"سورہ دہر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ جمع: jv:Surat Al Insaan
م Bot: Fixing redirects
سطر 19:
}}
 
[[قرآن|قرآن مجید]] کی 76 ویں [[سورۃ|سورت]] جس کے 2 رکوع میں 31 آیات ہیں۔
== نام ==
 
سطر 26:
== زمانۂ نزول ==
 
اکثر [[مفسرین قرآن|مفسرین]] اس کو [[مکی سورت|مکی]] قرار دیتے ہیں۔ [[علامہ زمخشری]]، [[امام رازی]]، [[قاضی بیضاوی]]، [[علامہ نظام الدین نیسا بوری]]، [[ابن کثیر|حافظ ابن کثیر]] اور دوسرے بہت سے مفسرین نے اسے مکی ہی لکھا ہے، اور [[علامہ آلوسی]] کہتے ہیں کہ یہی جمہور کا قول ہے لیکن بعض دوسرے مفسرین نے پوری سورت کو [[مدنی سورت|مدنی]] کہا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ سورت ہے تو مکی مگر آیات 8 تا 10 [[مدینہ منورہ|مدینے]] میں نازل ہوئی ہیں۔
 
جہاں تک اس سورت کے مضامین اور اندازِ بیاں کا تعلق ہے، وہ مدنی سورتوں کے مضامین اور اندازِ بیاں سے بہت مختلف ہے، بلکہ اس پر غور کرنے سے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف مکی ہے بلکہ مکہ معظمہ کے بھی اس دور میں نازل ہوئی ہے جو [[المدثر|سورۂ مدثر]] کی ابتدائی سات آیات کے بعد شروع ہوا تھا۔ رہیں آیات 8 تا 10 تو وہ پوری سورت کے سلسلۂ بیان میں اس طرح پیوست ہیں کہ سیاق و سباق کے ساتھ کوئی ان کو پڑھے تو ہرگز یہ محسوس نہیں کر سکتا کہ ان سے پہلے اور بعد کا مضمون تو 15 – 16 سال پہلے نازل ہوا تھا اور اس کے کئی سال بعد نازل ہونے والی یہ تین آیتیں یہاں لا کر ثبت کر دی گئیں۔
 
دراصل جس بنا پر اس سورت کے، یا اس کی بعض آیات کے مدنی ہونے کا خیال پیدا ہوا ہے وہ ایک روایت ہے جو عطاء نے [[ابن عباس]] {{رض مذ}} سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتب حضرات [[حسن ابن علی|حسن]] و [[حسین ابن علی|حسین]] رضی اللہ عنہما بیمار ہو گئے۔ رسول اللہ {{درود}} اور بہت سے [[صحابی|صحابہ]] ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ بعض صحابہ نے [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] {{رض مذ}} کو مشورہ دیا کہ آپ دونوں بچوں کی شفا کے لیے [[اللہ|اللہ تعالٰی]] سے کوئی نذر مانیں۔ چنانچہ حضرت علی {{رض مذ}}، [[فاطمۃ الزھراء|حضرت فاطمہ]] {{رض مو}} اور ان کی خادمہ [[فضہ]] {{رض مو}} نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے دونوں بچوں کو شفا عطا فرما دی تو یہ سب شکرانے کے طور پر تین دن کے [[روزہ|روزے]] رکھیں گے۔ اللہ کا فضل ہوا کہ دونوں تندرست ہو گئے اور تینوں صاحبوں نے نذر کے روزے رکھنے شروع کر دیے۔ حضرت علی {{رض مذ}} کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ انہوں نے تین صاع جو خرید لیے (اور ایک روایت میں ہے کہ محنت مزدوری کر کے حاصل کیے) پہلا روزہ کھول کر جب کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک مسکین نے کھانا مانگا۔ گھر والوں نے سارا کھانا اسے دے دیا اور خود پانی پی کر سو رہے۔ دوسرے دن پھر [[افطار]] کے بعد کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک یتیم آگیا اور اس نے سوال کیا۔ اس روز بھی سارا کھانا انہوں نے اس کو دے دیا اور پانی پی کر سو رہے۔ تیسرے دن روزہ کھول کر ابھی کھانے کو بیٹھے ہی تھے کہ ایک قیدی نے آ کر وہی سوال کر دیا اور اس روز کا بھی پورا کھانا اسے دے دیا گیا۔ چوتھے روز حضرت علی {{رض مذ}} دونوں بچوں کو لیے ہوئے رسول اللہ {{درود}} کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے دیکھا کہ بھوک کی شدت سے تینوں باپ بیٹوں کا برا حال ہو رہا ہے۔ آپ اٹھ کر اُن کے ساتھ حضرت فاطمہ {{رض مو}} کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہ بھی ایک کونے میں بھوک سے نڈھال پڑی ہیں۔ یہ حال دیکھ کر حضور {{درود}} پر رقت طاری ہو گئی۔ اتنے میں جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ لیجیے، اللہ تعالٰی نے آپ کے [[اہل بیت]] کے معاملہ میں آپ کو مبارک باد دی ہے۔ حضور {{درود}} نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب میں یہ پوری سورت آپ کو پڑھ کر سنائی ([[ابن مہران]] کی روایت میں ہے کہ آیت ‘‘ان الابرار یشربون‘‘ سے لے کر آخر تک آیات سنائیں گئیں مگر [[ابن مردویہ]] نے ابن عباس سے جو روایت نقل کی ہے اس میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ آیت ‘‘و یطعمون الطعام‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس قصے کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔) یہ پورا قصہ [[علی بن احمد الواحدی]] نے اپنی [[تفسیر البسیط]] میں بیان کیا ہے اور غالباً اسی سے زمخشری، رازی اور نیسا بوری وغیرہم نے اسے نقل کیا ہے۔
 
یہ روایت اول تو سند کے لحاظ سے نہایت کمزور ہے۔ پھر درایت کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسکین، ایک یتیم اور ایک قیدی اگر آ کر کھانا مانگتا ہے تو گھر کے پانچوں افراد کا پورا کھانا اس کو دے دینے کی کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے؟ ایک آدمی کا کھانا اس کو دے کر گھر کے پانچ افراد چار آدمیوں کے کھانے پر اکتفا کر سکتے تھے۔ پھر یہ بھی باور کرنا مشکل ہے کہ دو بچے جو ابھی ابھی بیماری سے اٹھے تھے اور کمزوری کی حالت میں تھے، انہیں بھی تین دن بھوکا رکھنے کو حضرت علی اور حضرت فاطمہ جیسی کامل فہمِ دین رکھنے والی ہستیوں نے نیکی کا کام سمجھا ہوگا۔ اس کے علاوہ قیدیوں کے معاملے میں یہ طریقہ اسلامی حکومت کے دور میں کبھی نہیں رہا کہ انہیں بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ وہ اگر حکومت کی قید میں ہوتے تو حکومت ان کی خوراک اور لباس کا انتظام کرتی تھی، اور کسی شخص کے سپرد کیے جاتے تو وہ شخص انہیں کھانے پلانے کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ اس لیے مدینہ طیبہ میں یہ بات ممکن نہ تھی کہ کوئی قیدی بھیک مانگنے کے لیے نکلتا۔ تاہم ان تمام نقلی اور عقلی کمزوریوں کو نظر انداز کر کے اگر اس قصے کو بالکل صحیح ہی مان لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ اس سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جب آل محمد {{درود}} سے اس نیک عمل کا صدور ہوا تو جبریل علیہ السلام نے آ کر حضور {{درود}} کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالٰی کے ہاں آپ کے اہل بیت کا یہ فعل بہت مقبول ہوا ہے، کیونکہ انہوں نے ٹھیک وہی پسندیدہ کام کیا ہے جس کی تعریف اللہ تعالٰی نے سورۂ دہر کی ان آیات میں فرمائی ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیات نازل بھی اسی موقع پر ہوئی تھیں۔ شان نزول کے بارے میں بہت سی روایات کا حال یہی ہے کہ کسی آیت کے متعلق جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں موقع پر نازل ہوئی تھی تو دراصل اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی تھی بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ آیت اس واقعہ پر ٹھیک چسپاں ہوتی ہے۔ امام سیوطی نے اتقان میں حافظ [[امام ابن تیمیہ|ابن تیمیہ]] کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
{{اقتباس|راوی جب یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت فلاں معاملہ میں نازل ہوئی ہے تو کبھی اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہی معاملہ اس کے نزول کا سبب ہے، اور کبھی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے اگرچہ وہ اس کے نزول کا سبب نہ ہو}}
آگے چل کر وہ [[امام بدر الدین زرکشی]] کا قول ان کی کتاب [[البرہان فی علوم القرآن]] سے نقل کرتے ہیں کہ
سطر 41:
اس سورت کا موضوع انسان کو دنیا میں اس کی حقیقی حیثیت سے آگاہ کرنا اور یہ بتانا ہے کہ اگر وہ اپنی اس حیثیت کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر شکر کا رویہ اختیار کرے تو اس کا انجام کیا ہوگا اور کفر کی راہ چلے تو کس انجام سے وہ دوچار ہوگا۔ قرآن کی بڑی سورتوں میں تو یہ مضمون بڑی تفصیل کےساتھ بیان کیا گیا ہے، لیکن ابتدائی مکی دور کی سورتوں کا یہ خاص اندازِ بیان ہے کہ جو باتیں بعد کے دور میں مفصل ارشاد ہوئی ہیں، وہی اس دور میں بڑے مختصر مگر انتہائی موثر طریقے سے ذہن نشین کرائی گئی ہیں اور ایسے چھوٹے چھوٹے خوبصورت فقرے استعمال کیے گئے ہیں جو سننے والوں کی زبان پر خود بخود چڑھ جائیں۔
 
اس میں سب سے پہلے انسان کو یاد دلایا گيا ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب وہ کچھ نہ تھا، پھر ایک مخلوط نطفے سے اس کی ایسی حقیر سے ابتدا کی گئی کہ اس کی ماں تک کو خبر نہ تھی کہ اس کے وجود کی بنا پر پڑ گئی ہے اور کوئی اس خورد بینی وجود کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کوئی انسان ہے جو آگے چل کر اس زمین پر اشرف المخلوقات بننے والا ہے۔ اس کے بعد انسان کو خبردار کیا گیا ہے کہ تیری تخلیق اس طرح کر کے تجھے یہ کچھ ہم نے اس لیے بنایا ہے کہ ہم [[دُنیا|دنیا]] میں رکھ کر تیرا امتحان لینا چاہتے ہیں۔ اسی لیے دوسری مخلوقات کے برعکس تجھے ہوش گوش رکھنے والا بنایا گیا ہے اور تیرے سامنے شکر اور کفر کے دونوں راستے کھول کر رکھ دی گئے تاکہ یہاں کام کرنے کا جو وقت تجھے دیا گیا ہے اس میں تو دکھا دے کہ اس امتحان سے شاکر بن کر نکلا ہے یا کافر بندہ بن کر۔
 
پھر صرف ایک آیت میں دو ٹوک طریقے سے بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ اس امتحان سے کافر بن کر نکلیں گے انہیں آخرت میں کیا انجام دیکھنا ہوگا۔