"بلوچی زبان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 37:
 
== بلوچی ادب ==
بلوچی ادب کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتاجا سکتا ہے۔ پہلا رند دور جو [[1430ء]] سے [[1600ء]] تک کے عرصے پر محیط ہے۔ دوسرا خوانین کا دور جس کی مدت 1600ء سے [[1850ء]] تک ہے۔ تیسرا دور برطانوی دور جو 1850ء سے شروع ہوا اور اگست [[1947ء]] میں تمام ہوا۔ چوتھا ہمعصر دور جس کا آغاز قیام پاکستان سے ہوا۔
=== کلاسیکی دور ===
رند یا کلاسیکی دور میں بلوچ شعرا نے چار بیت طرز کی رزمیہ داستانیں اور مشہور بلوچ رومان نظم کیے۔ اُس دور کے شعرا میں سردار اعظم میرچاکرخانمیر رند،مہناز،چاکر خان رند، مہناز، گراناز، میر بیو رغ رند، سردارگوہرامسردار گوہرام لاشاری، ، شے مریدو ھانی ، میر شہدادرند،شہداد رند، میر جمال رند اور شے مبارک قابل ذکر ہیں۔ خوانین [[خان قلات|خوانین قلات]] کے دور میں خان عبد اللہ خان، جیئند رند، جام درک ڈومبکی، محمد خان گیشکوری، مٹھا خان مری ، اور حیدربالاچانی شعرا نے شہرت پائی۔ برطانوی دور نے ملا فاضل رند ،ملاقاسم رند، مست توکلی ، رحم علی مری،پلیہ کھوسہ ،محمد علی چگھا،رحمنچگھا، رحمن چاکرانی ،جوانسال بگٹی، بہرام جکرانی، حضور بخش جتوئی ،ملاعبدالنبی رند، ملاعزت پنجگوری، نور محمد بمپُشتی، ملاابراہیم سربازی، ملا بہرام سربازی اور اسماعیل پل آبادی جیسے شعرا اور ادباادباء پیدا پیداہوئے۔ہوئے۔
 
=== قیامِ پاکستان کے بعد ===
قیام [[پاکستان]] کے بعد بلوچی ادب کی ترقی و فروغ کے لیے موثرمؤثر کوششیں کی گئیں۔ 1949ء میں بلوچستان رائٹر ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1951ء میں بلوچ دیوان کی تشکیل ہوئی اور بلوچی زبان کاایککا ایک ماہوار مجلہ ’’اومان‘‘ کا اجرا ہوا۔ کچھ عرصے بعد ماہنامہ بلوچی جاری کیا گیا۔ اس کے فوری بعد ماہنامہ اولس اور ہفت روزہ ’’دیر‘‘ شائع ہوئے۔ 1959ء میں بلوچی اکادمی قائم ہوئی جس کے زیر اہتمام متعدد بلوچی کلاسیکی کتب شائع ہو چکی ہیں۔
 
ہمعصر بلوچی شعرا میں [[سید ظہور شاہ ہاشمی|سیّد ظہور شاہ ہاشمی]]، عطا شاد، مراد ساحر، میر گل خان نصیر، مومن بزدار، اسحاق شمیم، ملک محمد طوقی، صدیق آزاد ،اکبر بارکزئی، مراد آوارانی، میر عبدالقیوم بلوچ، میر مٹھا خان اور ملک محمد پناہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ نئی پود میں امان اللہ گچکی، نعمت اللہ گچکی، عبد الحکیم بلوچ، عبد الغفار ندیم ،اللہ بخش بزدار،قاضى مبارک ،سيدخان،سيد بزدار،عيدالغفورخان بزدار، عبدالغفور لغارى، عزیز سنگھور اور صورت خان مری نے بلوچی ادب کے ناقدین کو کافی متاثر کیا ہے۔
 
== چند حقائق ==
# اس زبان کی تقریباً لگ بھگ 20 ملین بولنے والے ہیں، انہیں دنیا کے سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر بولی جانے والے 60 زبانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
# ایک وسیع علاقے میں بولی جانے والی زبان ہے۔ جنوب مشرقی ایران، جنوب مغربی پاکستان اور جنوب مشرقی افغانستان (جو ایک وسیع خطے جسے "بلوچستان" کے نام سے جانا جاتا ہے) کے علاوہ عرب، ترکمانستان، افریقہ اور دیگر علاقوں کے بلوچ تارکین وطن کےکی زبان ہیں۔ اور بصورت دیگر سنٹرل[[وسط ایشیا|وسطی ایشیا]] کو مڈل[[مشرق وسطی|مشرقِ ایسٹوسطیٰ]] سے ملانے والی زبان۔
# اس زبان (بلوچی) کی ایک تاریخی پس منظر ہے، اس کی [[قدیم فارسی،فارسی]]، سنسکرت،[[سنسکرت]]، [[اوستائی زبان|اوستائی]] اور پارتھین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
# ان کے بے شمار لہجے ہیں، مگر پھر بھی یہ سب (لہجے) ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں (ہر بلوچ انہیں باآسانی سمجھ سکتا ہے)۔
# ان کی بڑے پیمانے کی ادبی سرمایہ اور کلاسیک (اساطیر) ہیں، جن میں سے زیادہ ابھی تک (دیگر زبانوں میں) ترجمہ نہیں ہوئے ہیں۔
# [[اردو]] بولنے والوں کے لیے انکا سیکھنا نسبتاً آسان ہے، اگر قواعد کو دیکھا جائے تو بلوچی ایک آسان زبان ہے۔ ان کی "[[اسم]]" کی کوئی جنس نہیں ہوتی، "اسم" کو تعریف کی ضرورت نہیں اور تقریباً تمام تر فعل با قاعدگی سے ماضی میں جاکےجا کے کھڑے ہوتے ہیں۔
# بلوچی [[ہند یورپی زبانیں|ہند یورپی زبانوں]] کے خاندان کی [[ہند ایرانی زبانیں|ہند ایرانی شاخ]] کا حصہ ہے۔ لہذا، اگر کچھ بلوچی سیکھی جائے تو یقینی طور پر یہ فارسی، کوردیفارسی اور ہندی [[کردی|کوردی]] سیکھنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ہو گی۔
# اس زبان کو سیکھنا آپ کو ان سارے لوگوں سے ایک اور الگ سا درجہ دیتا ہے جن کو دیگر ایرانی زبانوں کی کم تعلیم حاصل ہے۔