"حدیث" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.5
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 2:
 
{{مجموعہ احادیث}}
حدیث کا لفظ تحدیث سے اسم ہے، تحدیث کے معنی ہیں:خبر دینا ہو الاسم من التحدیث، و ہو الاخبار۔<ref>[کلیات ابی البقاء:152]</ref> [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] کی بعثت سے قبل عرب حدیث بمعنی اخبار (خبردینے) کے معنی میں استعمال کرتے تھے، مثلاً وہ اپنے مشہور ایام کو احادیث سے تعبیر کرتے تھے، اسی لیے مشہور [[الفراء نحوی]] کا کہنا ہے کہ حدیث کی جمع احدوثہ اور احدوثہ کی جمع احادیث ہے، <ref>[قواعد التحدیث لجمال الدین القاسمی{{رح}} ص:61]</ref> لفظ حدیث کے مادہ کو جیسے بھی تبدیل کریں اس میں خبر دینے کا مفہوم ضرور موجود ہو گا، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے وجعلناہم احادیث، <ref>[سورۃ المؤمنون:44]</ref> فجعلناہم احادیث، <ref>[سورۃ السبا:19]</ref> اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابھا، <ref>[سورۃ الزمر:23]</ref> فلیاتو حدیث مثلہ، <ref>[سورۃ الطور:34]</ref>
 
بعض علما کے نزدیک لفظ حدیث میں جدت کامفہوم پایا جاتاہے، اس طرح حدیث قدیم کی ضد ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں:- المراد بالحدیث فی عرف الشرع مایضاف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلموسلم، ،وکانہوکانہ ارید بہ مقابلۃ القرآن لانہ قدیم<ref>[تدریب الراوی للسیوطی {{رح}} ج:1/ص:42]</ref> شرعی اصطلاح میں حدیث سے وہ اقوال واعمال مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں، گویا حدیث کا لفظ قرآن کے مقابلہ میں بولاجاتاہے،اسبولاجاتاہے، اس لیے کہ قرآن قدیم ہے اور حدیث اس کے مقابلہ میں جدید ہے، اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ اقوال واعمال اور تقریر(تصویب) مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں المراد بالحدیث فی عرف الشارع مایضاف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم<ref>[ تدریب الراوی ج:1/ص:42]</ref> الحدیث النبوی ھو عند الاطلاق ینصرف الی ما حدث بہ عنہ بعد النبوۃ من قولہ وفعلہ واقرارہ<ref>[مجوع الفتاوی ج:18/706]</ref> اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے اقوال کو حدیث کا نام دیا ہے،آپہے، آپ ہی نے یہ اصطلاح مقرر فرمائی، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ابوہریرہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کی شفاعت کی سعادت کس کو نصیب ہوگی آپ نے جوابًا فرمایا ابو ہریرہ سے پہلے کو ئی شخص مجھ سے اس حدیث کے بارے میں سوال نہیں کرے گا کیونکہ وہ طلب حدیث کے بہت حریص ہیں۔<ref>[ صحیح البخاری 8/148]</ref><ref>[بحوالہ، التحدیث فی علوم الحدیث،،صالحدیث، ،ص:140،مؤلف:پروفیسر ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر]</ref>
 
== حدیث کی شرعی حیثیت ==
 
<big>کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے، ان دونوں کے علاوہ تیسری اور چوتھی اصل وبنیاد، اجماع امت اور قیاس ہے اور ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، شمس الائمہؒ کہتے ہیں، شریعت کی تین حجتیں (بنیادیں) ہیں، کتاب اللہ، سنت اور اجماع، چوتھی بنیاد قیاس ہے، جو ان تینوں سے نکلی ہوئی ہیں؛ اگرغور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ ان تمام اصولوں کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا اور آیات کی تلاوت کیکی، ،جوبطریقۂجوبطریقۂ تواتر ہم تک پہنچا ہے (اصول السرخسی:1/279) اور اجماع امت اور قیاس بھی آپﷺ کے ارشاد ہی کی وجہ سے معتبر ہیں توجب دین کی بنیاد رسول اللہﷺکی ذاتِ گرامی ٹھہری تو پھر عبادت واطاعت کے معاملہ میں حدیث وقرآن میں فرق کرنا بے بنیاد ہے؛ کیونکہ یہ دونوں اطاعت میں برابر ہیں؛ البتہ حجت دین کے بارے میں دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم قطعی کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسول ہے، حجت قطعی ہے؛ البتہ رسول سے ہم تک پہونچنے میں جودرمیانی وسائط ہیں، ان کی وجہ سے احادیث کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں ہے، جس درجہ کی قطعیت قرآن کو حاصل ہے۔
 
== حدیثِ رسول قرآن کی نظر میں ==
سطر 75:
“میں جانتا ہوں کہ تم صرف ایک پتھر ہو جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اور اگر میں نے رسول ﷺ کو تجھے چومتے ہوئے نہیں دیکھا ہوتا، تو میں کبھی تجھے نہ چومتا۔"
علی(ابن طالب) نے کہا: "یہ(پتھر) نفع بھی پہنچا سکتا ہے اورنقصان بھی۔
" عمر(ابن خطاب) نے پوچھا: “وہ کیسے"،
اس پر علی نے جواب دیا: “کتاب اللہ کی رو سے ۔سے۔
" عمرنے کہا: “پھر آپ مجھے بھی یہ بات قران میں دکھائیے۔
" علی نے کہا کہ اللہ قران میں فرماتا ہے کہ جب اُس نے حضرت آدم کی صلب سے اولاد کو پیدا کیا توانہیں اپنی جانوں پر گواہ کیا اور سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اس کے جواب میں سب نے اقرار کیا کہ تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اورہمارا پروردگار ہے۔ پس اللہ نے اس اقرار کو لکھ لیا۔ اور اس پتھر کے دو لباور دو آنکھیں تھیں، چنانچہ اللہ کے حکم سے اس نے اپنا منہ کھولا اور یہ صحیفہ اس میں رکھ دیا اور اس سے کہا کہ میرے عبادت گذاروں کو جو حج پوراکرنے آئیں، اُن کو اس بات کی گواہی دینا۔
سطر 93:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو "کتاب اللہ" اور "میری سنّت" کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو "کتاب اللہ" اور "میری-سنّت" کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔
 
[(1) <font face="Al Qalam Quran Majeed">سنن الدارقطني:كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 392٦3926(442٧4427) ؛
# الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛
# ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ۔.۔اللَّهُ۔۔۔ رقم الحديث: 589(٦٠٦6٠6
# الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ: الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:2٧٧277(29٠
 
5) الكامل في ضعفاء الرجال » من ابتدا أساميهم صاد » من اسمہ صالح؛ رقم الحديث: 4284
 
٦6) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث:
311]</font>
=== دلیل فقہ ===
1) کھڑے ہوکر پیشاب کرنا[صحیح بخاری، کتاب الوضو، حدیث#221] اور کھڑے ہوکر پانی پینا [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » باب الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: 5213(5٦155615)] حدیث سے ثابت ہے، مگر یہ سنّت (عادت) نہ تھی، بلکہ سنّت (عادت) بیٹھکر پیشاب کرنا [صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ، رقم الحديث: 14٧147(149)] اور بیٹھکر پانی پینا تھی، کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا۔[صحيح مسلم » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » بَاب كَرَاهِيَةِ الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: 3٧٧83778(2٠25)]
 
2) وضو میں ہے عضوو کو (حدیث میں) ایک (1) بار دھونا بھی ثابت ہے[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً، رقم الحديث: 155(15٧157)]، دو (2) بار دھونا بھی ثابت ہے[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، رقم الحديث: 15٦156(158)] اور تین (3) بار دھونا بھی ثابت ہے [صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، رقم الحديث: 15٧157(159)] مگر عادت 3،3 بار دھونا "عملی-متواتر" سنّت ہے۔
 
3) (پاک) نعلین(جوتے) پہن-کر نماز "پڑھتے-رہنا"(متواتر-حدیث سے ) ثابت ہے [ صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الصَّلَاةِ فِي النِّعَالِ، رقم الحديث: 3٧٦376(38٦386)] ایک بھی حدیث نعلین اتارکر پڑھنے کی بخاری اور مسلم میں نہیں، مگر "عملی-تواتر" اور "تعامل/اجماع_امت" سے نعلین پھن کر نماز پڑھنا عادت(سنّت) نہیں۔
عمروبن شعیب بسند والد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوتوں سمیت اور (بغیر جوتوں کے ) ننگے پاؤں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (1) مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابٌ شَتَّى مِنَ الصَّلاةِ » مَنْ رَخَّصَ فِي الصَّلَاةِ فِي النَّعْلَيْنِ،رقمالنَّعْلَيْنِ، رقم الحديث: ٧٦847684(٧9357935)، (2)سنن ابن ماجہ » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب الصَّلَاةِ فِي النِّعَالِ، رقم الحديث: 1٠28(1٠38)، (3)سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الصَّلَاةِ فِي النَّعْلِ، رقم الحديث: 55٦556(٦53653)]
 
4) نماز میں گردن پر بچی (نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیٹی زینب کی بیٹی "امامہ بنت ابی العاص"=نواسي_رسول) کو اٹھانا حدیث [صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي » بَاب إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً عَلَى عُنُقِهِعُنُقِهِ۔۔۔، ۔.۔،رقمرقم الحديث: 489(51٦516)] میں فعل-ماضی-استمراری کے الفاظ "كان يصلي" (یعنی ایسے نماز پڑتے تھے) سے ثابت ہے، مگر یہ عادت (سنّت) نہ تھی، سو صحابہ(رضی اللہ عنہم) اور جماعت_مومنین کی بھی عادت(سنّت) نہ بنی۔
 
5) وضو کے بعد یا حالت_روزہ میں بیوی سے بوس و کنار کرنا ثابت ہے مگر عادت (سنّت) نہ تھی، لیکن وضو میں کلی کرنا یا روزہ کے لیے سحری کھانا آپ کی سنّت (عادت_مبارکہ) تھی جس کو سنّت کہا جائے گا۔
 
{{اس|حدیث|سنت}}
اہل حدیث کے مطالعے کے دوران میں اس عام غلط فہمی کو دور کرنا لازم ہے جس کے تحت حدیث کو [[سنت]] کو ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے۔ فی الحقیقت ؛ حدیث اور سنت دونوں ایک دوسرے سے ناصرف لسانی اعتبار سے بلکہ [[شریعت]] میں اپنے استعمال کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔<ref>Defference between Hadith and Sunnah [http://www.monthly-renaissance.com/issue/query.aspx?id=523 آن لائن مضمون]</ref> کہا جاتا ہے کہ اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ سنت کی تشکیل میں احادیث اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن سنت صرف احادیث سے نہیں بنی ہوتی ہے؛ سنت میں رسول{{ص}} کی زندگی کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو الفاظ کی شکل میں نہیں مثال کے طور پر [[تقریر (سنت)|تقریر]] اور یا کسی عبادت کا طریقہ، تقریر کو محدثین حدیث میں بھی شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنت میں قرآن اور حدیث میں بیان کردہ ہدایات پر عمل کرنے کا نمونہ پایا جاتا ہے؛ یہ طریقہ یا عملی نمونہ محمد{{ص}} کے زمانے میں موجود اس عہد کی نسل سے اجتماعی طور پر اگلی اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کی اس اجتماعی منتقلی کی وجہ سے اس میں نقص یا ضعف آجانے کا امکان حدیث کی نسبت کم ہوتا ہے کیونکہ حدیث ایک راوی سے دوسرے راوی تک انفرادی طور پر منتقل ہوتی ہے اور اس منتقلی کے دوران میں اس راوی کی حیثیت، اعتبار اور اس کی یاداشت کا دخل ہوتا ہے۔<br />
{| style="margin-top:1.8em; border-top:1px solid #bfb6a3; border-right:1px solid #bfb6a3; border-bottom:1px solid #bfb6a3; border-left:1px solid #bfb6a3;" cellpadding="5" cellspacing="0"
|-
سطر 132:
|style="width:500px;"|<ul><ol start="1">
<li> سنت کا لفظ سنن سے بنا ہے
<li> سنت کے معنی ؛ راہ، طریقہ اور رواج
<li> سنت، الفاظ کا عملی نمونہ
<li> سنت، معمولات زندگی کی صورت منتقل ہوتی ہے
سطر 144:
سنت کا نمونہ پیغمر{{ص}} نے پیش کیا اور پھر اس کے بعد [[صحابہ|اصحاب]] اکرام اور [[تابعین]] سے ہوتا ہوا موجودہ زمانے تک پہنچا ہے اسی ليے اس میں امت کے اجتماعی درست طریقۂ کار یا راہ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عموما{{دوزبر}} اس کے ساتھ الجماعت کا لفظ لگا کر سنت و الجماع بھی کہا جاتا ہے۔<ref>The Sunnah; Britannica [http://www.britannica.com/EBchecked/topic/295507/Islam/69166/The-Sunnah آن لائن مضمون]</ref>
 
حدیث اور سنت کا فرق مفہوم کے لحاظ سے اسلامی شریعت میں پایا جاتا ہے لیکن اس فرق سے کسی ایک کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ دونوں ہی اپنی جگہ مسلم ہیں اور حدیث کے بغیر [[سنت]] اور [[شریعت]] کا علم، دونوں سے کوئی ایک تشکیل نہیں پاسکتا۔ [[مفتی عبدالجلیل]] کے مطابق ؛ حدیث کو رد کرنے کا رحجان مغرب کی استعماریت سے مقابل آنے کے ليے اس سے متصادم اسلامی نظریات کو رد کرنے والے جدت پسندوں کی جانب سے بیسویں صدی کے اوائل میں بھی سامنے آیا۔،،آیا۔، ،<ref>A Historical Background of the Refutation of the Hadith and the Authenticity of its Compilation by Mufti Abdul-Jaleel Qaasimi [http://www.beautifulislam.net/hadith/refuting_hadith.htm آن لائن مضمون]</ref> ان ہی میں سے ایک شخص [[عبداللہ چکرالوی]] نے احادیث کو یکسر رد کر کہ [[اہل القرآن]] کی بنیاد ڈالی<ref name=OIS>Oxford Islamic studies online [http://www.oxfordislamicstudies.com/article/opr/t125/e72 آن لائن مضمون]</ref> دوسری جانب اہل حدیث بھی انتہا پر پہنچے ہوئے ہیں؛ ان کے نزدیک حدیث کی متابعت، قرآن شریف کی آیات کے اتباع کے برابر ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے خود رسول{{ص}} (کی دین سے متعلق) ہر بات کو اللہ کی اجازت سے ہونے کی ضمانت دی ہے اور اس سلسلے میں سورت النجم کی ابتدائی 15 آیات بکثرت حوالے کے طور پیش کی جاتی ہیں<ref name="najam">آسان قرآن نامی ایک [http://www.asanquran.com/Interface/Forms/Quran.aspx موقع آن لائن] {{wayback|url=http://www.asanquran.com/Interface/Forms/Quran.aspx |date=20130115023431 }}</ref> اس سورت کے حوالے میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ سورت میں اللہ تعالٰی{{ا}} کا اشارہ، محمد{{ص}} کے اس قول کی جانب ہے جو قرآن کی صورت نازل ہو رہا تھا۔ سنت اور حدیث کا لفظ امامیان اور وفقہا مختلف مفہوم رکھتا ہے؛ حدیث، سنت کا حصہ ہوتی ہے لیکن سنت صرف حدیث نہیں ہوتی۔ امام شافعی{{رح}} نے کہا
{{اقتباس|میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو تمام <u>سنت</u> اور <u>احادیث</u> کو جانتا ہو۔ اگر احادیث کا علم رکھنے والے علما کے علم کو یکجا کیا جائے تو صرف اسی حالت میں تمام سنت آشکار ہوسکتی ہے۔ چونکہ ماہرین حدیث دنیا کے ہر گوشے میں پھیلے ہیں اس وجہ سے بہت سی احادیث ایسی ہوں گی جن تک ایک عالم حدیث کی رسائی نہ ہوگی لیکن اگر ایک عالم ان سے نا آشنا ہے تو دوسروں کو ان کا علم ہوگا<ref>The Importance of The Ahl al-sunnah by Harun Yahya [http://www.harunyahya.com/books/faith/al_sunnah/al_sunnah04.php آن لائن کتاب]</ref>}}