اس حدیث سے علاج اور دوا کے ترک پر روشنی پڑتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس کا صرح اس طرح کا ہو کہ علاج ارواح میں دعا سے جو کام ہوتا ہے، وہ اطباء کے علاج سے نہیں ہوتا اور یہ کہ دعاء کا اثر اوت تاثیر اور اس کا عمل اور طبیعت کا اس سے متاثر ہونا اور اس کا انفعال قبول کرنا دواؤں سے کہیں بڑھ کر ہے۔
تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایسے مرض کو پورے استقلال و صبر سے برداشت کرنے پر جنت کا وعدہ فرمایا اور دعاء فرمائی کہ وہ عریاں نہ ہونے پائے مگر اس عورت نے صبر اور عریاں نے ہونے کو پسند کیا۔