"پاکستانی نظم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Robot: Cosmetic changes
سطر 241:
کہ نفرت ہے امر ہے کہ طاقت ہے برحق<br />
کہ سچ ہارتا ہے <br />
احمد سھیل:
 
احمد سھیل کی نظموں میں خارج کی واردات ایک انوکھے انداز میں موضوعی لفظیات اور معنیات کے ساتھ مخصوص اظہار و حسیت کو خلق کرتی ھے۔ ان کی نظموں میں کہانیوں کا بیانیہ انداز ملتا ھے اور موضوع اور معروض کے علامتی انسلاک کو وہ ایک لڑی میں پرو کر مخصوص پیراہے میں ڈھال کراپنی شعری کائنات کو تشکیل دیتے ہیں۔ ان کی شاعری اپنی ھی آزاد دنیا میں سانس لیتی ھے۔ لہزا ان کی نظموں میں سکہ بند نظریات اور تحریکوں کے اعتباطی رویوں کا اثر نہیں ھے۔ احمد سھیل کے شعری مخاطے میں تاریخ کا گیان، فرد کی گمشدگی، معروض کی آگاہی اور کہیں کہیں عمرانیاتی رموز کا ابہام نظر آتا ھے جس میں تعصبات، سفاکی، تشدد اور منافقت میں جکڑے ھوئے فرد کی چیخیں سنائی دیتی ھیں۔
 
 
 
 
زمین کا داروغہ
احمد سہیل
 
جب میں اسے سمجھ نہ آیا
تو آگ پر تھوک دیا گیا
جب اسے وصیّت سمجھ نہ آئی
تو مجھے آگ کی سلاخوں میں جڑدیاگیا
میری بے خواب انکھیں
اور دھڑکتا ھوا دل لاوے کے نیچے دبادی گیئں
لاوے سے کوئی پھول نہیں کھلتا
سوائے خیال،وھم اور وسوسوں کے بھوگن بیلوں کے
میری سانسیں چھین کر
میرا نام شہیدوں کی دیوار پر لکھ دیا گیا
لڑکی دیوار کو دیکھ کرافسردہ ھوجاتی ھے
پھر چپکے سے رو دیتی ھے
وہ زوال کی دستاویز کی گواہ ھے
جیسے زمین کے داروغہ نے بغیر پڑھے آتشدان میں جلادیا
لڑکی دھوپ کی لکیر پر زندہ ھے
آبشار،دھوپ اور جسم پر بہتا سایہ
یہ گناہ ھے،بدعت یا قدرآفاقی
یا محض سردھواؤں کی ترنگ
زمین کا داروغہ،آتش فشان اور تاریخ کا سانپ
ہمیں ڈس لیتا ھے
وہ ھمارے خوابوں پر پہیرے بھیٹا دیتے ہیں
سوچوں کو نظربند کردیتے ہیں
خواب۔۔۔۔گشت پر نکلی فاحشہ ھے
جیسے دیکھ کر ہم ہمیشہ کے لیے بکھر جاتے ہیں
داروغہ کے پاس خوابوں کی ضمانت موجود ھے
اندیشے کا گمان
شہر میں دم توڑتی نیندوں کا کہرام
یاد کے خواب ناک منظر
دھواں،محبت اورجدائی کے خطوط
غروب ھوتی ھوئی رات اور بےرخی کا زہر
اور جدائی کے سسکتے نوحے
ہماری زندگیوں کے لیئے کافی ہیں
برزخ کا آخری شہر
یہاں سے آگے کا سفر ناپید ھے
قافلے یہاں سے لوٹ جاتے ہیں
یاان کی بوسیدہ یادشتوں میں پسپائیت لکھ دی جاتی ہیں
یاداشتیں تاریخ کا گمان ہیں
جو وھم کی زبان میں لکھی جاتی ہیں
اپنی محرومی کاگیان ازلی خاموشی ھے
جلاوطنی کی مفتوح سوچیں
ایک آدمی خوابوں میں روپوش ھے
قبر کے کتبے پر مرنے والے کا
جنون لکھا جاتا ھے نہ اس کی قربانی
نہ اس کی بے چین راتیں
کتبے ازیّت کی داستانیں ہیں
جو طلسم ھوشرباکے قصوں کی طرح ہمارے نصابوں میں شامل نہیں
میں تھمارے حافظے پر دھکتا انگارہ ھوں
میں تھمیں حفظ نہ کر سکا
علم الکلام میں اس کی تفسیر موجود نہیں
میں وہ ھوں جو تم نہیں
تم وہ ھو جو میں نہیں
ہم وہ ھونا چاہتے ہیں جو ہیں نہیں
گم شدہ آدمی ۔۔۔۔۔
وہ جاچکا ھے
اپنے خوابوں کو لکھے بغیر
خوابوں کو دفنائے
چھوکھٹ پر درد کا قفل لگائے بغیر'''دبیز متن'''
 
= مجموعی جائزہ =