"سورہ یوسف" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.6.5) (روبالہ جمع: kk:Жүсіп сүресі
م r2.7.3) (روبالہ جمع: uz:Yusuf surasi; cosmetic changes
سطر 21:
[[قرآن مجید]] کی 12 ویں سورت جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت [[محمد {{درود}}]] کی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی۔
 
== زمانۂ نزول و سبب{{زیر}} نزول ==
 
اس سورت کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی زمانۂ قیام [[مکہ]] کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کررہے تھے کہ حضرت [[محمد {{درود}}]] کو قتل کردیں یا جلاوطن کریں یا قید کردیں۔ اس زمانے میں کفار مکہ نے (غالبا{{دوزبر}} یہودیوں کے اشارے پر) نبی{{درود}} کا امتحان لینے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ [[بنی اسرائیل]] کے [[مصر]] جانے کا کیا سبب ہوا۔ چونکہ اہل [[عرب]] اس قصے سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں روایات میں نہ پایا جاتا تھا اور خود نبی{{درود}} کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا تھا، اس لیے انہیں توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا اس وقت ٹال مٹول کرکے کسی [[یہودی]] سے پوچھنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائے گا۔ لیکن اس امتحان میں انہیں الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ تعالی{{ا}} نے صرف یہی نہیں کیا کہ فورا{{دوزبر}} اسی وقت [[یوسف علیہ السلام]] کا پورا قصہ آپ کی زبان پر جاری کردیا، بلکہ مزید برآں اس قصے کو [[قریش]] کے اس معاملے پر چسپاں بھی کردیا جو وہ [[برادران یوسف]] کی طرح آنحضرت{{درود}} کے ساتھ کررہے تھے۔
 
== مقاصد نزول ==
 
اس طرح یہ قصہ دو اہم مقاصد کے لیے نازل فرمایا گیا:
سطر 56:
</blockquote>
 
== مباحث و مسائل ==
یہ دو پہلو تو اس سورت میں مقصدی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس قصے کو بھی قرآن مجید قصہ گوئی و تاریخ نگاری کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے قاعدے کے مطابق وہ اسے اپنی اصل دعوت کی تبلیغ میں استعمال کرتا ہے۔
وہ اس پوری داستان میں یہ بات نمایاں کرکے دکھاتا ہے کہ [[حضرت ابراہیم]]، [[حضرت اسحاق]]، [[حضرت یعقوب]] اور [[حضرت یوسف]] علیہما السلام کا دین وہی تھا جو محمد{{درود}} کا ہے اور اسی چیز کی طرف وہ بھی دعوت دیتے تھے جس کی طرح آج محمد{{درود}} دے رہے ہیں۔
سطر 64:
مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرد مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کرسکتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھیے، 17 برس کی عمر، تن تنہا، بے سر و سامان، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بنا کر بیچے گئے ہیں۔ تاریخ کے اس دور میں غلاموں کی جو حیثیت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگاکر انہیں جیل بھیج دیا گیا جس کی میعاد سزا بھی کوئی نہ تھی۔ اس حالت تک گرادیے جانے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اٹھتے ہیں اور بالآخر پورے ملک کو مسخر کر لیتے ہیں۔
 
== تاریخی و جغرافیائی حالات ==
 
اس قصے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصرا{{دوزبر}} اس کے متعلق کچھ تاریخی و جغرافیائی معلومات بھی ناظرین کے پیش نظر رہیں:
سطر 101:
[[nl:Soera Jozef]]
[[ce:Сура Юсуп]]
[[uz:Yusuf surasi]]
[[pt:Yusuf (sura)]]
[[ru:Сура Йусуф]]