"سورہ الشوریٰ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Bot: Fixing redirects |
م املا کی درستگی |
||
سطر 29:
== موضوع اور مضمون ==
بات کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ ہمارے نبی کی پیش کردہ باتوں پر یہ کیا چہ میگوئیاں کرتے پھر رہے ہو۔ یہ باتیں کوئی نئی یا نرالی نہیں ہیں، نہ یہی کوئی نادر واقعہ ہے جو تاریخ میں پہلی ہی مرتبہ پیش آیا ہو کہ ایک شخص پر خدا کی طرف سے وحی آئے اور اسے بنی نوع [[انسان]] کی رہنمائی کے لیے ہدایات دی جائیں۔ ایسی ہی وحی، اسی طرح کی ہدایات کے ساتھ [[اللہ
اس کے بعد لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ نبوت پر کسی شخص کا مقرر کیا جانا، اور اس شخص کا اپنے آپ کو [[پیغمبر|نبی]] کی حیثیت سے پیش کرنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ خلق خدا کی قسمتوں کا مالک بنا دیا گیا ہے اور اسی دعوے کے ساتھ وہ میدان میں آیا ہے۔ قسمتیں تو اللہ نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہیں۔ نبی صرف غافلوں کو چونکانے اور بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتانے آیا ہے۔ اس کی بات نہ ماننے والوں کا محاسبہ کرنا اور انہیں عذاب دینا یا نہ دینا اللہ کا اپنا کام ہے۔ یہ کام نبی کے سپرد نہیں کر دیا گیا ہے۔ لہ{{ا}}ذا اس غلط فہمی کو اپنے دماغ سے نکال دو کہ نبی اس طرح کے کسی دعوے کے ساتھ آیا ہے جیسے دعوے تمہارے ہاں کے نام نہاد مذہبی پیشوا اور پیر فقیر کیا کرتے ہیں کہ جو ان کی بات نہ مانے گا، یا ان کی شان میں گستاخی کرے گا وہ اسے جلا کر بھسم کر دیں گے۔ اسی سلسلے میں لوگوں کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نبی تمہاری بد خواہی کے لیے نہیں آیا ہے، بلکہ وہ تو ایک خیر خواہ ہے جو تمہیں خبردار کر رہا ہے کہ جس راہ پر تم جا رہے ہو اس میں تمہاری اپنی تباہی ہے۔
پھر اس مسئلے کی حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ اللہ نے سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر راست رو کیوں نہ بنا دیا،اور یہ مجال{{زیر}} اختلاف کیوں رکھی جس کی وجہ سے لوگ فکر و عمل کے ہر الٹے سیدھے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ بتایا گیا کہ اسی چیز کی بدولت تو یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ انسان اللہ کی اس رحمت{{زیر}} خاص کو پا سکے جو دوسری بے اختیار مخلوقات کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اس ذی اختیار مخلوق کے لیے ہے جو جبلی طور پر نہیں، شعوری طور پر اپنے اختیار سے اللہ کو اپنا ولی بنائے۔ یہ روش جو انسان اختیار کرتا ہے اسے اللہ
اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ جس دین کو محمد {{درود}} پیش کر رہے ہیں وہ حقیقت میں ہے کیا:
اس کی اولین بنیاد یہ ہے کہ اللہ
اسی بنیاد پر اللہ
وہ ایک ہی دین تھا جو ہر زمانے میں تمام انبیاء کو دیا جاتا رہا کوئی نبی بھی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی نہیں تھا۔ وہی ایک دین اول روز سے نسل انسانی کے لیے اللہ
وہ دین کبھی محض مان کر بیٹھ جانے کے لیے نہیں بھیجا گیا، بلکہ ہمیشہ اس غرض کے لیے بھیجا گیا ہے کہ زمین پر وہی قائم اور رائج اور نافذ ہو، اور اللہ کے ملک میں اللہ کے دین کے سوا کسی اور کے ساختہ و پر داختہ دین کا سکہ نہ چلے۔ انبیاء علیہم السلام اس دین کی محض تبلیغ پر نہیں بلکہ اسے قائم کرنے کی خدمت پر مامور کیے گئے تھے ۔
سطر 56:
ایک یہ کہ محمد {{درود}} کا اپنی زندگی کے ابتدائی چالیس سال میں "کتاب" کے تصور سے بالکل خالی الذہن اور ایمان کے مسائل و مباحث سے قطعی ناواقف رہنا اور پھر یکایک ان دونوں چیزوں کو لے کر دنیا کے سامنے آ جانا، آپ کے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔
دوسرے یہ کہ آپ کا اپنی پیش کردہ تعلیم کو خدا کی تعلیم قرار دینا یہ معنی نہیں رکھتا کہ آپ خدا سے رو در رو کلام کرنے کے مدعی ہیں، بلکہ خدا نے یہ تعلیم تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح آپ کو بھی تین طریقوں سے دی ہے۔ ایک وحی، دوسرے پردے کے پیچھے سے آواز اور تیسرے فرشتے کے ذریعے سے پیغام۔ یہ وضاحت اس لیے کی گئی ہے کہ مخالفین یہ الزام تراشی نہ کر سکیں کہ حضور {{درود}} خدا سے رو در رو کلام کرنے کا دعوی{{ا}} کر رہے ہیں اور حق پسند لوگ یہ جان لیں کہ اللہ
{{سورت
|