"سیاچن گلیشیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.7.3) (روبالہ جمع: uk:Сіачен
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
سیاچن بلتی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ہیں <big>جنگلی گلاب</big> اس گلیشیر پر یہ پودا زیدہ اگتا ہے اسلۓ بلتی لوگ اسے سیاچن کہتے ہیں۔ یہ بلتستان کے ضلع گانچھے میں واقع ہے جہاں سلتورو نام کے علاقے سے اسکو راستہ جاتا ہے <br />
سیاچن کا گلیشیر جو دنیا کا سب سے بلند میدان جنگ ہے سن 1984انڈیا اور پاکستان کے بیچ تنازع کا سبب بناہوا ہے۔ 1984ء میں بھارت کی فوجیوں نے اس پر قبضہ کیا تھا جس کا مقصد پاکستان اور چین کو فوجی اعتبار سے ہراساں کرنا تھا۔ جس وقت بھارت کی فوجوں نے اس پر قبضہ کیا تھا، اس وقت پاکستان کے سابق صدر [[محمد ضیاء الحق]] مرحوم نے کہا تھا کہ ”اس جگہ تو گھاس بھی نہیں اگتی۔“ اس کا مقصد یہ تھا کہ دفاعی و معاشی اعتبار سے سیاچن کی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، پاکستان کی عسکری قیادت کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ بھارت کا سیاچن پر ناجائز قبضہ خالی کرانا بہت ضروری ہے تو دوسری طرف ڈپلومیسی کے ذریعہ عالمی برادری کو سیاچن پر بھارت کے ناجائز اور غیرقانونی قبضے سے آگاہ بھی کرایا جائے تاکہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے بھارت اس جگہ کو خالی کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اگر پاکستان کی عسکری قیادت فوری طور پر اس جگہ بھارت کی جارحیت کو روکنے کے سلسلے میں اقدامات نہیں اٹھاتی تو بھارتی فوجی اسکردو تک پہنچ سکتے تھے اور ان کی جارحیت کے قدم مزید بڑھتے رہتے۔
== سیاچن تنازع ==
سیاچن حقیقتا پاکستان کا حصہ ہے اور دنیا کے تمام نقشوں میں اسے پاکستانی علاقوں میں دکھایا گیا ہے لیکن 1984انڈیا نے کی فوجیوں نے اس پر قبضہ کیا تھا جس کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان رابطے کو کاٹنا تھا۔ <br />
سیاچن پر بھارت نے 1984ء میں قبضہ کیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس بلند ترین جگہ سے بھارت کا قبضہ ختم کرانے کے سلسلے میں بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے درمیان کئی مرتبہ بات چیت ہو چکی ہے جس میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی شامل ہے، لیکن ہنوز اس تنازع کا کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔<br />
 
سیاچن گلیشیئر پر گرمیوں میں بھی درجہ حرارت منفی دس کے قریب رہتا ہے۔جبکہ سردیو ں میں منفی پچاس ڈگری تک جاپہنچاتا ہے۔جس کے نتیجے میں یہاں سال بھر کسی قسم کی زندگی کے پنپنے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔جو فوجی وہاں تعینات ہوتے ہیں ان کے لیے اس درجہ حرارت پر کھانا پینا ہی نہیں سانس لینا تک ایک انتہائی دشوار کام ہے۔ سردی کی شدت کی بنا پر فوجیوں کی اموات اور ان کے اعضا کے ناکارہ ہوجا نا ایک معمول کی بات ہے۔<br />
 
سیاچن گلیشیئر پر گرمیوں میں بھی درجہ حرارت منفی دس کے قریب رہتا ہے۔جبکہ سردیو ں میں منفی پچاس ڈگری تک جاپہنچاتا ہے۔جس کے نتیجے میں یہاں سال بھر کسی قسم کی زندگی کے پنپنے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔جو فوجی وہاں تعینات ہوتے ہیں ان کے لیے اس درجہ حرارت پر کھانا پینا ہی نہیں سانس لینا تک ایک انتہائی دشوار کام ہے۔ سردی کی شدت کی بنا پر فوجیوں کی اموات اور ان کے اعضا کے ناکارہ ہوجا نا ایک معمول کی بات ہے۔
 
اس بلند ترین جنگی محاذ پر پاکستان کے سپوت بے مثال جرات کا مقابلہ کر کے جہاں بھارت کی جارحیت کو روکے ہوئے ہیں، وہیں وہ بے رحم موسم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر رہے ہیں۔ اب تک پاکستان کے سینکڑوں سپاہیوں نے اس محاذ پر بھارتی قبضے کو روکنے اور سخت ترین سردی، برفانی تودوں اور ہواؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ہے۔
 
سیاچن پر بھارت نے 1984ء میں قبضہ کیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس بلند ترین جگہ سے بھارت کا قبضہ ختم کرانے کے سلسلے میں بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے درمیان کئی مرتبہ بات چیت ہو چکی ہے جس میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی شامل ہے، لیکن ہنوز اس تنازع کا کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔
 
سیاچن کے محاذ پر صرف پاکستان کا ہی نقصان نہیں ہو رہا ہے بلکہ بھارتی فوجی بھی مارے جا رہے ہیں۔ ہر سال جنگی محاذ پر بھارت 10 ارب روپے خرچ کر رہا ہے جبکہ پاکستان پر بھی اس کی وجہ سے مالی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس طرح دونوں ممالک اس جگہ بے مصرف جنگ پر اپنے مالی و جانی وسائل صرف کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس جنگی ساز و سامان اور اس کے استعمال سے ماحول پر مہلک اثرات پڑ رہے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ دونوں طرف سے فوجی کارروائیوں کی وجہ سے اس جگہ آبی حیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ نشیب میں واقع درختوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ گلیشیئر بڑی تیزی کے ساتھ پگھل رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں سیلاب تواتر کے ساتھ آ رہے ہیں۔ بھارت کے بعض علاقے بھی زیادہ تیزی سے برف پگھلنے کی صورت میں سیلاب کی زد میں آ چکے ہیں۔