"وحی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م Bot: Fixing redirects
سطر 1:
وحی اس کلام کو کہتے ہیں جس کو [[اللہ]] تعالی اپنے نبیوں کی طرف نازل فرماتا ہے۔ [[ابن الانباری]] نے کہا کہ اس کو وحی اس لیے کہتے ہیں کہ [[ایمان بالملائکہ|فرشتہ]] اس کلام کو لوگوں سے مخفی رکھتا ہے اور وحی [[پیغمبر|نبی]] کے ساتھ مخصوص ہے جو کو لوگوں کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسے سے جو خفیہ بات کرتے ہیں وہ وحی کا اصل معنی ہے، [[قرآن]] مجید میں ہے
{{اقتباس قرآن
| وَكَذَ‌ٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
| اور اسی طرح ہم نے ہر [[پیغمبر|نبی]] کے لئے انسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکہ دینے کے لئے ڈالتے رہتے ہیں، اور اگر آپ کا ربّ (انہیں جبراً روکنا) چاہتا (تو) وہ ایسا نہ کر پاتے، سو آپ انہیں (بھی) چھوڑ دیں اور جو کچھ وہ بہتان باندھ رہے ہیں (اسے بھی)
| 6
| 112
}}
اور اسی طرح ہم نے ہر [[پیغمبر|نبی]] کے لئے انسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکہ دینے کے لئے ڈالتے رہتے ہیں، اور اگر آپ کا ربّ (انہیں جبراً روکنا) چاہتا (تو) وہ ایسا نہ کر پاتے، سو آپ انہیں (بھی) چھوڑ دیں اور جو کچھ وہ بہتان باندھ رہے ہیں (اسے بھی)o ترجمہ از [[عرفان القرآن]] <br />
[[ابو اسحق]] نے کہا ہے کہ وحی کا [[لغت]] میں معنی ہے خفیہ طریقے سے خبر دینا، اسی وجہ سے [[الہام]] کو وحی کہتے ہیں، [[ازہری]] نے کہا ہے اسی طرح سے اشارہ کرنے اور لکھنے کو بھی وحی کہتے ہیں۔ اشارہ کے متعلق یہ آیت ہے:
{{اقتباس قرآن
سطر 17:
{{اقتباس قرآن
| وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
| اور ہر [[بشر]] کی (یہ) مجال نہیں کہ [[اللہ]] اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ [[نبوت]] سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے [[موسیٰ علیہ السلام]] سے [[طورِ سینا]] پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو [[اللہ]] چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لئے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور [[وسیلہ (ضد ابہام)|وسیلہ]] صرف [[پیغمبر|نبی]] اور [[رسول]] ہی ہوگا)، بیشک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے
| 42
| 51
}}
[[بشر]] کی طرف وحی کرنے کا معنی یہ ہے کہ [[اللہ]] تعالی اس [[بشر]] کو خفیہ طور سے کسی چیز کی خبر دے یا [[الہام]] کے ذریعے یا [[خواب]] کے ذریعے یا اس پر کوئی [[کتاب]] نازل فرمائےجیسے حضرت [[موسیٰ علیہ السلام]] پر [[کتاب]] نازل کی تھی یا جس طرح حضرت سیدنا [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]] ؐ پر [[قرآن]] نازل کیا اور یہ سب اعلام (خبر دینا) ہیں اگرچہ ان کے اسباب مختلف ہیں۔<ref>[[تاج العروس]] جلد 10 ، [[علامہ زبیدی حنفی]]</ref>
 
==لغوی و اصطلاحی معنی==
سطر 29:
 
ہر مسلمان جانتا ہے کہ [[اللہ]] تعالی نے [[انسان]] کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور اس کے ذمے کچھ فرائض عائد کرکے پوری [[کائنات]] کو اس کی خدمت میں لگادیا ہے لہٰذا دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لیے دو کام ناگزیر ہیں، ایک یہ کہ اس [[کائنات]] سے اور اس میں پیدا کی ہوئی اشیاء سے ٹھیک ٹھیک کام لے اور دوسرے یہ کہ اس کائنات کو استعمال کرتے ہوئے [[اللہ]] تعالی کے احکام کو مد نظر رکھے اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو [[اللہ]] تعالی کی مرضی کے خلاف ہو۔
ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو [[سائنس|علم]] کی ضرورت ہے ،اس لیے کہ جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کونسی چیز کے کیا خواص ہیں ؟ ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ؟ اس وقت تک وہ دنیا کی کونسی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کرسکتا نیز اسے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اللہ تعالی کی مرضی کیا ہے ؟ وہ کونسے کاموں کو پسند اور کن کاموں کو ناپسند فرماتا ہے ؟ اس وقت تک اس کے لیے اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ۔
چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جن کے ذریعے اسے مذکورہ بالا باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے، ایک انسان کے حواس یعنی آنکھ، کان، منہ اور ہاتھ پاؤں دوسرے عقل اور تیسرے وحی، چنانچہ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہوجاتی ہیں، بہت سی عقل کے ذریعے اور جوباتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتیں ان کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے۔
جہاں تک حواس خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی اور جہاں تک حواس خمسہ جواب دے دیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے، لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے یہ بھی ایک حد تک جاکر رک جاتی ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے ہوسکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے، کسی چیز کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کس طرح استعمال کرنے سے اللہ تعالی راضی ہوتے ہیں اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہوتے ہیں، اس علم کا جو ذریعہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے وہ "وحی" ہے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرماکر اسے پیغمبر قرار دیتے ہیں اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتے ہیں اسی کلام کو وحی کہا جاتا ہے ۔
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/وحی»