"وحی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 103:
 
اس کے علاوہ نزول وحی کی اور بھی صورتیں ہیں اختصاراً یہاں چند صورتوں کو ذکر کیا گیا ہے۔
 
==تدریجی نزول==
 
سارے قرآن کریم کو ایک دفعہ نازل کرنے کے بجائے تھوڑا تھوڑا کرکے کیوں نازل کیا گیا؟یہ سوال خود مشرکین عرب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا ،باری تعالی نے اس سوال کا جواب خود ان الفاظ میں دیا ہے:
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاًo وَلَایَأْتُونَکَ بِمَثَلٍ إِلَّاجِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِیْراً"(الفرقان: ۳۲،۳۳)
اور یہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ: ان پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ میں کیوں نازل نہیں کردیا گیا ؟ (اے پیغمبر!)ہم نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہارا دل مضبوط رکھیں اور ہم نے اسے ٹھہرٹھہرکرپڑھوایاہے اورجب کبھی یہ لوگ تمہارے پاس کوئی انوکھی بات لے کر آتے ہیں ،ہم تمہیں (اس کا)ٹھیک ٹھیک جواب اور زیادہ وضاحت کے ساتھ عطا کردیتے ہیں۔
امام رازی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں قرآن کریم کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں یہاں ان کا خلاصہ سمجھ لینا کافی ہے، فرماتے ہیں کہ:
۱۔ اگر پورا قرآن ایک دفعہ نازل ہوجاتا تو تمام احکام کی پابندی فوراً لازم ہوجاتی اور یہ اس حکیمانہ تدریج کے خلاف ہوتا جو شریعت محمدی میں ملحوظ رہی ہے ۔
۲۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم کی طرف سے ہر روز نئی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی تھیں، جبرئیل علیہ السلام کا بار بار قرآن کریم لے کر آنا ان اذیتوں کے مقابلے کو آسان بنادیتا تھا اور آپ کی تقویت قلب کا سبب بنتا تھا۔
۳۔قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ لوگوں کے سوالات کے جوابات اور مختلف واقعات سے متعلق ہے اس لیے ان آیتوں کا نزول اسی وقت مناسب تھا جس وقت وہ سوالات کئے گئے ،یا وہ واقعات پیش آئے؛ اس سے مسلمانوں کی بصیرت بھی بڑھتی تھی اور قرآن کریم کی غیبی خبریں بیان کرنے سے اس کی حقانیت اورزیادہ آشکار ہوجاتی تھی۔
(تفسیر کبیر: ۶/۳۳۶)
 
== حوالہ جات ==
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/وحی»