"ضلع باجوڑ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.7
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 116:
|footnotes =
}}
باجوڑ ۔
 
(تحریر و تحقیق مولانا خانزیب)
[[تصویر:FATA Dist Bajour.svg|تصغیر|باجوڑ ایجنسی]]
 
باجوڑ [[خیبر پختونخوا]] زکا ایک ضلع ہے۔ جو سات تحصیلوں پر مشتمل ہیں۔ جن میں تحصیل [[خار، باجوڑ|خار]]، [[ناواگئی]]، [[چمرکنڈ]]، [[ماموند]]، [[سالارزئی]]، [[اتمان خیل]] اور [[برنگ]] شامل ہیں۔ اول الذکر پانچ تحصیلوں میں [[ترکانڑی]] قبائل (کاکازئی، وڑو، سالارزئی) جبکہ اتمان خیل اور برنگ میں اتمان خیل قبائل آباد ہے۔ باجوڑ کا ہیڈکوارٹر خار میں واقع ہے۔ باجوڑ کے شمال میں افغانستان کا صوبہ کنڑ واقع ہے, غاخ پاس اور ناوا پاس یہ دو راستے ہیں جو باجوڑ کو افغانستان سے ملاتے ییں, باجوڑ کے مشرق میں ضلع دیر واقع ہے اور جنوب میں مہمند کا علاقہ ہے۔
باجوڑ صوبہ خیبرپختونخوا کا شمال میں واقع  ایک تاریخی ضلع ہے ، زمانہ ئے قدیم میں جب پشتون سرزمین پر بودھ مت کا دور تھا موجودہ پختونخوا بامیان تک ،گندھارا سلطنت ایران ،کے تحت ایک مستقل صوبہ تھا تو باجوڑ بھی ،گندھارا ، کے جغرافیہ کاحصہ تھا یہاں کی زمین میں وقتاً فوقتاً ہزاروں سالہ قدیم دور کے بہت سے نوادرات دریافت ہوئے ہیں مگر بدقسمتی سے وہ سب چوری چھپے نکالے گئے ہیں کیونکہ وزیرستان سے باجوڑ تک کے علاقے میں آج تک ایک بھی ،میوزیم ، موجود نہیں ہے جسمیں اس علاقے کے تاریخی آثار کو محفوظ کیا جاسکے۔
 
اب بھی باجوڑ میں بیشمار آثار قدیمہ کے ٹیلے موجود ہیں ماموند ، برنگ ،سلارزو ، چارمنگ ،اور ،ناواگئ ،میں جگہ جگہ ،سٹوپوں ، کے ممکنہ نشانات بھی ملے ہیں جنکو اگر سائنسی وسائل کی مدد سے کھولا جائے تو گزرے ہوئے دور کے بہت سے راز ہمیں مل سکتے ہیں ۔ باجوڑ  کے مشرق میں ضلع دیر مغرب میں افغانستان کا صوبہ کنڑ جنوب میں ضلع مومند جبکہ شمال میں بھی صوبہ کنڑ واقع ہے ۔
 
باجوڑ کے افغانستان کیساتھ کچھ ،پچاس ، کلومیٹر طویل سرحدی پٹی ہے افغانستان کا صوبہ کنڑ باجوڑ سے متصل ہے ڈیورنڈ لائن کے آر پار ترکانڑی قبیلہ کے دو شاخوں ،ماموند ،اور سلارزی ، کے لوگ آباد ہیں انکے درمیان ہزاروں سال سے 26 ایسے راستے تھے جن پر انکے درمیان آمد و رفت کے ساتھ وسطی ایشیاء تک تجارت ہوتی تھی اب باڑ لگانے سے یہ امدورفت مستقل طور پر بند ہوچکی ہے ۔
 
ان 26 راستوں میں سب سے بڑا تاریخی راستہ ،ناواپاس ،کا ہے جن سے 327 ق م میں سکندر یونانی کے لشکروں کے ساتھ ، چنگیز خان 1222ع ،محمود غزنوی 1020ع ،اور ،ظہیر الدین بابر 1519 ع ،کے لشکر داخل ہوئے تھے ناوا پاس کا راستہ انگریز مؤرخ ، ولیم ونسٹھ ،کے بقول ھندوستان کی جانب سوات سے ہوتے ہوئے قدیم ترین راستہ تھا جس کے ذریعے فاتحین باجوڑ سوات اور پھر ،ھنڈ ،کے مقام پر اباسین کو پار کرکے ھند کی طرف ،مارگلہ ،کے پہاڑیوں کے بیچ وبیچ بڑھتے تھے 326 ق م میں یونانی مؤرخین ، آریان ،اور بطلیموس ، سکندر یونانی کے لشکر کے حملے کے وقت ، موجودہ ،ناواگئ ، کے مقام پر ایک تاریخی تمدنی شہر ،اریگائن ،کا ذکر کرتے ہیں یہ تمدن بقول اولف کیرو اور ،گیٹ آف انڈیا ،کے مطابق باجوڑ ناواگئ سے کنڑ تک پھیلا ہوا تھا جسمیں موجودہ یوسفزئی قبیلہ آباد تھا جسکا ذکر یونانی مؤرخین ، اسپاسی ، کے نام سے کرتے ہیں بقول بھادر شاہ ظفر کاکا خیل کے یہ یوسفزئی قبیلہ ہی ہے ۔
 
  درہ خیبر کی قدامت تاریخی طور پر اتنی نہیں ہے جتنی قدامت باجوڑ کے راستے کی ہے بقولِ مؤرخین جب 1581 میں جلال الدین اکبر کے دور میں ٹیکسلا سے آگے موجودہ اٹک پل پر اباسین کے اوپر یہ راستہ دریافت ہوا تو باجوڑ کے بجائے فاتحین اس راستے کو مستقل طور پر استعمال کرنے لگے۔
 
1519 عیسوی کا زمانہ  جب بابر بادشاہ  باجوڑ کی طرف اپنی نظریں مرکوز کرتا ہے. باجوڑ پر ملک حیدر علی کی حُکمرانی ہے. مُغل لشکر باجوڑ کے مرکزی قلعے جو کہ پشت سے چند کلومیٹر آگے ،گبر چینہ ،کے آس پاس تھا کو حِصار میں لیتا ہے . 6 جنوری 1519 کو بابر بادشاہ لشکر کو حملہ کرنے کا حُکم دیتا ہے . جنگِ باجوڑ کے بارے میں بابر اپنی یاداشت ،تزک بابری،  لکھتے ہے   (چونکہ باجوڑی  اسلام کے باغی ہیں اسلئے  کسی رعایت کے مستحق نہیں) ,تین ہزار  باجوڑی کو موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے اور اُنکے کھوپڑیوں کا مینار بنایا جاتا ہے فتح نامے کے طور پر باجوڑ کے پشتونوں کے مشران کے سروں کو بدخشاں اور کابل بیجھ دیا جاتا ہے . باجوڑ کو فتح کرنے کے بعد یہ علاقہ سردار خواجہ کلاں کے تصرف میں دیا جاتا ہے اور بابر خود سوات ملاکنڈ کی راہ لیتا ہے  .اب اُنکی نگاہ یوسفزئی قبیلے کو زیر کرنے پر لگتی ہے. یوسفزئی بابر کی ڈر سے  مورا پہاڑی تھانہ ملاکنڈ میں پناہ لیتے ہیں. جبکہ بابر  اپنی مُغل لشکر کے ساتھ خزانہ خیموں کے مقام پر خیمہ زن. پھر بابر یوسفزئی قبائلی ملکان ملک شاہ منصور کی بیٹی بی بی مبارکہ کو اپنی دُلہن بنا کر مفاہمت کی راہ اپنا لیتا ہے.  19 جنوری 1519 کو  بی بی مبارکہ اور بابر کی شادی ہوتی ہے. اس شادی میں دُلہن کے وکیل کے فرائض طاؤس خانی ادا کرتا ہے ظہیر الدین بابر بابر بی بی مبارکہ کیلئے خار سے متصل ،ناوی ڈنڈ ،کے تاریخی مقام پر محل اور سوئمنگ پول ،بناتا ہے یہ تاریخی حوض کچھ دس سال پہلے سلفیت کے مسلک کے لوگوں نے اپنی مسلکی مدرسہ میں تبدیل کیا گیا ہے اور اس تاریخی مقام کو ختم کیا گیا ہے . بابر پھر واپسی کی راہ لیکر کابل جاتا ہے. تزکِ بابری میں بی بی مبارکہ کی اولاد کا کوئی ذکر نہیں. بی بی مبارکہ افغانی آغاچہ کے نام سے شہرت پاتی ہے. تاریخِ  سرحد کے مطابق  بی بی مبارکہ زندگی کے آخری ایام باجوڑ میں گُزارتی ہے  ایک قول کے مطابق بی بی مبارکہ بعد میں ہندوستان جاتی ہے جبکہ دوسرے قول کے مطابق وہ ،باجوڑ کے ،باد سمور ،میں مدفون ہے ۔
 
باجوڑ  موجودہ وقت میں دو سب ڈویژنز ،ناواگئ اور ، خار ، سب ڈویژن پر مشتمل ہے صدر مقام خار ہے جبکہ پورا ضلع سات تحصیلوں ،خار ، ناواگئ ، اتمانخیل ،سلارزو ،ماموند ،برنگ ، اور چمرکنڈ پر مشتمل ہے ۔ خار ،ناواگئ ،اور ،عنایت کلے باجوڑ کے بڑے تجارتی مراکز ہیں جنمیں بڑے پیمانے پر کاروباری سرگرمیاں ہوتی ہیں ماضی قریب میں ٹمبر افیون اور اسلحہ کا بڑے پیمانے پر کاروبار ہوتا تھا مگر 1990 کے بعد یہ کاروبار تقریباً ختم ہو چکے ہیں ۔
 
باجوڑ زمانہ ئے قدیم سے ھندوستان کی طرف ریشم کے تجارتی راستے کے بیچ پڑا تھا ہر طرف سے ہر رنگ و نسل کے لوگ تجارتی قافلوں کی ٹولیوں کی شکل میں  آکر باجوڑ میں پڑاؤ ڈالتے تھے۔
 
( باجوڑ میں آباد قبیلے )
 
باجوڑ میں دو بڑے قبائل آباد ہیں جنمیں ایک ،ترکانڑی قبیلہ ، جبکہ دوسرا ، اتمانخیل قبیلہ ، آباد ہے اتمانخیل قبیلہ کرلانڑی گروپ کیساتھ تعلق رکھتا ہے جبکہ اتمانخیل کا لہجہ بھی آج تک کرلانڑی گروپ کیطرح ہیں بولنے کا انداز اور ،حروف علت ، میں سے ،الف ، کو عموماً ،ی ، سے بدلتے ہیں جبکہ ترکانڑی قبیلہ ،سڑبنی ،گروپ سے تعلق رکھتا ہے باجوڑ کی ابادی کا 70 فیصد حصہ ترکانڑی قبیلہ پر مشتمل ہے جبکہ ڈیورنڈ لائن سمیت بڑے بڑے بازاروں اور کاشت کاری کیلئے موزوں اہمیت کی حامل سرزمین انکے زیرِ استعمال ہیں ساتھ ہی ہزاروں  سالہ ھند کی طرف قدیم تاریخی راستہ بھی اس قبیلے کے سرزمین پر گزرا تھا جو آج بھی شارع عام ہے باجوڑ کی بڑی سڑک جو ماضی میں قافلوں کی امدورفت کیلئے استعمال ہوتا تھا خار سے ہوتا ہوا ناواگئ سے بذریعہ مومند پشاور کی طرف بڑا شارع عام ہے لوئی  سم امبار کی سائیڈ پر بھی سڑک پشاور گیا ہے اسی طرح برنگ اور ارنگ کے راستے ضلع ملاکنڈ کی طرف سڑکیں گئ ہے بڑی شاہراہ خار سے منڈا ضلع دیر کی طرف گیاہے ۔
 
ترکانڑی قبیلہ کی بڑی شاخ ماموند قبیلہ موجودہ وقت میں باجوڑ کے تین تحصیلوں میں آباد ہے جنمیں لوئی ماموند ، واڑہ ماموند ، اور سلارزئی ، شامل ہیں سلارزی بھی ترکانڑی قبیلہ کے ذیلی شاخ کا بڑا قبیلہ ہے جو سلارزو ناواگئ چارمنگ اور چمرکنڈ تک پھیلا ہوا ہے سلارزو میں لرمدک برمدک لر سدین اور بر سدین کے ناموں پر آباد ہے ماموند اور سالارزئی قبیلہ شجروی تاریخ سے آپس میں چچا زاد بھائی ہیں ۔
 
حالیہ مردم شماری کے مطابق بشمول سلارزو کے اس قوم کی آبادی پانچ لاکھ اٹھاون ہزار افراد پر مشتمل ہے ۔
 
قبیلہ ماموند قوم ترکانڑی کی ایک ذیلی شاخ ہے ترکانڑی کے جد امجد کا نام ترک بتایا جاتا ہے جو قبیلہ یوسفزئی کے چچا زاد ہونے کی وجہ سے ،ترہ زوی ،یعنی چچازاد بھائی کے نام سے یاد ہے جبکہ بعض تاریخوں میں ترکانڑی کے بجایے ترکلانی لکھا گیا ہے جو کہ محاورتاً ترکلانی غلط ہے
 
اسی طرح پختونوں کےایک اور تاریخی قبیلے غلجی کا تلفظ غلط طور پر خلجی لکھا جاتا ہے جسکے اصلاح کیلئے خوشحال بابا کا یہ شعر بطور دلیل موجود ہے
 
بیا سلطان جلال الدین پہ سریر کیناست
 
چی داصل  نہ  غلجئ د  ولایت  وو
 
اسلئے وہ دوست جنکا تعلق قوم غلجی سے ہو وہ اس تاریخی قبیلہ کے نام کو اپنے نام کیساتھ خلجی کے بجائے غلجئ لکھا کریں لفظ خلجی درست نہیں بلکہ فارسی اور ایرانی کلچر کے اثرات کے غلبے کی نتیجے میں بگڑا ہے۔
 
اسی طرح تاریخی طور پر یوسفزئی الگ اور ترکانڑی الگ قبائیل نہیں ہے کئی ادوار سے انتھائی دوستانہ تعلقات کی وجہ سے بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں ترکانڑی اور یوسفزئی ایک دوسرے کے ساتھ قریبی قبیلوی قرابت  بھی رکھتے ہیں باجوڑ ترکانڑی قبیلہ کا ہزاروں سالہ مسکن ہیں وقتاً فوقتاً حالات کی وجہ سے ماضی بعید میں یہ یہاں سے نکلے ہیں آخری بار سولویں صدی کے پہلے دھائی میں 1508  کو یہ طویل مہاجرت کے بعد باجوڑ کو واپس ہوئے تھے   1480کےدور میں جب مرزا الغ بیگ نے یوسفزئی قوم کے سات سو مشران کے جرگے کو دھوکے سے کابل طلب کیا اور پھر خیانت کرکے بڑی بے رحمی سے ان مشران کو قتل کیا تو اسکے بعد بڑی بے سروسامانی کی حالت میں یوسفزئی پشاور کی طرف آئے جہاں پہلے موجود ,،دلہ زاک،،قبیلے نے انکو دوابہ کا علاقہ دیدیا۔
 
مگر بعد میں جب یوسفزئی قبیلہ اور دلہ زاک کے درمیان تعلقات بگڑ گئے اور نوبت جنگ تک گئی کیونکہ عام پختونوں میں سب سے زیادہ یوسفزئی اور ترکانڑی ہمیشہ جنگجو رھے ہیں ۔
 
باجوڑ میں سولویں صدی سے قبل ،خلیل ، دلہ زاک ، یوسفزئی ،اور ترکانڑی قبیلہ آباد رہا ہے۔
 
ترکانڑیوں کے حوالے سے تاریخ میں کہا جاتا ہے کہ ترکانڑی قبیلہ کی ایک پوری ریاست لغمان اور اسکے اطراف میں1508تک موجود تھی جبکہ اسوقت کےترکانڑی قبیلہ کا مشر ملک سرخابی ابن شمو باجوڑ کی لڑائی میں دلہ زاک کے مقابل یوسفزئی قبیلہ کا ساتھ دینے کیلئے اپنے لشکر سمیت آیا تھا اور میدان جنگ میں لڑائی کا پانسہ ترکانڑیوں کے حق میں پلٹایا تھا اور اسوقت کے دلہ زاک کے مشر ملک ھیبو کو ایک ترکانڑی پائندہ خان نے میدان میں مارا تھا اسکے بعد ملک سرخابی باجوڑ کا علاقہ یوسفزوں کو دیکر واپس لغمان چلاگیا مگر جب بعد میں لغمان میں انکے ریاست کے تعلقات کابل میں مغل سلطنت کے حکمرانوں کیساتھ خراب ہوگئے تو ترکانڑی قبیلہ نے وہاں سے کوچ کیا  اور قوم یوسفزی نے ترکانڑیوں کے احسانات کے بدلے باجوڑ  میں شیخ ملی کی تقسیم میں ترکانڑیوں کو دیدیا جبکہ اتمانخیل قوم جوکہ گومل اور ٹانک میں آباد تھے انھو نے بھی یوسفزوں کا ساتھ دیا تھا تو شیخ ملی نے اتمانخیل کو ارنگ برنگ اور امبار کا علاقہ دیدیا شیخ ملی کی یہ تقسیم 1530کے دور میں ہوئی تھی جبکہ بابر نےباجوڑ پرحملہ 1519میں کیا تھا جبکہ اسوقت یوسفزی یا ترکانڑی باجوڑ میں نہیں تھے شیخ ملی کی یہ تقسیم اراضی کا رواج باجوڑ میں بیسویں صدی کے نصف تک رائج تھا  ۔
 
جب سکندر یونانی 327 ق م میں باجوڑ ناواگئ کے علاقے میں وارد ہوا تو اسوقت ناواگئ کے علاقے میں ،اریگائن ،کے نام سے ایک بڑا تمدن آباد تھا ۔
 
اسپاسی قبیلہ کے  لوگوں کی  سکندر کے ساتھ  بڑی لڑائی ہوئی سکندر یونانی کو مساگا سے پہلے یہاں پہلی بار جنگ میں زخمی کیا گیا جب کہ ،اسپاسی ، قبیلہ کے کچھ دس ہزار افراد قید ہوئے تھے پختون مؤرخین بھادر شاہ ظفر کاکا خیل کے مطابق یہ ،اسپاسی ، قبیلہ موجودہ پشتونوں کا قبیلہ ،یوسفزئی ،ہے جنکے ساتھ لازماً انکے عزیز ترکانڑی بھی ہونگے جس طرح اب ایک دوسرے کے ساتھ قریب رھ رہے ہیں۔
 
ماموند قبیلہ  بقول تواریخ حافظ رحمت خانی اور خان روشن خان کے   سات ذیلی شاخوں پر مشتمل ہے( 1بڑوزئی)(2ککی زی یا کاکازی) (3خلوزئی)(4اوریازئی5سالارزئی)(6برم کازئی)(7 ،بدل زئی)
 
جبکہ ماموند قبیلہ کے جد امجد کا نام معلوم شجروی تاریخ کے حوالے سے محمود تھا محمود موسی کا بیٹا تھا موسیٰ کے سات بیٹوں سے مختلف ذیلی قبائل وجود میں آئے تھے جسمیں وقت گزرنے کیساتھ ترخیم ہوتارہا اور محمود سے ماموند بن گیا ماموند کا جد امجد کب گزرا ہے اس حوالے سے کوئی مستند تاریخ معلوم نہیں ۔
 
ککی زی قبیلہ پنجاب کے گجرات گرداس پوراور مختلف علاقوں میں یہاں سے جاکے آباد ہوا ہے یہ لوئی ماموند کے ذیلی شاخیں ہیں ککئ زئی کے الگ قبیلے کا تصور تاریخی طور پر غلط ہے جبکہ 1881میں جنگجو یانہ فطرت  ہونے کی وجہ سے متحدہ پنجاب کے انگریز سرکار نے اس قبیلے کوباغی  قرار دیا تھا ککی زی قبیلہ نے ملک کو بڑے بڑے نام جنکا تعلق سول سروس اور فوج سے ہے دئے ہیں جبکہ پاکستانی فوج کے چند برس قبل جائنٹ چیف أف سٹاف جنرل زبیر محمود حیات کا تعلق بھی اسی ککی زی قبیلے سے ہے جبکہ عاصمہ جہانگیر ، شعیب ملک ، گورنر جنرل محمد علی ،کا تعلق بھی اس قبیلے سے بتایا جاتا ہے۔
 
ترکانڑی اور اتمانخیل کیساتھ ،سادات ،  مومند ، صافی ، مغل ، وردگ ،  گجر ، کے قبائل کے لوگ بھی باجوڑ میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
 
باجوڑ کی سرزمین یہاں پر آباد قبائل میں  پہلی بار تقسیم شیخ ملی کے دور میں 1530 کے لگ بھگ ہوئی تھی پھر 1570 میں مورزادولی اور تیسری تقسیم چورک بابا نے سترویں صدی کے پہلے دھائی میں کی تھی باجوڑ کی سرزمین خان خوانین کی تاریخی طور پر ملکیت نہیں ہے بلکہ وہ بہت بعد میں زور زبردستی لوگوں کی زمینوں پر قابض ہوئے ہیں جب خانزم کا دور آیا اور لوگوں کو جنگوں کیلئے زمینوں کے بدلے زبردستی بھرتی کیا جانے لگا خوانین کے جد امجد ،برام بابا ، کو موضع چارمنگ کوٹکی میں ایک قبیلہ کے برابر زمین ملی تھی برام بابا کا قبر بھی کوٹکی میں واقع ہے۔
 
( باجوڑ کا جغرافیہ )
 
موجودہ باجوڑ کا جغرافیہ 1290 کلومیٹر پر مشتمل ہے 70 فیصد زمین بارانی ہے جبکہ تیس فیصد پہاڑی چشموں ندیوں اور کودھے گئے کنوؤں سے سیراب ہوتی ہیں جبکہ
 
2018 کے مردم شُماری کے مطابق باجوڑ کی ابادی 1093000 افراد پر مشتمل ہے جبکہ باجوڑ کے سیاسی رہنما حالیہ مردم شُماری کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں اور ضلع کی ابادی انکے مطابق بیس لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔
 
باجوڑ کے سلارزو ،ماموند ، اور اتمانخیل کے علاقے میں کئ ندیاں بہتی ہیں جنکا پانی ، جار خوڑ ، میں اکٹھا ہو کر دریائے پنجکوڑہ ، میں خزانہ سے آگے گرتا ہے جبکہ برنگ بوساق کے مقام پر ،دریائے سوات ،اور ،دریائے پنجکوڑہ ،اکھٹا ہوکر باجوڑ میں کچھ بیس میل کا فاصلہ طے کرتے ہوئے پھر اگے چارسدہ ابازو کی  طرف نکلتا ہے ۔
 
( باجوڑ کے پہاڑ )
 
  افغانستان کے سائیڈ پر بڑا پہاڑی سلسلہ ،ھندوکش ، واقع ہے جبکہ باجوڑ کے پہاڑی سلسلے کو ہندوکش کے ذیلی شاخ ، کوہ ھندوراج ، سے یاد کیا جاتا ہے اس پہاڑی سلسلے میں بڑی بڑی سربفلک پہاڑی چوٹیاں بھی ہیں جنمیں ، لیٹئ سر ، گاخی کنڈؤ ، ہاشم سر ، مٹاک سر ، مانڑے باباجی سر اور ،ملکہ ٹاپ ،شامل ہیں باجوڑ کے پہاڑی چوٹیوں کی عمومی بلندی سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ تک ہیں اسی طرح باجوڑ کے درمیان میں خار اور برنگ سے متصل تاریخی پہاڑ ،کیمور ، بھی ہیں جنکی اونچائی 8500 تک ہیں اس پہاڑ میں یونانیوں سے لیکر زرتشت اور بودھ مت تک تاریخی آثار رہے ہیں اور یہ پہاڑ ان تھذیبوں میں ایک مقدس چوٹی تھی جس کے جنگلات میں شکار بھی ممنوع تھا باجوڑ میں ہر جگہ پر ہر ایک پہاڑ اور اسکی چوٹی کو ایک مخصوص نام سے یاد کیا جاتا ہے جو اس پورے علاقے کی پہچان ہوتی ہے ۔
 
باجوڑ کے پہاڑوں پر بڑے پیمانے پر قدرتی جنگلات بھی ہیں مگر کچھ عرصہ سے ان جنگلات کو بڑی بیدردی سے تباہ کیا گیا ہے ان جنگلوں کو آباد کرنا اب حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ان پہاڑوں میں دیگر بہت سے نباتاتی وجنگلی پودوں کیساتھ دو کروڑ کے قریب جنگلی زیتون کے درخت اب بھی موجود ہیں جن میں ،قلمی زیتون ،کی پیوندکاری وقت کی ضرورت ہے۔
 
زراعت کو اگر دیکھا جاۓ تو باجوڑ کے 70فیصد آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں جبکہ باجوڑ میں کل قابل کاشت زمین 129036ہیکٹرز زرعی زمین ہے جنمیں 77062ہیکثرز زمیں کاشت کی جاتی ہیں  جبکہ باقی بنجر پڑی ہے 77062ہیکٹرزمیں میں صرف 15970ہیکٹرز زمیں کیلۓ پانی دستیاب ہیں جو اکثر قدرتی چشموں یا لوگوں کیطرف سے خود کھودی گئی کنووں سے سیراب ہوتی ہیں جبکہ باقی زمیں کی پیداوار کا دارومدار بارش پر ہوتا ہے باجوڑ کی زمین زرعی پیداوار کیلۓ آب و ہوا کے لحاظ سے انتہائی مناسب ہیں مگر بدقسمتی سے یہ سونا اگلنی والی زمین وقت کے ساتھ اپنی پیدوار کے لحاظ سے بانجھ ہورہی ہیں اگر باجوڑ کے زمیں سے وقت و ضرورت کے لحاظ سے پیداوار لینا ہیں تو درج ذیل امور پر حکومت کو توجہ دینا ہوگی 1.کسانوں کو جدید سائنسی زراعت سے روشناس کرانا ہوگا 2پیداوار بڑھانے کیلۓ  جدید سائنسی اصولوں پر بناۓ گۓ بیجوں کو کاشت کرنا ہوگا 3آلات زراعت کیلۓ جدید مشینگری کا استعمال کرنا ہوگا پانی کے کمی کو ختم کرکے حکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر بجلی پر انحصار کے بجاۓ سولر سسٹم پر توجہ دینا ہوگی 4باجوڑمیں زراعت کیلۓ قدرتی طور پر پہاڑوں میں ایسی بہت سی جگہیں موجود ہیں جن میں انتہائی کم لاگت سے بارانی ڈیمز بناۓ جاسکتے ہیں۔
 
چاول گندم مکئ کی فصلیں روایتی فصلیں ہیں جبکہ پشت کے چاول سارے باجوڑ میں شہرت رکھتے ہیں۔
 
باجوڑ کو دسمبر 1973 میں مستقل ایجنسی کا درجہ دیا گیا تھا اس سے پہلے وہ ملاکنڈ ایجنسی کا انتظامی حصہ تھا باجوڑ میں پاکستان کی عملداری سات اکتوبر 1961 میں آئی تھی جب برگیڈیئر تور گل کمانڈنٹ کرنل عبد الکریم اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ فضل الرحمان کی سربراہی میں مسلح دستے باجوڑ میں پرامن طور پر داخل ہوئے تھے ۔
 
اس سے پہلے 1960 میں جب پختونستان کی تحریک زوروں پر تھی افغانستان کی سائیڈ سے ایک بہت بڑا لشکر باجوڑ میں داخل ہوا تھا لشکر کی کوشش تھی کہ وہ خار پہنچ جائے اور اسوقت کے خار خان عبد السبحان خان کو بزور بازو سبکدوش کریں اور باجوڑ کو افغانستان کا حصہ بناکر اپنا ہم خیال بندے کو خانی کے منصب پر بٹھائے اس سے کچھ عرصہ قبل تک خار خان افغانستان کا وفادار تھا مگر پاکستان بننے کے بعد اس نے اپنی وفاداری پاکستان کے ساتھ جوڑ دی  ۔
 
لشکر کیساتھ اتفاقی طور پر ماموند اور ناواگئ کے ،مٹاک ، پہاڑ پر ستمبر کے مہینے میںجنگ چھڑ گئ جسمیں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ماموند کے لشکر کی قیادت ،ملک خانزادہ ،کرریے تھے ماموند کے علاقے میں 125 عام لوگ قتل ہوئے تھے جبکہ لشکر بھی مکمل طور پر تباہ ہوا تھا ،مٹاک ،کے مقام پر بھی تئیس ستمبر کو بہت بڑی جنگ ہوئی تھی جس کی قیادت دلاور خان آف چارمنگ نے کی تھی۔
 
( خانزم اور باجوڑ )
 
باجوڑ پر سولویں صدی سے لیکر بیسویں صدی تک ،خان ازم ،کا راج بھی رہا ہے یہ خانی ریاست ،براہیم ، نام کے ایک بڑے سے شروع ہوئی تھی جس کے بعد اس کے اولاد میں ایک شخص ،موزا خان ،نے 1586  اسکو  مغل زین خان کوکہ کے باجوڑ پر حملے کے بعد تسلسل بخشا انکی اولاد تین بڑے خاندانوں میں بٹی تھی جنمیں ،ناواگئ میں ،منصور خان ،کی اولاد کی خانی تھی خار پر ، الہ یار خان ،کی اولاد اور پشت پر ، مدد خان ، کی اولاد جبکہ اسمار پر بھی مدد خان کے خاندان کی حکمرانی تھی یہ چار چھوٹے چھوٹے خوانین تھے یہ خوانین صرف ،میر عالم ، اور ،صفدر خان ، کے وقت میں اکھٹے ہوئے تھے صفدر خان نے 1892 میں غازی عمرا خان کو شکست بھی دی تھی۔
 
یہ خانیاں ایک علاقائی مشرے کے طور پر کام کرتی تھی کوئی منظم ترقی یافتہ سٹیٹ کے درجے میں نہیں تھی اکثر وبیشتر لوگوں پر مظالم ڈھاتے تھے جس کے نتیجے میں انکے خلاف عوامی بغاوتیں ہوتی تھی یہ خوانین اپنی ذاتی جاگیروں کی توسیع کیلئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے تھے عام لوگ اسمیں تباہ ہوتے تھے اب یہ خوانین ختم ہوچکے ہیں اپنے علاقوں میں علاقائی مشران کی حدتک ہیں باجوڑ کے لوگ اب ان سے آزاد خودمختار ہیں اور اپنی زمینوں کے مالک ہیں ان خوانین کا کوئی ایسا اجتماعی قومی کارنامہ یا سوات کی والی کیطرح کوئی مثالی ترقی کا نمونہ نہیں ہے جو یاد رکھا جاسکے بلکہ ایک روایتی جاگیرداری کے تصور پر کھڑےفرسودہ قبائیلی سماج کی سوسائٹی کے نمائندے تھے ۔
 
( قدیم باجوڑ )
 
باجوڑ زمانہ ئے قدیم میں ایک بڑی ریاست رہی ہے اور اس کے حدود بہت دور دور تک پھیلے ہوئے تھے ولیم بارٹر کے بقول قدیم قدیم باجوڑ کا جغرافیہ 5000 مربع کیلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا ۔
 
قاضی عبد الحلیم اثر افغان کے بقول قدیم باجوڑ کے حدود مشرق میں جندول برول ، شمال میں افغان صوبہ کنڑ کے ،دانگام ،شڑتن ، مغرب میں کنڑ کا ، سورے تیگہ ، جبکہ جنوب میں موجودہ ضلع مومند کے ، نحقی کمالی کے پہاڑ اور امبار تک پھیلے ہوئے تھے وقتاً فوقتاً یہ حدود سمٹتے رہے آخری بار مشرق کی سائیڈ پر منڈا سے جندول تک کا علاقہ 1898 میں ناواگئ کے خان صفدر خان نے نواب آف دیر محمد شریف خان پر بیس ہزار روپے کے عوض بیچھ دیا تھا جبکہ مامد گٹ سے آگے کا علاقہ صفدر خان کے بیٹے ،مندالی خان ، نے 1912 میں  مومند کے لشکر سے جنگ میں ہار دیا تھا ۔
 
( باجوڑ کی وجہ تسمیہ )
 
وجوہ اسماء علمی طور پر ضروری نہیں ہے کہ وہ لازماً موجود ہو لیکن بہت سے ایسے علاقے موجود ہیں جنکی نام کی تسمیہ کے حوالے سے تاریخی وعلمی روایات موجود ہوتی ہیں ۔
 
انہی علاقوں میں سے ایک باجوڑ کا علاقہ بھی ہے قاضی عبد الحلیم اثر کے بقول باجوڑ کا نام کچھ چھ ہزار سال پرانا ہے جب مصر کے علاقے ،الباجور ، سے ایک قوم یہاں آکر آباد ہوئی مصر قاہرہ کے قریب ،باجور ، نام کا۔ علاقہ اب بھی موجود ہے اسی طرح سکندر یونانی کے دور میں باجوڑ کے علاقے ،ناواگئ ، میں اریگائن کے نام سے ایک بہت بڑی تمدن آباد تھی جنکے حدود بقول یونانی مؤرخین کے ،کنڑ ، تک پھیلے ہوئے تھے 1150 ع سے سولویں صدی تک باجوڑ سے لیکر سوات تک ایک سلطنت پھیلی ہوئی تھی جسکو تاریخ میں ،مملکت گبر ،کے نام سے یاد کیا جاتا ہے سولویں ہی صدی کے دوسرے عشرے میں جب ظہیر الدین بابر 1519 میں کابل سے ہوتا ہوا باجوڑ پہنچتا ہے تو وہ اپنی کتاب ،تزک بابری ، میں باجوڑ کو ، بجور ، لکھتا ہے ایک ہی دن میں بابر نے امیر حیدر علی کیساتھ لڑائی میں تین ہزار باجوڑیوں کو تہہ تیغ کیا تھا  ۔
 
عبد العلی غورغوشتی اپنی کتاب ، لویہ افغانیہ ، میں لکھتے ہیں کہ لفظ باجوڑ پشتو کا لفظ ہے قلندر مومند پشتو لغت دریاب اور بھادر شاہ ظفر کاکا خیل پشتو لغت ،ظفراللغات ، میں لکھتے ہیں کہ باجوڑ کا لفظ ،باج ، سے نکلا ہے ،باج ،پشتو کا لفظ ہے جسکا معنی ہے ،غلے کا ایک خاص ٹیکس یا مقدار ، ور ، باج ،کیساتھ لاحقہ ہے اس حساب سے باجوڑ کے لفظ کا معنی ہے وہ خطہ زمین جو اچھی طرح غلہ اگاتی ہو یعنی پیداواری زمین اس حوالے سے پشتو کی ایک کہاوت بھی ہے کہ ،باجوڑ نہ خورے نو بد پے ہم مہ وایہ ، یعنی باجوڑ میں اگر رہتے بھی نہ ہو تو اسکی مذمت نہ کرو ! میری رائے میں یہ رائے علمی اور تاریخی ماخذ کے طور پر زیادہ موزون ہیں کیونکہ باجوڑ سے مغل دور میں دس ہزار روپے کا ٹیکس بطورِ باج کے لیا جاتا تھا باجوڑ سوات تک مغل سلطنت میں 1858 تک ایک صوبہ تھا اسی طرح سکندر یونانی نے جب 326 ق م میں ،اریگائن ، پر حملہ کیا لڑائی کے بعد لوگوں سے بطورِ تاوان جنگ کے دو لاکھ بیل اور گائیں بطورِ باج کے لے گئے تھے ۔
 
باجوڑ کے نام کے حوالے سے ایک اور تشریح بھی کیجاتی ہے اور وہ یہ کہ لفظ اپنی اصل کے اعتبار سے سنسکرت ہے ، باج ،اصل میں علم لغت کے اعتبار سے ،بھاگ ، تھا سنسکرت میں بھاگ اچھی قسمت کو کہتے ہیں پھر ہندی میں یہ لفظ باج بنا اور باج سے باجوڑ بنا یعنی اچھی قسمت دار لوگوں کا وطن ۔
 
( باجوڑ کا لہجہ )
 
باجوڑ کے لوگ سو فیصد پشتون قبائل ہیں  باجوڑ کا ترکانڑی قبیلہ  پشتونوں کے نسلی گروپ میں ،سڑبنی ، کیساتھ ہے جبکہ سڑبنی میں یہ خخی خیل شاخ سے تعلق رکھتے ہیں جنمیں انکے ساتھ یوسفزئی ،گگیانی ، بھی شامل ہے جبکہ مومند کا تعلق غوریا خیل سے ہیں جنمیں انکے ساتھ ،یوسفزئی ، چمکنی ،داودزئی  ، وغیرہ بھی ہیں بقول حمید ماشوخیل !
 
چی داستا د نامے بوئی اخلی حمیدہ !
 
ولے بہ نہ وی خوش دماغہ غوری خخی ۔
 
پشتونوں کے دو بڑے لغتی لہجوں ، قندہاری ،اور ،پشاوری ، میں باجوڑ کے لوگ پشاوری لھجے میں پشتو بولتے ہیں پشاوری لہجے کو یوسفزئی لہجہ بھی کہا جاتا ہے مگر
 
ڈاکٹر نسیم خان اپنے ایم فیل کے مقالے میں لکھتے ہیں کہ اس لہجے کو یوسفزئی کی بجائے پشاوری لہجے کے نام سے پکارنا زیادہ موزون ہے  ۔
 
پشتو کے ماہرین لسانیات پشتو کے لہجوں کو دو لہجوں کیساتھ چار تک بتاتے ہیں جبکہ بقول صدیق اللہ رشتین کے پشتو کی مقامی بولیاں اور لہجوی تفردات ستر تک پہنچتی ہیں ۔
 
کسی زبان کے لہجوں کا تنوع اس زبان کی قدامت کی دلیل ہوتی ہے جبکہ لہجوی تنوع ایک ایسے بڑے جغرافیہ میں آباد قوم کی سکونت قدامت کی دلیل ہے جو ایک دوسرے سے بہت دور دور تک آباد ہوتےہیں اور انکے درمیان قربت اور میل جول کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں یہی بعد اور عدم اختلاط کسی بھی زبان میں لہجوی تنوع کا سبب بنتی ہیں جنکے پیچھے ،سیاسی ، معاشی ، ثقافتی ، اور ،اقتصادی ،عوامل بھی کارفرما ہوتی ہیں ۔
 
صدیق اللہ رشتین باجوڑ کے لھجے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ باجوڑ کے لوگ حرف ،غ ، کے بجائے ، گ، اور ، پشتو کے حرف ،څ ، استعمال زیادہ کرتے ہیں جیسے ، غوخہ ، کو ،گوخہ ، غاخ ،کو ،گاخ ، غوختنہ ،کو ،گوختنہ ،  جبکہ تختیدل ،کو ، څښتيدل ، کہتے ہیں ۔
 
باجوڑ کے لوگ محاورے میں تکیہ کلام کے طور پر لفظ ،جو ، چی کوم دے ، غوچے ،غولے ، وغیرہ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔
 
اسی طرح باجوڑ کے لوگ انتہائی سلیس نرم اور صاف پشتو بولتے ہیں یہاں کے باسی پشتو کے تمام حروف کو بڑی فصاحت سے ادا کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے پشتون علاقوں میں پشتو کے مخصوص حروف ،ښ ، څ ، ځ ، پ ، ڼ ، وغیرہ کو لوگ ٹھیک طرح سے ادا نہیں کرتے مگر باجوڑ کے لوگ پشتو کے مخصوص حروف کے ساتھ ساتھ ان تمام حروف کو بڑے کرخت انداز میں اپنے روزمرہ کے محاورات میں استمعال کرتے ہیں ۔
 
باجوڑ کی وجہ شہرت ماضی قریب میں ،شیر عالم میمونہ ،کی لوک داستان ہیں جو باجوڑ کے تاریخی علاقے ،ناواگئ ،میں 1920 کو وقوع پذیر ہوا تھا میں نے باجوڑ کے تاریخ پر لکھے گئے پہلی کتاب ،باجوڑ د تاریخ پہ رنڑا کے ،میں اس داستان سمیت باجوڑ کی تاریخ کے حوالے سے ہر رخ پر بڑی تفصیل سے بات کی ہے۔
 
باجوڑ کی تاریخ میں چند بڑے لوگ بھی گزرے ہیں ،جنمیں ،غازی پیغمبر ، غازی عمرا خان ، بابڑے مولا صیب ، مولانا عبد المجید افغانی ، مولانا فضل محمود مخفی ، ملک محمد عمر خان اتمانخیل ،  ملک محمد آمین ماموند ، میر عالم خان ،صفدر خان ، غازی محمد گل جان ،وغیرہ۔
 
موجودہ وقت میں باجوڑ کے چند بڑے قومی وسیاسی مشران ،  شیخ جھانزادہ ، سید اخونزادہ چٹان ، گل افضل خان ،شہاب الدین خان ،  مولانا گل داد خان ، مولانا عبد الرشید ، ملک آیاز ، ملک سلطان زیب ،  لالی شاہ پختون یار ،  پروفیسر گل بادشاہ ، وغیرہ شامل ہیں ،
 
( باجوڑ کے تاریخی و سیاحتی مقامات )
 
پختونخوا کے دیگر علاقوں میں جس طرح ہزاروں سالہ قدیم دور تھذیبوں نے جنم لیا ہے باجوڑ کا علاقہ بھی ان تمام تھذیبوں کے روایات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
 
چند سال پہلے باجوڑ کے علاقے میں بدھ مت دور کے سترہ تاریخی خطوط ایک ڈبیہ میں ملے تھے جن پر اسوقت کے مذھبی ھدایات درج ہیں بدھ مت کے ساتھ زرتشت اور سکندر کے وقت کے بعد کے آثار بھی ملے ہیں اسی طرح ،ارنگ ،میں واقع غازی پیغمبر کا مزار ہے جس کے بارے میں قاضی عبد الحلیم اثر کہتے ہیں کہ یہ چھ ہزار سال پہلے پیغمبر گذرا تھا ان کا نام ،مہتر نور لام ،تھا حضرت نوح کا چچا تھا انکا ایک بھائی لغمان میں دفن ہے ۔
 
سیری سر
 
باجوڑ ایجنسی کو قدرت نے بے پناه حسن بخشا ھے اور پھر بھار کے موسم میں یه حسن پورے جوبن پر ھوتا ھےارنگ اور برنگ کا علاقه بھی قدرتی حسن کے رعنائیوں میں کسی سے کم نھیں باجوڑ گلونہ بھی اسی قدرتی حسن اور رعنائی کی وجہ سے کہا گیا ہے جبکہ قاضی عبد الحلیم اثر کے مطابق ،اوستا ،میں باجوڑ کے ،راغہ ،کے حوالے سے ذکر ہے کہ قدرت نے اسکو حسن بخشا ہے  پختونوں کا ایک اور تاریخی قبیله اتمانخیل کئ صدیوں سے باجوڑ میں آباد ھے جو پندرهویں صدی میں یوسفزے قبیلے کے تاریخی مشر ملک احمد کی قیادت میں باجوڑ کے علاقے میں  دله زاک قبیلے کے خلاف لڑے تھے اور انکو یھاں سے نکال باھر کیا تھاارنگ کے علاقے میں غازی بابا کے نام سے ایک بھت بڑا قبر ھے جنکے بارے میں تاریخ فرشته وغیره کا کھنا ھے که یه پیغمبر کا قبر ھے  قبر کی اتنا بڑا ھونے کی عقلی وجه یه ھے که پچھلے وقتوں میں عموما لوگ بزرگوں کی قبروں کو رواجا بڑا بنا تے تھے جسطرح شام اور عراق وغیره میں بھی لوگ ایسا ھی کرتے تھے ترقی کے حوالے سے یه علاقه کافی پسمانده ھے اور دیگر کئ حوالوں سے اگر یه علاقه نظر انداز ھے تو دوسری طرف بدقسمتی سے اس علاقے سے کسی بڑے مخلص سیاسی شخصیت اور ایم این اے کا نه ھونا ھے سیری سر تک ورلڈ بینک کے تعاون سے اچھی سڑک بنای گئ ھے مگر بساق کے مقام پر ملاکنڈ کے ساتھ رابطه پل پر چھ سال سے کام مکمل نھیں ھورھا جسپر گورنر پختونخوا کے دوره باجوڑ کے موقعه پر جرگه ھال میں اس علاقے لوگوں نے احتجاج بھی کیا  مگر ان تمام مسائل کے ساتھ یه علاقه باجوڑ کے حسین وادیوں میں سے ھے۔
 
گبر چینہ ضلع باجوڑ میں کئی ایسے سیاحتی مقامات ہیں جس کو اگر تھوڑی سے توجہ دی گئی تو پوری ملک کی سیاح  مری، سوات اور کاغان وغیرہ کیطرح باجوڑ کا رخ کرینگے ۔۔۔
 
تحصیل سلارزئی میں موجود  گبر چینہ بھی ان سیاحتی مقامات میں  سے ایک ہیں، جو نہ صرف اپنی ایک تاریخی حثیت رکھتا ہیں بلکہ  یہ علاقہ قدرتی حسن سے بھی مالا مال ہیں۔
 
ٹرابل ڈیسٹریکٹ باجوڑ کے تحصیل سلارزئی علاقہ دندوکئی قدرتی حسن سے مالا مال ایک بہترین سیاحتی مقام ہیں...
 
پہاڑروں کی دامن میں موجود ،تندوکہ  ابشار ، اس وادی کی حسن کو دوبالا کرتی ہیں,
 
سیر کیلئے یہ گبر چینہ سے زیادہ موزوں ہیں, لیکن ابھی تک اس کی وہ ایکسپوجر نہیں ہوئی جو ہونی چاہیئے تھی۔
 
اسی طرح ماموند کی وادی میں بیشمار سیاحتی مقامات ہیں ناواگئ میں ،مٹاک سر ،ناواپاس ،  چمرکنڈ میں واقع برصغیر کے آزادی کے نامور غازی ،مولنا نجم الدین المعروف اڈے بھیصاحب ، کی تاریخی مسجد ومرکز چارمنگ میں بابڑے مولا صیب کا مزار خار میں ظہیر الدین بابر کی بیوی ،بی بی مبارکہ ،کا حوض جو کہ اب ایک مسلکی مدرسہ کی طرف سے مسمار کیا گیا ہے تاریخی وسیاحتی مقامات ہیں۔
 
قاضی عبد الحلیم اثر نے باجوڑ سلارزو میں ایک بزرگ، چورک بابا، کے قبر کا تذکرہ کرتے ہیں۔
 
کہا جاتا ھے کہ مغل شہنشاہ ، سلطان جلال الدین اکبر، جو 1542کو پیدا ہوئے تھے اور 1605میں وفات پاگۓ اکبر بادشاہ سلطنت مغلیہ کا ایک عظیم بادشاہ گزرا ہے 1595 میں ،اکبر،شدید بیمار تھا  کہ انکی ملاقات ایک سید بزرگ سے ہوئی انکے دعا سے اکبر بادشاہ صحتیاب ہوا ۔
 
اس بزرگ کا نام سید ابراہیم بخاری تھا  اور اسوقت کے ایک روحانی پیشوا ،سالار رومی اجمیری کے مرید تھے اور سلسلہ قادریہ میں ان سے بیعت کی تھی۔
 
صحتیابی کے بعد اکبر بادشاہ نے ،سید ابراہیم،کو تانبے کے تختے پر ایک بہت بڑی جاگیر جسمیں پورا باجوڑ کا علاقہ شامل تھا بطورِ ھدیہ، یا پختونوں کے عرف میں بطورِ ،سیرئی ، ایک فرمان پر لکھ کے دی۔ مرزا کامران اور ہمایوں کے دور سے باجوڑ مغل سلطنت کا ایک مقبوضہ علاقہ تھا۔
 
جبکہ ان سے پہلے 1519کے دور میں ،شہنشاہ بابر، بھی باجوڑ پر حملہ آور ہوا تھا۔
 
یہ جاگیر کی فرمان ،1004ھجری اور  1595عیسوی کو لکھی گئی تھی اور اس فرمان میں شامل جاگیر کے حدود  یہ تھے۔
 
پورا باجوڑ بشمول جنوب کی طرف مومند میں واقع ،کمالی نحقی،کے پہاڑ ۔ جندول انبار تک۔
 
شمال کی طرف براول اور  کنڑ کے علاقے ،نرنگ، ھرنوئ، ،شڑتن، اسمار،شونکڑئی دریائے کنڑ تک۔
 
مشرق کی طرف دریائے،پنجکوڑہ،  تک کے علاقے اسمیں شامل تھے اور تاریخی طور پر یہ باجوڑ کے ریاست کے حدود بھی رھے ہیں۔
 
سید ابراہیم کا ایک بیٹا تھا جسکا نام ،اسماعیل،تھا اور سید علی ترمذی المعروف پیربابا کی ایک بیٹی کی شادی اسماعیل سے ہوئی تھی۔
 
پیر بابا کے اس بیٹی سے جو ایک لڑکا پیدا ہوا تھا  جسکا نام،  سید نور محمد،تھا اور جو تاریخ میں چورک بابا کے نام سے مشھور ھے۔
 
آپکا قبر سلارزو میں شمال کی طرف پشت سے تقریبا 8کلومیٹر کے فاصلے پر ،چورک بابا گاؤں،میں ھے۔ یہاں پر جس قبرستان میں اپ دفن ھے وہاں ، جنگلی زیتون، کا جنگل اور ایک پورا گاؤں موجود ھے وہاں کے مشران کے بقول  اس گاؤں میں موجود لوگ ،چورک بابا، کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور انکے اولاد کو یہاں کے ،باسی، پاچاگان، کے نام سے پکارتے ہیں ۔پختونوں میں پاچاگان کو سادات ،ستانہ دار، سمجھا جاتا ھیں۔
 
آپکے دادا سیدابراہیم کا مزار ،چارمنگ کوٹکی، میں ھے۔ جبکہ اسماعیل کا قبر ماموند میں واقع ھے جسکی تحقیق دوست  شاہ ولی خان ماموند کرینگے۔
 
اپنے مشران کی وفات کے بعد اکبر کی طرف سے دۓ گۓ جاگیر کا مالک ،چورک بابا،تھا اور مغل بادشاہ ،شاہ جہاں، کے دور میں چورک بابا نے یہ جاگیر اسوقت موجود اقوام وقبائل  مختلف شخصیات اور مشران میں تقسیم کی تھی ۔
 
جبکہ اپنی ضرورت کیلئے،چورک بابا، نے ،اسمار کنڑ،  امان کوٹ،  ،شینگر گل، چینارگو، گٹکے  اور ،چورک ، سلارزو میں کچھ زمیں رکھی تھی۔
 
تاریخی طور پر جب یوسفزئی قوم نے باجوڑ کا علاقہ قوم،دلہ زاک،سے چھینا تو بعد میں ،ملک احمد ،اور ،شیخ ملی، کی وفات کے بعد پختونوں کے نامور باچا ،گجو خان ،کے دور میں ترکانڑی قوم، لغمان میں جب ،مغل، سلطنت کے ساتھ انکے  تعلقات بگڑ گۓ  تو اسکے بعد اپنی ریاست کھونے کے بعد باجوڑ آتے ہیں ۔
 
اور غالباً سن 1550عیسوی میں ، گجو خان، نے ترکانڑی قبیلہ کی یوسفزئی قبیلہ کے ساتھ سابقہ اچھے تعلقات اور احسانات کے بدلے ،باجوڑ، کے علاقے میں ترکانڑی قبیلہ کو رھائش کی اجازت دی۔
 
ابراہیم بخاری نے مغل دور میں باجوڑ پر گورنر رھنے والے ،سخی عرب خان، کے بیٹے سرور خان کو ، خار ،کا علاقہ دیا تھا۔ شمشیر خان، کو ناواگئ کا علاقہ دیا تھا۔ پشت کا علاقہ ماموت خیل اور قوم شومہ خیل کو دیا تھا۔ سرور خان بعد میں باجوڑ کے حکمران بھی رھے تھے۔
 
میاں عمر ترکانڑئی چمکنی ، خزینتہ الاسرار میں لکھتا ھے کہ ،سرور خان ،کے بعد انکا بیٹا،حیات خان، باجوڑ کا حکمران تھا اور یہ 1683میں شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کا دور تھا۔
 
حیات خان کے بعد انکا بیٹا ،نظام الدین باجوڑ کا حکمران بنا۔
 
قاضی عبد الحلیم اثر نے سخی عرب خان کے خاندان میں ایک اور نامور حکمران ،میر عالم خان، 1575میں گزرا ھے  کا ذکر کیا ہےجنکی حکمرانی باجوڑ اور دوابہ پر تھی ۔
 
اور اب بھی انکے دور کے زمینوں کے اسناد کچھ لوگوں کیساتھ ھے مگر درحقیقت میر عالم خان سخی عرب خان کے گھرانے سے نہیں بلکہ ابراہیم خیل کے ،الہ یار ،خان ،کے گھرانے سے تھا اثر صاحب سے اسکے تعین میں غلطی ہوئی ہے۔
 
گرمی میں باجوڑ عنایت کلی میں رھتا تھا اور سردیوں میں،مٹہ مغل خیل شب قدر، میں۔
 
چورک بابا جو  باجوڑ کے معلوم تاریخ کا ایک بڑا کردار ھے آج ہم سے گمنام ھے   باجوڑ کے بہت کم لوگ انکے بارے میں جانتے ہونگے شائد انکے قبر کی طرف بہت کم لوگ گۓ ہونگے ۔
 
انکی قبر مقامی لوگوں نے اپنے طور پر تو پختہ کرکے محفوظ کی ھے مگر اس تاریخی قبر کی حفاظت کیلئے مزید بھی کام کرنا ھے ۔
 
چورک بابا کے زیارت کیلئے لوگ ناسمجھی کی وجہ سے اپنے حاجات ومرادیں مانگنے کیلئے تو آتے ہیں جگہ جگہ اپنے مرادوں کیلئے کپڑے لٹکاتے ہیں۔
 
مگر اس عظیم شخصیت کے حقیقی کردار سے لوگ ناواقف ہیں جس نے اپنی زندگی میں ساری جاگیریں لوگوں میں مفت تقسیم کرکے اس نے درحقیقت اسلام کے سرمایہ کے تقسیم کے فلسفے  کو عملی طور پر اختیار کیا تھا۔ کیونکہ بقول عبیداللہ سندھی اسلام نے ،کمیونزم،سے بہت پہلے سرمایہ کی تقسیم کا نظریہ پیش کیا تھا  اسلام  سرمایہ اور جاگیروں کے چند ھاتھوں میں ارتکاز کے خلاف ایک ،سرمایہ شکن ،مذھب ھے مگر یہ باتیں اپکو روایتی مذہبی سکالرز نہیں بتائنگے۔
 
مآخذ
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}|refs=انڈین ہارڈر لینڈ / مصنف ہولڈچ ص 38/1901
قدیم ھند /مصنف ونسنٹ اے اسمتھ اردو ترجمہ مولوی جمیل الرحمٰن ص/81۔
پختانه د تاریخ په رڼا کے /مصنف بهادر شاه ظفر کاکاخیل /ص146 /2004۔
دی پھٹان /مصنف اولف کیرو اردو ترجمہ مولانا عبد القادر ص 98 /2008
حیات افغانی / مصنف محمد حیات خان ترجمہ فرہاد ظریفی ص 134 /2008
لویہ افغانیہ / مصنف عبد العلی غورغوشتی ص16 /2015
باجوڑ د تاریخ پہ رنڑا کے / مصنف مولانا خانزیب ص 30 / 2020
باجوڑ / مصنف صفدر خان سلارزئ / ص54 / 1965
باجوڑ مخطوطہ/ قاضی عبد الحلیم اثر/ ص10 .
ملاکنڈ د تاریخ پہ رنڑا کے / مصنف محمد نواز خان /ص22/2011
دباجوڑ بزرگان/ مصنف محمد عالم پریشان / ص27/2012
مختصر تاریخ باجوڑ / مصنف مولوی محمد گلاب /ص 115 / 1984
ملاکنڈ فیلڈ فورس / مصنف ونسٹن چرچل ترجمہ شہباز محمد /ص146/ 2009
تزک بابری / مصنف ظہیر الدین بابر ترجمہ رشید اختر ندوی /ص147 /2018
یوسفزئی قوم کی سرگزشت / مصنف خان روشن خان / ص 378 / 1986۔۔۔}}
 
{{قبائلی علاقہ جات}}