"صحابی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 84:
غرض اگر از راہ احتیاط صحابی کی شان میں گستاخی کو کفر قرار نہ دیا جائے تب بھی اس کے قریب بہ کفر ہونے میں شبہ نہیں ؛اسی لیے سلف نے مشاجراتِ صحابہ پر گفتگو کرنے سے بھی منع کیا ہے ،افسوس کہ گزشتہ نصف صدی میں ایسی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں جن میں ناحق صحابہ کے اختلاف کو زیر بحث لایا گیا ہے اور آخر یہ بحث کہیں تو ناصبیت کے درجے کو پہنچ گئی ہے اور کہیں اس کی سرحد تشیع سے جاملی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا عمل خدمت نہیں بلکہ بد خدمتی ہے اور ایک ایسی راہ پر بے احتیاطی سے قدم رکھنا ہے جو شیشہ سے زیادہ نازک اور بال سے زیادہ باریک ہے، فالی اللہ المشتکی وبہ التوفیق۔
 
==صحابہ_کرام کی خصوصیات==
==خصوصیات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین==
 
عام افراد امت سے صحابہ کرام کو بچند وجوہ خاص امتیاز حاصل ہے :
 
عام افراد امت سے صحابہ کرام کو بچند وجوہ خاص امتیاز حاصل ہے :
(۱)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے اللہ تعالی نے ان کو ایسا بنادیا تھا کہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی تھی خلاف شرع ان سے کوئی کام یا گناہ صادر ہونا انتہائی شاذ ونادر تھا ان کے اعمال صالحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام پر اپنی جانیں اور مال واولاد سب کو قربان کرنا اور ہر کام پر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات کے اتباع کو وظیفہ زندگی بنانا اور اس کے لیے ایسے مجاہدات کرنا جس کی نظیر پچھلی امتوں میں نہیں ملتی ایسے بےشمار اعمال صالحہ اور فضائل وکمالات سے صحابہ کرام مزین تھے۔
 
(۲)اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعظمت اور ادنی گناہ کے صدور کے وقت ان کا خوف وخشیت اور فوراً توبہ کرنا بلکہ اپنے آپ کو سزا جاری کرنے کے لیے پیش کردینا اور اس پراصرار کرناروایات حدیث میں معروف ومشہور ہے، بحکم حدیث توبہ کرلینے سے گناہ مٹادیا جاتا ہے اور ایسا ہوجاتا ہے کہ کبھی گناہ کیا ہی نہیں۔
 
(۳)قرآنی ارشاد کے مطابق انسان کی حسنات بھی اس کی سیئات کا خود بخود کفارہ ہوجاتی ہیں:
"اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ"۔
سطر 94 ⟵ 97:
 
(۴)اقامت دین اور نصرت اسلام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی عسرت اور تنگدستی اور مشقت ومحنت کے ساتھ معرکے سر کرنا کہ اقوام عالم میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔
 
(۵)ان حضرات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان واسطہ اور رابطہ ہونا کہ باقی امت کو قرآن وحدیث اور دین کی تمام تعلیمات انھیں حضرات کے ذریعے پہنچی ان میں خامی اور کوتاہی رہتی تو قیامت تک دین کی حفاظت اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں اشاعت کا کوئی امکان نہیں تھا ،اس لیے حق تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت وبرکت سے ان کے اخلاق وعادات ان کی حرکات وسکنات کو دین کے تابع بنادیا تھا ،ان سے اول تو گناہ صادر ہی نہ ہوتا تھا اور اگر عمر بھر میں کبھی شاذ ونادر کسی گناہ کا صدور ہوگیا تو فوراً اس کا کفارہ توبہ استغفار اور دین کے معاملہ میں پہلے سے زیادہ محنت ومشقت اٹھانا ان میں معروف ومشہور تھا۔
 
(۶)حق تعالی نے ان کو اپنے نبی کی صحبت کے لیے منتخب فرمایا اور دین کا راستہ اور رابطہ بنایا تو ان کو خصوصی اعزاز بھی عطا فرمایا کہ اسی دنیا میں ان سب حضرات کی خطاؤں سے درگزر اور معافی اور اپنی رضا اوررضوان کا اعلان کردیا اور ان کے لیےجنت کا وعدہ قرآن میں نازل فرمادیا۔
 
(۷)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ہدایت فرمائی کہ ان سب حضرات سے محبت وعظمت علامت ایمان ہے اور ان کی تنقیص وتوہین خطرہ ایمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتکلیف دینےکا سبب ہے۔
ان وجوہات کی بنیاد پر امت کا یہ عقیدہ قرار پایا کہ ان کی طرف کسی عیب وگناہ کی نسبت نہ کریں ان کی تنقیص وتوہین کے شائبہ سے بھی گریز کریں۔