"محمد اقبال" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 89:
== اعلیٰ تعلیم اور سفر یورپ ==
۲۵ دسمبر 1905 میں کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے [[انگلستان]] چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا چونکہ کالج میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے لیے گئے تھے اس لیے ان کے لیے عام طالب علموں کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی پابندی نہ تھی ۔ قیام کا بندوبست کالج سے باہر کیا ۔ ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنزاِن میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی ۔ بعد میں آپ [[جرمنی]] چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
 
سر عبدالقادر بھی یہیں تھے ۔ اسی زمانے میں کیمبرج کے استادوں میں وائٹ ہیڈ ، میگ ٹیگرٹ ، وارڈ ، براؤن اور نکلسن ایسی نادرۂ روزگار اور شہرۂ آفاق ہستیاں بھی شامل تھیں ۔ میگ ٹیگرٹ اور نکلسن کے ساتھ اقبال کا قریبی ربط ضبط تھا بلکہ نکلسن کے ساتھ تو برابر کی دوستی اور بے تکلفی پیدا ہوگئی ۔ البتہ میگ ٹیگرٹ کی جلالت علمی کے ساتھ ان کی عمر بھی تھی ، وہ اقبال سے خاصے بڑے تھے جب کہ نکلسن کے ساتھ سن کا کوئی ایسا تفاوت نہ تھا۔
میگ ٹیگرٹ ٹرنٹی کالج میں کانٹ اور ہیگل کا فلسفہ پڑھاتے تھے ۔ خود بھی انگلستان کے بڑے فلسفیوں میں گِنے جاتے تھے ۔ براؤن اور نکلسن عربی اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے ۔ آگے چل کر نکلسن نے اقبال کی فارسی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جو اگرچہ اقبال کو پوری طرح پسند نہیں آیا مگر اس کی وجہ سے انگریزی خواں یورپ کے شعری اور فکری حلقوں میں اقبال کے نام اور کام کا جزوی سا تعارف ضرور ہوگیا ۔ انگلستان سے آنے بعد بھی اقبال کی میگ ٹیگرٹ اور نکلسن سے خط و کتابت جاری رہی۔
 
آرنلڈ جو کیمبرج نہیں تھے ، لندن یونیورسٹی میں عربی پڑھاتے تھے ،لیکن اقبال بڑی باقاعدگی سے ان سے ملنے جایا کرتے تھے ۔ ہر معاملے میں ان کا مشورہ لے کر ہی کوئی قدم اُٹھاتے ۔ انہی کے کہنے پر میونخ یونیورسٹی میں پی۔ ایچ ۔ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروائی ۔ کیمبرج سے بی ۔ اے کرنے کے بعد جولائی ۱۹۰۷ء کو ہائیڈل برگ چلے گئے ۔ تاکہ جرمن زبان سیکھ کر میونخ یونیورسٹی میں اپنے تحقیقی مقالے کے بارے میں اس زبانی امتحان کی تیاری ہوجائے جو اسی زبان میں ہوتا تھا۔ یہاں چار ماہ گزارے ۔ ’’ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقاء‘‘ کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ پہلے ہی داخل کرچکے تھے ، ایک زبانی امتحان کا مرحلہ ابھی رہتا تھا ، اس سے بھی سرخروئی کے ساتھ گزر گئے ۔ ۴ نومبر ۱۹۰۷ء کو میونخ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ دے دی ۔ ۱۹۰۸ء میں یہ مقالہ پہلی بار لندن سے شائع ہوا ۔ انتساب آرنلڈ کے نام تھا۔
 
ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے ۔ بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کردی ۔ کچھ مہینے بعد سارے امتحان مکمل ہوگئے ۔ جولائی ۱۹۰۸ء کو نتیجہ نکلا۔ کامیاب قرار دیے گئے ۔ اس کے بعد انگلستان میں مزید نہیں رُکے ، وطن واپس آگئے۔
 
لندن میں قیام کے دوران میں اقبال نے مختلف موضوعات پر لیکچروں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا ، مثلاً اسلامی تصوّف ، مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر ، اسلامی جمہوریت ، اسلام اور عقلِ انسانی وغیرہ بدقسمتی سے ان میں ایک کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔
ایک مرتبہ آرنلڈ لمبی رخصت پر گئے تو اقبال ان کی جگہ پر لندن یونیورسٹی میں چند ماہ کے لیے عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔
 
مئی ۱۹۰۸ء میں جب لندن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی کا افتتاح ہوا تو ایک اجلاس میں سیّد امیر علی کمیٹی کے صدر چُنے گئے اور اقبال کو مجلسِ عاملہ کا رُکن نامزد کیا گیا۔
اسی زمانے میں انھوں نے شاعری ترک کردینے کی ٹھان لی تھی، مگر آرنلڈ اور اپنے قریبی دوست شیخ عبدالقادر کے کہنے پر یہ ارادہ چھوڑ دیا ۔ فارسی میں شعر گوئی کی ابتدا بھی اسی دور میں ہوئی۔
قیامِ یورپ کے دوران میں اقبال کے دو بنیادی خیالات تبدیل ہونے شروع ہوئے ۔ اقبال وطنی قومیّت اور وحدتِ الوجود کی طرف میلان رکھتے تھے ۔ اب وہ میلان گریز میں بدلنے لگا تھا ۔ خاص طور پر وطنی قومیت کے نظریے کے تو اس قدر خلاف ہوگئے جسے نفرت کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
 
یورپ پہنچ کر انھیں مغربی تہذیب و تمدّن اور اس کی روح میں کارفرما مختلف تصوّرات کو براہ راست دیکھنے کا موقع ملا ۔ مغرب سے مرعوب تو خیر وہ کبھی نہیں رہے تھے ، نہ یورپ جانے سے پہلے نہ وہاں پہنچنے کے بعد ۔ بلکہ مغرب کے فکری ، معاشی ، سیاسی اور نفسیاتی غلبے سے آنکھیں چرائے بغیر انھوں نے عالمی تناظر میں امتِ مسلمہ کے گزشتہ عروج کی بازیافت کے لیے ایک وسیع دائرے میں سوچنا شروع کیا ۔یہاں تک کہ ان پر مغربی فکر اور تہذیب کا چھپا ہوا بودا پن منکشف ہوگیا ۔ قیام کیمبرج کے آخری ایّام میں ایک غزل کہی جس میں یہ ساری باتیں الہامی آہنگ میں بیان ہوگئیں
 
؎ سُنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپایدار ہوگا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری نفس میرا شعلہ بار ہوگا
قومیت پرستی کے مسئلے پر اقبال کو اب شرح صدر ہوچکا تھا کہ اس قسم کی کوئی بھی تحریک مسلمانوں کے ملّی تشخص اور دینی دجود کے لیے انتہائی مہلک ہوگی ۔ انھوں نے اچھی طرح بھانپ لیا تھا کہ اگر قومیت پرستی کی رو اسلامی ممالک یا دنیا کے دوسرے خِطّوں میں مصروفِ عمل مسلمانوں میں چل نکلی تو اشتراکِ ایمان کی بنیاد ڈَھ جائے گی اور مسلمان ، مسلمان کا گلا کاٹنے لگے گا ۔ اسی زمانے کی ایک اور غزل کے دو اشعار میں یہی بات کہی گئی ہے
؎ نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے
کہاں کا آنا کہاں کا جانا فریب ہے امتیاز عقبیٰ
نمود ہر شے میں ہے ہماری کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
 
== تدریس ،وکالت اور سماجی خدمات ==