"سورہ النجم" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.7.1) (روبالہ جمع: kk:Нәжм сүресі |
م Bot: Fixing redirects |
||
سطر 17:
}}
[[قرآن|قرآن مجید]] کی 53 ویں سورت جس میں 3 رکوع اور 62 آیات ہیں۔
== نام ==
پہلے ہی لفظ ''والنجم'' سے ماخوذ ہے۔ یہ مضمون کے لحاظ سے [[سورۃ|سورت]] کا عنوان نہیں ہے بلکہ محض علامت کے طور پر اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
== زمانہ نزول ==
[[صحیح بخاری|بخاری]]، [[صحیح مسلم|مسلم]]، [[سنن ابی داؤد|ابو داؤد]] اور [[سنن نسائی|نسائی]] میں حضرت [[عبد اللہ بن مسعود]] کی روایت ہے کہ ''اول سورۃ انزلت فیھا سجدۃ النجم'' (پہلی سورت جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی النجم ہے)۔ اس حدیث کے جو اجزاء [[اسود بن یزید]]، [[ابو اسحاق]] اور [[زہیر بن معاویہ]] کی روایات میں حضرت ابو مسعود سے منقول ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی وہ پہلی سورت ہے جسے [[رسول اللہ {{درود}}]] نے [[قریش]] کے ایک مجمع عام میں (اور ابن مردویہ کی روایت کے مطابق [[
اس واقعے کے دوسرے عینی شاہد حضرت [[مطلب بن ابی وداعہ]] ہیں جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔ نسائی اور [[مسند احمد]] میں ان کا اپنا بیان یہ نقل ہوا ہے کہ جب حضور {{درود}} نے سورہ نجم پڑھ کر سجدہ فرمایا اور سب حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے تو میں نے سجدہ نہ کیا، اور اسی کی تلافی اب میں اس طرح کرتا ہوں کہ اس سورت کی تلاوت کے وقت سجدہ کبھی نہیں چھوڑتا۔
ابن سعد کا بیان ہے کہ اس سے پہلے [[رجب]] 5 نبوی میں [[صحابی|صحابہ کرام]] کی ایک مختصر سی جماعت [[حبش]] کی طرف ہجرت کر چکی تھی۔ پھر جب اسی سال [[رمضان]] میں یہ واقعہ پیش آیا کہ رسول اللہ {{درود}} نے قریش کے مجمع عام میں سورہ نجم کی تلاوت فرمائی اور کافر و مومن سب آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے، تو حبش کے مہاجرین تک یہ قصہ اس شکل میں پہنچا کہ کفار مکہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس خبر کو سن کر ان میں سے کچھ لوگ [[شوال]] 5 نبوی میں مکہ واپس آ گئے۔ مگر یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ظلم کی چکی اسی طرح چل رہی ہے جس طرح پہلے چل رہی تھی۔ آخر کار دوسری [[ہجرت حبشہ]] واقع ہوئی جس میں پہلی ہجرت سے بھی زیادہ لوگ مکہ چھوڑ کر چلے گئے۔
اس طرح یہ بات قریب قریب یقینی طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ سورت رمضان 5 نبوی میں نازل ہوئی۔
سطر 47:
اس کے بعد علی الترتیب تین مضامین ارشاد ہوئے ہیں:
*اولاً سامعین کو سمجھایا گیا ہے کہ جس دین کی تم پیروی کر رہے ہو اس کی بنیاد محض گمان اور من مانے مفروضات پر قائم ہے۔ تم نے [[لات]] اور [[منات]] اور [[عزٰی]] جیسی چند دیویوں کو معبود بنا رکھا ہے، حالانکہ الوہیت میں برائے نام بھی ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ تم نے [[
*ثانیاً لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ ہی ساری کائنات کا مالک و مختار ہے۔ راست رو وہ ہے جو اس کے راستے پر ہو، اور گمراہ وہ جو اس کی راہ سے ہٹا ہوا ہو۔ گمراہ کی گمراہی اور راست رو کی راست روی اس سے چھپی ہوئي نہیں ہے۔ ہر ایک کے عمل کو وہ جانتا ہے اور اس کے ہاں لازماً برائی کا بدلہ برا اور بھلائی کا بدلہ بھلا مل کر رہنا ہے۔ اصل فیصلہ اس پر نہیں ہونا کہ تم اپنے زعم میں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو اور اپنی زبان سے اپنی پاکیزگی کے کتنے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہو، بلکہ فیصلہ اس پر ہونا ہے کہ خدا کے علم میں تم متقی ہو یا نہیں۔ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو تو اس کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصوروں سے وہ درگزر فرمائے گا۔
*ثالثاً دین حق کے وہ چند بنیادی امور لوگوں کے سامنے پیش کیے گئے ہیں جو قرآں مجید کے نزول سے صدہا برس پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت موسٰی علیہم السلام کے صحیفوں میں بیان ہو چکے تھے، تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نیا اور نرالا دین لے آئے ہیں، بلکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ یہ وہ اصولی حقائق ہیں جو ہمیشہ سے خدا کے نبی بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ انہی صحیفوں سے یہ بات بھی نقل کر دی گئی ہے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح اور قوم لوط کی تباہی اتفاقی حوادث کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اللہ تعالٰی نے اسی ظلم و طغیان کی پاداش میں ان کو ہلاک کیا تھا جس سے باز آنے پر کفار مکہ کسی طرح آمادہ نہیں ہو رہے ہیں۔
|