"غالب کے خطوط" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ - انگریزی سے بین الوکی روابط درآمد کیے |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1:
''''مرزا اسد اللہ خان غالب'''' کی شخصیت کو کون نہیں جانتا ۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت [[اردو]] کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیت شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان ذد خلائق ہیں۔ اور بحیثیت نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی ، انشاءپردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی۔ انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین ۔ یہی نمونہ نثر آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے ۔ انہوں نے اپنے خطوط کے ذریعہ سے اردو نثر میں ایک نئے موڑ کا اضافہ کیا۔ اور آنے والے مصنفین کو طرز تحریر میں سلاست روانی اور برجستگی سکھائی ۔ البتہ مرزا غالب کے مخصوص اسلوب کو آج تک ان کی طرح کوئی نہ نبھا سکا۔ غالب کے خطوط آج بھی ندرت کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔
غالب نے فرسودہ روایات کو ٹھوکر مار کر وہ جدتیں پیدا کیں جنہوں نے اردو [[خطو ط نویسی]] کو فرسودہ راستے سے ہٹا کر فنی معراج پر پہنچا دیا۔ غالب کے خطوط میں تین بڑی خصوصیات پائی جاتی ہیں اول یہ کہ انہوں پرتکلف خطوط نویسی کے مقابلے میں بے تکلف خطوط نویسی شروع کی۔ دوسری یہ کہ انہوں نے خطوط نویسی میں اسٹائل اور طریق اظہار کے مختلف راستے پیدا کئے ۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے خطو ط نویسی کو ادب بنا دیا۔ اُن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ”محمد شاہی روشوں “ کو ترک کرکے خطوط نویسی میں بے تکلفی کو رواج دیا اور القاب و آداب و تکلفا ت کے تمام لوازمات کو ختم کر ڈالا۔
'''== جدید نثر کی ابتدا =='''
شبلی نے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ، ” اردو انشاء پردازی کا آج جو انداز ہے اور جس کے مجدد اور امام [[سرسید]] مرحوم تھے اس کا سنگ بنیاد دراصل مرزا غالب نے رکھا تھا۔“
غالب کی شخصیت ایک شدید انفرادیت کی مالک تھی۔ وہ گھسے پٹے راستے پر چلنے والا مسافر نہیں تھا ۔ وہ اپنی طبیعت کے اعتبار سے راہرو بھی تھا اور رہبر بھی غالب کی فطرت میں اختراع و ایجاد کی رگ بڑی قوی تھی۔ غالب نے جس جدید نثر کی بنیاد رکھی اسی پر سرسید اور اُن کے رفقاءنے ایک جدید اور قابل دید عمارت کھڑی کردی۔ سادگی ، سلاست ،بے تکلفی و بے ساختگی ، گنجلک اورمغلق انداز بیان کی بجائے سادا مدعا نگاری یہ تمام محاسن جو جدید نثر کا طرہ امتیاز ہیں مکاتیب غالب میں نمایاں نظر آتی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب جدید اردو نثر کے رہنما ہیں ۔ آج نثر کی کوئی ایسی صنف موجود نہیں جس کے لئے مکاتیب غالب میں طرز ادا کی رہنمائی نہ ملتی ہو۔ بقول اکرم شیخ، ” غالب نے [[دہلی]] کی زبان کو تحریر ی جامہ پہنایا اور اس میں اپنی ظرافت اور موثر بیان سے وہ گلکاریاں کیں کہ اردو معلی خا ص و عام کو پسند آئی اور اردو نثر کے لئے ایک طرز تحریر قائم ہوگیا۔ جس کی پیروی دوسروں کے لئے لازم تھی۔
== خطوط او ر غالب کی شخصیت ==
غالب نے اپنے مکاتیب میں اپنے بارے میں اتنا کچھ لکھ دیا ہے اور اس انداز میں لکھا ہے کہ اگر اس مواد کو سلیقے سے ترتیب دیا جائے تو اس سے غالب کی ایک آپ بیتی تیار ہوجاتی ہے۔ اس آب بیتی میں جیتا جاگتا غالب اپنے غموں اور خوشیوں ، اپنی آرزوں اور خواہشوں ، اپنی محرومیوں اور شکستوں اپنی احتیاجوں اور ضرورتوں ، اپنی شوخیوں ، اپنی بذلہ سنجیوں کے ساتھ زندگی سے ہر صورت نباہ کرتا ہوا ملے گا۔
سطر 56:
== ڈراما ==
غالب نے اپنے خطوط میں مکالمہ نگاری کا جو اسلوب اپنایا ہے اس میں ڈرامائیت کی وہ
غالب: بھئی محمد علی بیگ، لوہاروں کی سواریاں روانہ ہو گئیں؟
سطر 76:
== آپ بیتی ==
غالب [[آپ بیتی]] یا سر گزشت نہیں لکھ رہے تھے ۔ صرف احباب کے نام خط لکھ رہے تھے لیکن ان خطوط میں انہوں نے اپنی زندگی کے متعلق اتنا کچھ لکھ دیا ہے اور اس انداز سے لکھ دیا ہے کہ اگر اس مواد کو سلیقے سے ترتیب دیا جائے تو اس سے غالب کی ایک آپ بیتی تیار ہو جاتی ہے۔ اردو ادب میں آپ بیتی کو بعد میں اپنایا گیا لیکن مکاتیب ِ غالب میں ان کی خود نوشت سوانح نے اردو میں آپ بیتی کے لئے زمین ہموار کر دی تھی۔
== مختصر کہانی ==
|