"عدالت عظمیٰ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
77.36.153.15 (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 643660 ویں ترمیم کا استرجع۔
سطر 1:
ملک کی اعلی ترین عدالت کو عدالت عظمٰی کہتے ہیں۔ [[عدالت عظمٰی|سپریم کورٹ]] کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔
 
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
:چھلانگ بطرف رہنمائی, تلاش
 
پکی لیکس ٭٭٭٭٭
 
 
یکم جون 1977 کو GHQ میں ایک کور کمانڈروں کی ایک ہنگامی میٹنگ میں مسلح افواج کے سر براہ جنرل محمد ضیا الحق نے اپنے ماتحت جنرلوں کو امریکی صدر وقت جمی کارٹر کا ایک خفیہ پیغام پڑھ کر سنایا جس میں ایک خفیہ ادارے کی تشکیل کے احکامات دئیے گئے تھے۔ جنرل محمد ضیا الحق نے اس انتہائی خفیہ خط کا متن پڑھنے کے بعد اپنے ماتحتوں سے کہا کہ جمی کارٹر کے اس خط سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہم پر کتنا اعتماد کرتے ہیں اور اب یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ان کے احکات کی تعمیل میں ہم ان کے اعتماد پر پورا اتریں۔ کور کمانڈروں کے اس خفیہ اجلاس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں امریکی سی آئی اے کے سربراہ ولیم کیسی کے علاوہ شاہ خالد کے خصوصی نمائندے اسامہ بن لادن بھی موجود تھے۔ ولیم کیسی نے اس میٹنگ میں اپنے مختصر خطاب میں جمی کارٹر کی جنرل محمد ضیا الحق پر خصوصی عنایات کا ذکر کرتے ہوئے ایک خفیہ ادارے کی تشکیل یا آئی ایس آئی کی از سر نو تشکیل کے منصوبے کے عملی ہونے کی صورت میں اسے دونوں ملکوں کے دراز مدت اسٹراٹیجک منصوبے کی کامیابی کی ضمانت قرار دیا اور پاک فوج کے جنرلوں کے لئے اسپیشل مراعات دینے کا اعلان کیا۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ خالد کے خصوصی نمائندے شہزادہ اسامہ بن لادن نے اس منصوبے کی تکمیل کے لئے شاہ خالد کی بھرپور حمایت کا یقین دلایا اور کہا کہ افغانستان میں جہادی روح پنپ رہی ہے اور ایران کے حالات بھی خادم الحرمین کی تشویش کا باعث ہیں اس لئے کہ ایران میں شاہ کا تختہ الٹے جانے کی صورت میں جو لوگ اقتدار میں آئیں گے وہ فلسطین کے کٹر حامی شمار ہوتے ہیں اور ان کے اقتدار میں آنے کی صورت میں اسرائیل کے خلاف محاذ بننا یقینی ہے۔ لہذا ہمیں ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جو افغانستان میں جہادی اثرات کو فروغ پانے نہ دے اور ضرورت پڑنے پر اس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے۔ ایران میں کسی بھی ممکنہ تبدیلی کی صورت میں وہاں فلسطینیوں کے اثر ورسوخ کی روکتھام کرے اور ضروری ہوتو جنگ سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ شاہ خالد کے خصوصی نمائندے شہزادہ اسامہ بن لادن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی ممکنہ جنگ کی روکتھام میں اس ادارے کا رول کلیدی ہوگا۔ ویلیم کیسی نے سعودی عرب کے فرمانرواشاہ خالد کے نمائندے کی گفتگو کی تائید میں کہا کہ علاقے میں اسرائیل کے وجود کو سنجیدہ خطرات لاحق ہوتے جارے ہیں کہ جن کا تدارک ضروری ہے اور پاکستان میں اس بات کی پوری توانائی اور صلاحیت موجود ہے کہ اس سلسلے میں امریکہ کے پیش نظر منصوبے پر کام کرکے اسرئیل کے خلاف کسی بھی ممکنہ جنگ کی روکتھام کرے۔ ویلم کیسی کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پاکستان کو اسرائیل کے لئے خطرہ بننے والے تمام عناصر کو ختم کرنا اور یا ان کو ان کے راستے سے منحرف کرنے کی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل محمد ضیاالحق کی صدارت میں ہونے والی اس خفیہ میٹنگ میں موجود دو ایک جرنیلوں کے سوا سب نے اس منصوبے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی تاہم اس نئے ادارے کی تشکیل کی بجائے فوج کے ادارے آئی ایس آئی کو ہی اس کام کے لئے مناسب گردانا گیا۔ اس کام کی ذمہ داری خود جنرل ضیاالحق نے اپنے سر لی اور جنرل فضل حق کو اس سلسلے میں اپنی معاونت کا فریضہ سونپا اور طے پایا کہ اگلی میٹنگ ریاض میں شاہ خالد کی موجودگی میں ہوگی جس میں ویلیم کیسی اور ممکن ہوا تو موساد کے سربراہ شرکت کریں گے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 
پانچ جون 1977 کو جنرل فضل حق کو جنرل ضیا الحق کا پیغام ملا کہ اپنے ماتحتوں میں سے دو معتمدین کے ساتھ 9 جون صبح دس بجے جی ایچ کیو میں حاضر ہوجائیں۔ 9جون کی صبح دس بجے جنرل ضیا الحق کی صدارت میں جی ایچ کیو میں اجلاس شروع ہوا جس میں ایک طرف جنرل فضل حق، اور ان کے دو معاونین کیپٹن ماجد گیلانی اور دوسرے کیپٹن پرویزمشرف ان کے جونیراشرف کیانی موجود تھے۔ جنرل ضیا الحق نے فوج میں ایک نئے ادارے کی تشکیل کے تعلق سے امریکی صدر جمی کارٹر کے خصوصی احکمات اور اس سلسلے میں سعودی فرمانروا شاہ خالد کی سفارشات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں نظام مصطفی کی تحریک اور اسلامی حکومت بنانے کے رجحان نے مغربی ملکوں کے ساتھ ساتھ عربوں کی نیندیں حرام کردی ہیں اگرچہ نظام مصطفی کی تحریک کو پاک فوج نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں خطرہ موجود ہے کہ جسے مکمل طور سے راستے سے ہٹانا ضروری ہے۔ ضیا الحق نے کہا کہ خفیہ طریقے سے انہیں راستے سے ہٹایا جاسکتا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ کام نہ کیا جائے۔ جنرل فضل حق نے مشورہ دیا کہ کسی مقدمے میں پھنسا کر لمبی مدت کے لئے جیل میں ڈالدیا جائے۔ کیپٹن ماجد گیلانی نے کہا کہ لمبی مدت کے لئے جیل میں ڈالنے کی بجائے ایک طویل المدت کیس چلایا جائے اور اس دوران بھٹو کے حامیوں کو توڑا جائے۔ کیپٹن پرویز مشرف نے بھی اس کی تائید کی اور اس سلسلے میں بھٹو کے مخالف کسی ماہر قانون سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جنرل ضیا الحق نے کہا کہ جو مشن جمی کارٹر اور شاہ خالد نے پاک فوج کے ذمہ لگایا ہے وہ ایک دراز مدت کام ہے اور کافی حد تک خطرناک بھی، لیکن کامیابی کی صورت میں اقتدار ایک طویل عرصے تک ہمارے ہاتھ میں رہے گا اور میری اور تمھاری آئندہ نسلیں عیش کریں گی۔ اس اجلاس کے چند روز بعد جی ایچ کیو میں ایک اور اجلاس بلا گیا جس میں شاہ خالد کے خصوص نمائندے کی حثیت سے ولعیہد وقت فہد بن عبدالعزیز نے خفیہ طور پر شرکت کی۔ انہوں اس اجلاس میں ایک خفیہ رپورٹ جنرل ضیا الحق کو پیش کی جس میں امریکہ میں زیر تربیت پاکستانی فوجی افسران کی دوران تربیت نجی اور ذاتی سرگرمیوں سے متعلق خفیہ اطلاعات اور تصاویر موجود تھیں۔ جنرل ضیا نے سرسری طور پر ان بیہودہ اور فحش قسم کی تصویروں کا مشاہدہ کیا۔ ان تصویروں میں دو ایک تصویریں خود جنرل ضیا کی بھی تھیں جب وہ امریکہ میں ٹریننگ پر تھے۔
 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ضیا نے فہد سے سوال کیا کہ ان انتہائی خفیہ اطلاعات اور تصاویر تک آپ کی رسائی کیسے ہوئی اور میرے پاس لانے کا مقصد کیا ہے۔ فہد نے کہا کہ اعلی حضرت شاہ خالد کو امریکی سی آئی کی طرف سے یہ خفیہ فائل موصول ہوئی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ جن افسران کی یہ تصاویر ہیں ان کو آپ بآسانی اس خفیہ مشن کے لئے استعمال کر سکتے ہیں جس کے معامالات یکم جون کے اجلاس میں طے پاچکے ہیں۔ جنرل ضیا نے کہا گویا ان افسران کو بلیک میل کرنا ہے۔ فہد نے تائید میں سرہلاتے ہوئے کہا کہ تصویروں کے ساتھ جو فہرست آپ دیکھ رہے اس میں ان افسران اورحکام کے نام ہیں جن کی پیدائش مشکوک ہے یعنی کسی کی ولدیت نا معلوم ہے تو کسی کی ماں کے بارے میں صحیح اطلاعات موجود نہیں ہیں۔اس پر جنرل ضیا نے کہا کہ آپ سیدھا سادھا یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ یہ سب کے سب ولدالزنا ہیں۔ ولیعہد شہزادہ فہد بن عبد العزیز نے کہا میں اس بارے میں اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں آپ کا نام بھی موجود ہے۔ جنرل ضیا نے فورا ہی فائل پر نظر ڈالی دوسرے صفحے کی تیسری لائن میں محمد ضیا الحق کو اپنا نام نظر آیا، غیر یقینی کے ساتھ دوبارہ دیکھا اور نہایت غصیلے لہجے میں کہا کہ اس لیسٹ میں تو سبھی افسران اور حکام کے نام موجود ہیں کیا سب کے سب حرام زادے ہیں۔ فہد نے کہا کہ آپ پریشان کیوں ہوگئے، حکومت کا چلانے کے ایسے ہی افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ پاکستانی فوجی افسران اور حکام میں ایسے افراد کی کمی نہیں کہ جن کی پیدائش مشکوک ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس زمانے میں غیرمنقسم ہندوستان کی فوج برطانیہ کی نگرانی میں تھی، برطانوی حکام اتفاقی طور اس بات سے واقف ہوگئے تھے کہ ہندوستان پر قبضہ جمانے کے لئے ان کا ساتھ وہی لوگ دینے پر آمادہ ہوتے ہیں جو حسب و نسب کے لحاظ سے کوئی شناخت نہیں رکھتے اور یہ لوگ با آسانی خریدے جاسکتے ہیں اور تھوڑے سے پیسے یا کوئی سرکاری عہدہ لیکر ہر کام کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ لہذا انگریز فوج کے ماہرین نےمکمل جانچ کے بعد ایسے لوگوں کو مراعات اور سہولیات فراہم کرنا شروع کردیں جن کی اپنی کوئی شناخت تھی نہ ان کے ماں باپ کا صحیح پتہ تھا۔ خصوصا فوج اور پولیس میں انہوں نے ایسے ہی لوگوں کو بھرتی کیا اور تجربے نے یہ بات ثابت کردی انگرزوں کا ساتھ دینے والوں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو حرام زادے تھے، غیر منقسم ہندوستان کی فوج میں اعلی عہدوں پر تعینات غیر برٹن افسران میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو انگریز فوجیوں کی مقامی داشتاؤں کے ساتھ ان کے ناجائز تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے، اور حقیقت تو یہ ہے کہ 1947 کی تقسیم کے بعد آپ کے حصے میں آنے والی فوج کے مسلمان افسران میں زیادہ تر افسران وہی تھے جو انگریزوں کے ساتھ غیر انگریز عورتوں کے ناجائز تعلقات کا نتیجہ تھے، فہد بن عبدالعزیز نے کہا کہ آپ یوں سمجھ لیں کہ پاکستان کی آزادی کے وقت فوج اور پولیس میں موجود لوگ زیادہ تر حرام زادے تھے، فہد نے مزید کہا کہ انگریزوں کا کہنا ہے کہ حسب ونسب سے عاری افراد سے آپ جو کام بھی لینا چاہیں گے وہ بے چون چرا انجام دیں گے اور آپ کی حکومت کو مضبوط کریں گے۔ لہذا شاہ خالد کا آپ کے لئے یہ خصوصی دستور ہے کہ آئی ایس آئی کو از سر نو منظم کیا جائے اور اس میں ان تمام افسران کو کلیدی عہدے دئیے جائیں جو ولد الزنا ہیں یا ان کی پیدائش مشکوک ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 
اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان شاہ خالد کی وساطت سے جو مضبوط پل بناگیا اس پر چلتے ہوئے جنرل ضیا نے پاکستان میں چلنے والی نظام مصطفی کی پوری تحریک کو اس کے اصلی راستے سے منحرف کردیا اور ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اپنا شیوہ بنالیا اور کچھ مولوی ملاؤں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا، حتی فوجی یونٹ میں مولوی کی اہمیت بڑھ گئی اور انہوں نے یونٹ کی سماجی زندگی پر بھی فیصلے صادر کرنے شروع دیے۔ شاہ خالد کی ہدایات اور وھائیٹ ہاؤس کے ایما پر آئی ایس آئی کی تنظیم نو کی گئی اور حرام زادوں کی ایک اسپیشل فورس تیار ہوگئی۔ جنرل ضیا کا ایک پیر اسلام آباد میں ہوتا تھا اور دوسراپیر ریاض میں، امریکی حکام سے خفیہ اور علی اعلان ملاقاتیں اور بات چیت بھی جنرل ضیا کے معمولات میں سے تھی اور وہ امریکی احکامات کی تعمیل میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے تھے۔ جنرل ضیا کی جانب سے فری ہینڈ ملنے کے بعد فوج میں موجود حرام زادوں کا ٹولہ آئی ایس آئی کی شکل میں اسپیشل مراعات لے کر پاکستان کے مستقبل کا سودا کر بیٹھا، سعودی فرما نروا شاہ خالد کی اچانک اور مشکوک موت کے بعد شاہ فہد بن عبدالعزیز نے جنرل ضیا سمیت پاکستانی فوج میں موجود انگریزوں کی مقامی داشتاؤں کی اولادوں کو مزید نوزا اور حرام زادوں کے ساتھ ساتھ اپنے وظیفہ خوار ملاؤں کی ایک پوری فوج کو قوم پر مسلط کردیا۔ عیاش فوجی جنرلوں کو جو اپنے اوپر ملائیت کا خول چڑھا چکے تھے، عیش و عشرت کی محفلوں سے دوری اختیار کرنے کو کہا گیا لیکن جن کا خون گندا ہو ان سے اس قسم کی توقع رکھنا عبث تھا اور خود جنرل ضیا کو بھی یہ بات معلوم تھی کہ امریکہ میں دوران تربیت عیاشی اور فحاشی کی عادت لے کر وطن واپس آنے والے جنرلوں اور کرنلوں کو روکنا ان کے بس میں نہیں، لہذا اس مشکل کو ان ملاؤں کے ذریعے حل کرلیا گیا کہ جنہیں شاہ خالد اور شاہ فہد کے کہنے پر فوج میں بطور پیش امام بھرتی کیا گیا تھا۔ آئی ایس آئی کے خفیہ اعداد شمار کے مطابق چھاؤنیوں اور ائر فورس کے بیسز میں موجود ساٹھ سے ستر فیصد مولویوں کی بیگمات اور بچیاں فوجی افسران کی ہوس کا نشانہ بنیں۔ شروع میں اس قسم کے دو ایک واقعات کے بعد بعض مولویوں نے فوج کی ملازمت چھوڑنے کی کوشش کی تو دھمکیاں اور لاچ دے کر ان کے منہ بند کرادئیے گئے۔ جن مولویوں کی اپروج تھی انہوں نے سعودی سفارتخانے سے رابطہ کیا پہلے تو سعودی ایمبیسی نے انہیں اس مسلئے سے خود ہی نمٹنے کا مشورہ دیا۔ لیکن جب مولوی حق نواز جھنگوی کی بیٹی اور مولوی ایثار الحق قاسمی کی جوان سال بہن پر ایک فوجی نے اپنا ہاتھ صاف کیا تو پھر سعودی ایمبیسی کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اس معاملے کا کوئی مناسب حل نکالے۔ اکتوبر کے اوائل میں ایک وفد تشکیل پایا جس میں مولوی حق نواز جھنگوی، مولوی اثار الحق قاسمی سمیت فوج کے ستائے ہوئے کئی دیگر مولوی حضرات شامل تھے۔ 12 اکتوبر 1981 کو شاہ فہد کے خصوصی طیارے کے ذریعے ان لوگوں کو ریاض لے جایا گیا جہاں ان کی ہر لحاظ سے خوب پذیرائی کی گئی۔ 14 اکتوبر کو ان سے شاہ فہد بنفس نفیس ان لوگوں سے ملاقات کی اور انہیں حوصلے اور صبر سے کام لینے کی تلقین کی اور کہا کہ یہ آپ لوگوں کی مجبوری ہے کہ اس صورتحال کو برداشت کریں اور اگر آپ لوگوں نے اس سلسلے میں ہمارے ساتھ تعاون کیا تو آپ لوگوں کو روپے پیسے کی کمی نہیں ہونے دیں گے۔ اگلے دن یعنی 15 اکتوبر کو ان لوگوں کو عمرہ کرانے کے لئے مکہ لے جایا گیا جہاں امام کعبہ عبداللہ بن سبیل سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔ عبداللہ بن سبیل نے ان مولویوں کے سامنے حالت جہاد میں متعہ یعنی عارضی نکاح کا مسئلہ رکھا اور بتایا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ کے زمانے میں بھی مجاہدین اسلام عارضی نکاح کرتے رہے ہیں۔ حق نواز جھنگوی نے اعتراض کیا کہ ہم لوگ تو متعہ کو زنا کے مترادف سمجھتے ہیں اور اس کو رافضیوں کی دین قرار دیتے ہیں۔ عبد اللہ سبیل نے جواب میں کہا ایسا ہی ہے لیکن اضطرار اور جہاد کی حالت میں متعہ جائز ہے۔ عبداللہ سبیل نے کہا کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے لیکن یہاں سعودی عرب میں شاہی خاندان کے افراد بیک وقت دس دس بارہ بارہ بیگمات رکھتے ہیں جو سب کی سب ان کی شرعی اور قانونی بیویاں کہلاتی ہیں۔لہذا آپ لوگ اس مسئلے کو زیادہ پیچیدہ نہ بنائیں اور خود کو حالت جہاد میں فرض کریں اور یہ میرا فتوی ہے۔ پاکستان واپس آنے کے بعد ان مولویوں نے از خود اس موضوع پر تحقیق کرنے بعد عبداللہ بن سبیل کے فتوے کی توثیق کردی اور فوجی بیرکوں اور چھاؤنیوں میں رونما ہونے والے واقعات کو مجاہدین کی خدمت تصور کرکے نہ صرف اپنی آنکھیں بند کرلیں اور عارضی نکاح کی بابت مہر کی رقومات خود مولوی حضرات کی جیبوں میں جانے لگی۔ آئی ایس آئی خفیہ رپورٹ کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ حق نواز جھنگوی کو پہنچا کہ جس نے اپنے اثر رسوخ کی بنا پر اپنی رشتہ دار اور جان پہچان والی خواتین کو بیرکوں اور چھاؤنیوں میں مستقل طور لاکر بسا دیا جو نہ صرف پاک فوج کے جوانوں کے جذبات کی تسکین کا باعث بنیں بلکہ مجاہدان فی سبیل اللہ کے لئے اسی دنیا میں حوران بہشتی ثابت ہوئیں۔ آئی ایس آئی کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق سعودی شہزادوں اور عرب ملکوں کے مجاہدین کی بھی خفیہ آمد رفت بڑھنے کے ساتھ ہی جو صرف ایک رات اور بعض اوقات چند گھنٹے گذارنے کے لئے پاکستان آیا کرتے تھے، چھاؤنیوں اور بیرکوں میں موجود خواتین میں ان کے ساتھ عارضی نکاح کرنے کی ایک ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ مولوی حق نواز جھنگوی کو یہ کہنا پڑا کہ ہم لوگ بلا وجہ ہی رافضیوں کو کوستے رہے اب تو ہماری خواتین باقاعدہ ہم سے آکر لڑتی ہیں کہ کل فلاں بیرک میں جو عرب آیا تھا اس نے فلا مولوی کی بیٹی کے ساتھ عارضی نکاح کیا اور اسے مہر میں لاکھوں روپے کا ہار دیدگیا حالانکہ میرا زیادہ حق بنتا تھا کہ میں آتی اس کے نکاح میں۔ آئی ایس آئی کے ایک افسر کے بقول امام کعبہ نے پاکستانی فوج میں ملازم پیش اماموں کو ایسا فتوی دیدیا ہے کہ جس کی بنیاد پر حالت جہاد میں زنا کرنےکو عبادت درجہ دینے لگے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 
انگریزوں نے اپنے اقتدار کو دوام اور استحکام دینے کے لئے غیر منقسم ہندوستان کی فوج میں حرام زادوں کو بھرتی کرنے کی جو ریت ڈالی تھی اس کو جالندھر میں تعینات ایک انگریز افسر کی مقامی داشتہ کی ناجائز اولاد یعنی جنرل ضیا نے دوام بخشا اور ملاؤں نے حرام زادوں کی پیداور بڑھانے میں اس کا پورا پورا ساتھ دیا۔ فوجی چھاؤنیوں اور بیرکوں میں یہ گھناؤنا کھیل 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ کھیلا جاتا رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق امریکی جاسوسوں کی ایک پوری ٹیم اور آئی ایس اے کے ایجنٹوں کے ہمراہ ایک مشکوک فضائی حادثے کا شکار ہوگئے اور اپنے پیچھے اپنے جیسے لاتعداد حرامزادے چھوڑ گئے کہ جن کے منہ کو انسانی خون لگا ہوا ہے۔ آئی ایس آئی کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بارے میں یہ گمان ہے وہ دراصل ایک ہندو فوجی دجاس سنگھ کی اولاد ہیں۔ آئی ایس آئی کی خفیہ رپورٹ کے مطابق دجاس سنگھ رنگون کے محاذ پر انگریزوں کے ساتھ تعینات تھا۔ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی بیوی ایتک دیوی پر جو جوان بھی تھی اور خوبرو بھی، ایک انتہائی بدشکل فوجی افسر نے ڈورے ڈالنے شروع کردیۓ۔ ایتک دیوی شروع میں تو مزاحمت کرتی رہی تاہم ایک دن اس نے ہتیار ڈالددیۓ اور دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات قائم ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ ایتک دیوی کا شوہر دجاس سنگھ رنگون کے محاذ پر مارا گیا۔ شوہر سے دوسال دور رہنے کے بعد ایتک دیوی نے ایک بچے کو جنا جو در اصل اسی بدشکل ہندو فوجی افسر کا بچہ تھا تاہم ایتک دیوی نے اسے دجاس سنگھ کا بچہ مشہور کردیا۔ کچھ عرصے بعد ایتک دیوی نے ایک سکھ فوجی افسر سے شادی کرلی اور بچے کوایک لاولد مسلمان فیملی کے حوالے کرکے اپنے سکھ شوہر کے ساتھ جمو چلی گئی۔ مسلمان فیملی نے بچے کو اپنی اولاد کی طرح پالا۔ آج اس بدشکل ہندو فوجی افسر اور ایتک دیوی کا ناجائز بچہ پاکستان کا چیف جسٹس ہے۔ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق افتخار محمد چوہدری شکل و صورت میں اپنے حقیقی باپ سے کافی مشابہت رکھتے ہیں۔ جو کچھ اوپر کی سطور میں بیان کیا گیا ہے وہ آئی ایس آئی کے ایک سابق افسر کی یاد داشتوں سے اقتباس تھا۔ کہتے کہ حرام زادہ کسی کا نہیں ہوتا چنانچہ آج آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ پوری پاکستانی قوم ان حرام زادوں کے ہاتھوں عاجز آئی ہوئی ہے۔ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سازشوں سے واقف ہونے کے باوجود ان حرام زادوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ پاکستانی سیاستداں، حکمراں طبقہ، فوجی جنرل اور چیف جسٹس آف پاکستان مل کر پاکستان کے بٹوارے کا تماشہ دیکھ رہے ہیں، لوگ مارے جا رہے ہیں، سڑکیں اور گلیاں عام انسانوں کے خون سے رنگین ہیں۔ رمق سےموسوم ایک جریدے کی خفیہ تحقیقات کے مطابق بہت ممکن ہے کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے افسران اور حکام خود حرام زادے نہ ہوں لیکن ان کے، حرام زادوں کی اولاد ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستانی فوج کئی مرتبہ اپنے ملک کو فتح کرکے ثابت کرچکی ہے کہ وہ حرام زادوں کی فوج ہے۔جنرل ضیا نے چھانٹ چھانٹ کر ایسے افسران کو آئی ایس آئی میں بھرتی کیا تھا کہ جن کے بارے میں انہیں پورا اطمنان تھا کہ وہ ان کی طرح ہی کسی انگریز یا ہندو کے نطفے سے پیدا ہوئے ہیں۔
 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
غریبوں کا ساتھ دو حکمرانوں کو مات دو
 
پاکستانی عوام زندہ باد فوج اور سیاستداں مردہ باد پاکستان زندہ باد آئی ایس آئی مردہ باد
 
پکی لیکس
[[زمرہ:عدالتی نظام]]