کے بعد یہ خدمت اُن کے مرید سرمست ِجامِ احمدی،خواجہ ہاشم کشمی قدس سرہٗکے سپرد ہوئی۔ جب مکاتیب کی تعداد ایک سو چودہ کو پہنچی تو حضرت مجددقدس سرہٗنے فرمایا، قرآنِ مجید کی سورتیں ایک سو چودہ ہیں لہٰذا اِس عدد پر دفتر کو بند کر دو۔اس دفتر کا نام”بحر المعرفت“ رکھا گیا،یہ واقعہ 1033ھ کا ہے۔ اس کے چند ماہ بعد تک حضرت مجددقدس سرہٗ بقید ِحیات رہے اور مزید دس مکتوب آپ نے تحریر فرمائے اور آپ کی وفات کے بعد ان کو اسی دفتر میں شامل کر دیا گیا۔ اس طرح تیسرے دفتر میں ایک سو چوبیس مکتوب ہو گئے اور آپ کے کل مکتوبات کی تعداد پانچ سو چھتیس ہے۔
. 2
 
یہ ہے آپ کا اثاثہ مبارک!جو اہل اسلام کے لئے سرمایہئ سعادت و نورِ ہدایت بنا ہوا ہے اور ہزاروں بند گانِ خدا اِس کی بدولت مراتب ِعالیہ کو پہنچ چکے ہیں۔ صدہا مشائخِ عظام اور علمائے کرام کے مکاتیب کو ان کے شاگردوں اور مخلصوں نے جمع کیا ہے، لیکن جو قبولیت آپ کے مکتوبات شریف کو حاصل ہوئی وہ کسی کے مکتوبات کو نہ ہوئی۔ صحیح مسلم کی روایت کردہ حدیث ِمبارک ”پھر اہل زمین میں اس کی قبولیت رکھ دی جاتی ہے“ کی روشنی میں آپ کے مکتوبات شریف کی مقبولیت دیکھ کر آپ کی محبوبیت کا اندازہ کیا جائے   ؎
. 3
 
'''ایں سعادت بزورِ بازو نیست'''
. 4
 
'''تا نہ بخشد خدائے بخشندہ'''
. 5
 
(یہ سعادت و قبولیت زورِبازو سے حاصل نہیں ہوتی،جب تک اللہ تعالیٰ کسی کو عطا نہ کرے)
. 6
 
مکتوباتِ امام ربانی قدس سرہٗ برِّکوچک ِپاک و ہند میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان سے باہر دوسرے ممالک میں بھی مقبولیت کے جس درجہ پر پہنچے اور ان کی جس قدر شہرت ہوئی وہ دوسرے مکتوبات کے حصہ میں نہ آسکی۔ امامِ ربانی قدس سرہٗ کی حیات ِمبارکہ سے تا ایں دم تقریباً چار سو سال میں ان کی مقبولیت میں سرموفرق نہیں آیا بلکہ روز افزوں ہے، جو نتیجہ ہے اس کا کہ  ع
. 7
 
'''ہر چہ از دل خیزد،  بر دِل ریزد'''
رسالہ اثبات نبوت؛اِس کو ”رسالہ تحقیقِ نبوت“بھی کہتے ہیں۔
 
(ہر وہ بات جو دِل سے اُٹھتی ہے، سیدھی دلوں میں اُترتی ہے)
رسالہ ردِ شیعہ؛ اِس کو”رسالہ ردِّروافض“ بھی کہتے ہیں، تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ یہ رسالہ شیعہ حضرات کے ایک رسالہ کے جواب میں لکھا تھا۔ اس میں شیعوں کے چودہ طائفوں کا بیان ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے حضرت مجدد قدس سرہٗ کے رسالہ”ردِّ روافض“کا عربی ترجمہ کیا ہے،شروع میں عہدِ اکبری کے مذہبی رجحانات پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗکے کارنامے اور احسانات تفصیل سے گنائے ہیں۔
 
ہندوستان میں تصوف کی تھوڑی کتابوں کو وہ قدر و منزلت میسر آئی ہے جو مکتوبات امامِ ربانی قدس سرہٗ کو نصیب ہے۔ حضرت سر ہندی قدس سرہٗ کی زندگی میں ہی ان کی نقلیں ہندوستان اور ہندوستان سے باہر دوسرے ملکوں میں پھیل گئی تھیں اور آج بھی ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔حد تو یہ ہے کہ مولانا عبدالماجد دریا آبادی  قدس سرہٗ فرماتے ہیں؛
مندرجہ بالا تینوں رسالے سلسلہ نقشبندیہ میں داخل ہونے سے پہلے تالیف ہوئے۔
 
”تصوف ِاِسلام میں سب سے زیادہ اثر میرے اوپر دو کتابوں کا پڑا ہے۔ اول مثنوی جس نے دہریت والحاد سے کھینچ کر مجھے اِسلام کی راہ دکھائی۔ اس اجمال کے بعد ضرورت تفصیل کی تھی یعنی اسلام کے اندر عقائد و اعمال میں متعین راہ کونسی اختیار کی جائے۔ اِس باب میں شمعِ ہدایت کا کام مکتوباتِ امام ربانی قدس سرہٗ نے دیا۔“سلسلہ مجددیہ کی ایک بڑی شاخ خالدیہ مجددیہ کے نام سے عراق، شام و عرب اور ترکی ممالک میں زیادہ مقبول ہوئی۔ ان ممالک میں آپ کے مکاتیب براہِ راست فارسی زبان میں کثرت سے پڑھے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک مجموعہ منتخبات مکتوبات شریفہ مطبوعہ ترکی، مؤلف کی نظر سے گزرا،جس میں علمائے ترکی کی ایک مقتدر ہستی آرواسی زادہ حضرت عبدالحکیم ابن مصطفےٰ النقشبندی المجددی الخالدی از علمائے سادات ِترکیہ نے فرمایا؛
رسالہ معارف ِلدنیہ۔
 
# بعد کتاب اللہ و بعد کتب ستہ افضل کتب مکتوبات۔
رسالہ شرح الشرح بعض رُباعیات حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ۔
# مانند ِ مکتوباتِ امام ربانی ہیچ کتاب چاپ نہ شدہ است
 
'''ہر لطافت کہ نہاں بود پسِ پردہئ غیب'''
رسالہ مبداؤ معاد
 
'''ہمہ در صورتِ خوبِ تو عیاں ساختہ اند'''
رسالہ مکاشفاتِ عینیہ
 
'''ہرچہ بر صفحہ اندیشہ کشد کلکِ خیال'''
اول الذکر دو رسالے عربی میں،  باقی تین تا سات فارسی میں ہیں۔
آپ کی ولادت '''جمعۃ المبارک 14 شوال971 ھ''' (یہی [[باقی باللہ|خواجہ باقی باللہ]] کا سال ولادت ہے)بمطابق '''26 مئی 1564ء''' کو نصف شب کے بعد ہندوستان میں ہوئی۔<ref>جہان امام ربانی، اقلیم اول، ص 328،امام ربانی فاؤنڈیشن، کراچی</ref> آپ کے والد شیخ عبد الاحد ایک ممتاز عالم دین تھے اور صوفی تھے۔ صغر سنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر [[سیالکوٹ]] جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محدثّین سے فن حدیث حاصل کیا۔ آپ سترہ سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ تصوف میں سلسلہ [[چشتیہ]] کی تعلیم اپنے والد سے پائی، [[سلسلہ قادریہ]] کی اور سلسلہ [[سلسلہ نقشبندیہ|نقشبندیہ]] کی تعلیم [[دلی|دہلی]] جاکر [[خواجہ باقی باللہ]] سے حاصل کی۔ 1599ء میں آپ نے خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ [[اناطولیہ|روم]]، [[شام]]، [[ماوراء النہر]] اور [[افغانستان]] وغیرہ تمام عالم اسلام کے مشائخ علما اور ارادتمند آکر آپ سے مستفید و مستفیض ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ ’’مجدد الف ثانی ‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے۔ یہ خطاب سب سے پہلے آپ کے لیے ’’[[عبدالحکیم سیالکوٹی]]‘‘ نے استعمال کیا۔ طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے۔ آپ کو مرشد کی وفات (نومبر 1603ء) کے بعد [[سلسلہ نقشبندیہ]] کی سربراہی کا شرف حاصل ہوا اور آخری عمر تک دعوت وارشاد سے متعلق رہے [[سرہند]] میں بروز سہ شنبہ 28 صفرالمظفر 1034؁ھ بعمر 62 سال اور کچھ ماہ وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔<ref>مجدد الف ثانی ص: 233، بحوالہ زبدۃالمقامات وحضرات القدس</ref>
 
'''شکل مطبوعِ توزیبا تر زاں ساختہ اند'''
== مجدد کا لقب ==
بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر ہزار سال کے بعد تجدید دین کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مجددمبعوث فرماتا ہے۔ چنانچہ علما کا اتفاق ہے کہ [[عمر بن عبدالعزیز]] رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بعد دوسرے ہزار سال کے مجدد آپ ہی ہیں اسی لیے آپ کو مجدد الف ثانی کہتے ہیں۔
 
(ہروہ لطافت جو پردہئ غیب کے پیچھے چھپی ہوئی تھی،وہ سب اکٹھی ہو کر آپ کی صورت میں ظاہر ہوگئی ہیں اور ہر وہ بلند خیال جو کسی ذہن میں آ سکتا ہے، آپ کی زیبائی کی صورت میں وجود بن گیا ہے)
=== دیگر القابات ===
بارگاہ فلک رفعت، آرام گاہ عالی مرتبت، دربار گوہر بار، مزار، اعلیٰ عظیم البرکت، قیوم ملت، خزینۃ الرحمۃ، محدث رحمانی، غوث صمدانی، امام ربانی، المجدد المنور الف ثانی، ابو البرکات شیخ بد ر الدین احمد فاروقی، نقشبندی، سرہندی۔<ref>جہان امام ربانی، اقلیم اول، ص 389،امام ربانی فاؤنڈیشن، کراچی</ref>
 
== شریعتآئینہ کیجہاں پابندینما ==
<blockquote>حضرت مجدد قدس سرہٗ کی اولادِ امجاد</blockquote>حضرت مجدد قدس سرہٗ اور آپ کی اولاد کے متعلق حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗنے فرمایا ہے، ”فقرائے باب اللہ انددِلہائے عجب دارند، زیادہ جرأت است“(یہ لوگ اللہ کے در کے فقرا  ئہیں، عجیب و غریب دل رکھتے ہیں، زیادہ لکھنا جرأت ہے) یہ حضرات اپنی پاک باطنی اور صاحب دلی کی وجہ سے آئینہ ہائے جہاں نما بن گئے ہیں -
مجدد الف ثانی مطلقاً [[تصوف]] کے مخالف نہیں تھے۔ آپ نے ایسے تصوف کی مخالفت کی جو شریعت کے تابع نہ ہو۔ قرآن و سنت کی پیروی اور ارکان اسلام پر عمل ہی آپ کے نزدیک کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ آپ کے مرشد خواجہ رضی الدین محمد باقی با اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے [[ہندوستان]] میں تصوف کا نقشبندی سلسلہ متعارف کرایا اور آپ نے اس سلسلہ کو ترقی دی۔
 
== حضرت مجدد قدس سرہٗ کی اولاد کی تعداد دس ہے۔ ==
== بدعات کا رد ==
سات صاحبزادگان اور تین صاحبزادیاں،
[[مغل]] بادشاہ [[جلال الدین اکبر]] کے دور میں بہت سی ہندوانہ رسوم و رواج اور عقائد اسلام میں شامل ہو گئے تھے۔ اسلام کا تشخص ختم ہو چکا تھا اور اسلام اور ہندومت میں فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ان کے مطابق دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے۔ آپ اپنے ایک مکتوب میں بدعات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
 
==   صاحبزادگان کے اسمائے گرامی یہ ہیں؛ ==
{{اقتباس| لوگوں نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حسن و نورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔}}
   '''1۔خواجہ محمد صادق قدس سرہٗ'''
 
'''2۔ خواجہ محمد سعید قدس سرہٗ'''
== اہل تشیع کا رد ==
ردِ روافض برصغیر میں اہل تشیع کے خلاف لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے۔ اس میں شیخ احمد سرہندی لکھتے ہیں:
 
'''3۔ خواجہ محمد معصوم قدس سرہٗ'''
"علمائے ماوراء النہر نے فرمایا کہ جب شیعہ حضرات شیخین، ذی النورین اور ازدواج مطہرات کو گالی دیتے ہیں اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں تو بروئے شرع کافر ہوئے۔ لہذا بادشاہِ اسلام اور نیز عام لوگوں پر بحکم خداوندی اور اعلائے کلمة الحق کی خاطر واجب و لازم ہے کہ ان کو قتل کریں، ان کا قلع قمع کریں، ان کے مکانات کو برباد و ویران کریں اور ان کے مال و اسباب کو چھین لیں۔ یہ سب مسلمانوں کیلئے جائز و روا ہے"<ref>شیخ احمد سرہندی، ردِ روافض، صفحہ 35، مدنی کتب خانہ، گنپت روڈ، لاہور۔</ref>۔
 
'''   4۔خواجہ محمد فرخ قدس سرہٗ'''
البتہ چونکہ شیخ احمد سرہندی کا اس وقت معاشرے پر اتنا اثر نہ تھا، مغل دور کا ہندوستان صلح کل پر کاربند رہا۔ آپ کے خیالات آپ کی وفات کے سو سال بعد شاہ ولی اللہ اور انکے خاندان نے زیادہ مقبول بنائے۔شاہ ولی الله نے شیخ احمد سرہندی کی کتاب "رد روافض" کا عربی میں ترجمہ بعنوان"المقدمۃ السنیہ فی الانتصار للفرقۃ السنیہ"کیا<ref>{{Cite web|url=https://makhtota.ksu.edu.sa/makhtota/4583/10#.YAGj7-hKhPa|title=|date=|accessdate=|website=مخطوطات > المقدمة السنية في الانتصار للفرقة السنية|publisher=|last=|first=}}</ref>۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ 1820ء میں شروع ہوا جب سید احمد بریلوی نے اپنے مجاہدین کو امام بارگاہوں پر حملے کے لیے ابھارا۔ پروفیسر باربرا مٹکاف لکھتی ہیں:
 
'''5۔ خواجہ محمد عیسیٰ قدس سرہٗ'''
” دوسری  قسم کے امور  جن سے سید احمد بریلوی   شدید پرخاش رکھتے تھے ، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:
 
'''6۔خواجہ محمد اشرف قدس سرہٗ'''
’ایک سچے مومن کو  طاقت کے استعمال کے ذریعے  تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہئیے۔اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہئیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہئیے‘۔
 
'''   7۔ خواجہ محمد یحییٰ قدس سرہٗ'''
سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں  نے ، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں  ہزاروں کی تعداد میں  تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے  جلائے جانے کاذکر کیا ہے“<ref>B. Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900", p. 58, Princeton University Press, 1982</ref>۔
 
== تین صاحبزادیوں کے اسمائے  مبارکہ یہ ہیں؛ ==
== قید و بند کی صعوبت ==
   '''1۔رقیہ؛ شیر خوارگی میں وفات پا گئیں۔'''
مجدد الف ثانی کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے دور ابتلا سے بھی گزرنا پڑا۔ بعض امرا نے مغل بادشاہ [[نورالدین جہانگیر|جہانگیر]] کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور یقین دلایا کہ آپ باغی ہیں اور اس کی نشانی یہ بتائی کہ آپ بادشاہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے قائل نہیں ہیں، چنانچہ آپ کو دربار میں طلب کیا جائے۔ جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو دربار میں طلب کر لیا۔ آپ نے بادشاہ کو تعظیمی سجدہ نہ کیا۔ جب بادشاہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے کہا:{{اقتباس|سجدہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے جو اس کے کسی بندے کو نہیں دیا جا سکتا۔}}
 
'''    2۔اُم کلثوم؛ چودہ برس کی عمرمیں وفات پا گئیں۔'''
بادشاہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ شیخ جھک جائیں لیکن مجدد الف ثانی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بعض امرا نے بادشاہ کو آپ کے قتل کا مشورہ دیا۔ غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ تو نہ ہو سکا البتہ آپ کو [[گوالیار]] کے قلعے میں نظر بند کر دیا گیا۔ آپ نے قلعے کے اندر ہی تبلیغ شروع کر دی اور وہاں کئی غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔ قلعہ میں متعین فوج میں بھی آپ کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ بالآخر جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آپ کو رہا کر دیا۔ رہائی کے بعد جہانگیر نے آپ کو اپنے لشکر کے ساتھ ہی رکھا۔
 
'''    3۔خدیجہ زماں؛ سلوکِ باطنی والد ِبزرگوار سے حاصل کیا حضرت مجدد قدس سرہٗنے آپ کو وِلایت و کمالات کے انتہائی درجہ کے حصول کی بشارت دی تھی۔'''
 
== تصنیفات ==
سطر 759 ⟵ 737:
# رسالہ حالات خواجگان نقشبند
{{Div col end}}
ان تصانیف میں اول الذکر آٹھ کتابیں طبع ہو چکی ہیں باقی تصانیف کا ذکر تذکروں میں ملتا تو ہے لیکن نایاب ہیں۔<ref>جہان امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، اقلیم پنجم صفحہ 95 ، امام ربانی فاؤنڈیشن کراچی پاکستان</ref>
 
== انتقال ==
ایک دن بیماری کے دوران میں فرمایا:
* آج ملاوی کنت سون سکھی سب جگ دیواں ہار (ترجمہ:آج دوست کا روز وصال ہے اے محبوب میں تمام دنیا کو اس نعمت پر قربان کرتا ہوں)۔ بروز [[منگل]] 28 [[صفر]] [[1034ھ]] مطابق [[10 دسمبر]] [[1624ء]] کو وصال فرمایا اورسر ہند میں طلوع ہونے والا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ کامزار پرانوار سرہند شریف (انڈیا)میں مرکزِ انوار وتجلیات ہے۔<ref>سیرت مجدد الف ثانی، ص262</ref><ref>{{Cite web |url=https://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-sheikh-ahmed-sirhindi-imam-rabbani-mujaddid |title=انتقالِ پرملال |access-date=2017-02-25 |archive-date=2017-10-03 |archive-url=https://web.archive.org/web/20171003011541/http://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-sheikh-ahmed-sirhindi-imam-rabbani-mujaddid |url-status=dead }}</ref>
== اولاد و امجاد ==
مجدد الف ثانی کے سات بیٹے اور تین صاحبزادیاں تھیں جن کے نام یوں ہیں:
 
=== صاحبزادگان ===
{{Div col|cols=2}}
# [[خواجہ محمد صادق]]
# [[خواجہ محمد سعید]]
# [[خواجہ محمد معصوم]]
# [[خواجہ محمد فرخ]]
# خواجہ محمد عیسیٰ
# خواجہ محمد اشرف
# [[خواجہ محمد یحیی]]
{{Div col end}}
=== صاحبزادیاں ===
* بی بی رقیہ بانو
* بی بی خدیجہ بانو
* بی بی ام کلثوم
 
== سلسلہ شیوخ ==