"پارسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 23:
سکھر میں پارسیوں کا ٹیمپل کئی سالوں سے ویران پڑا ہے۔ عمارت کے ماتھے پر ٹیمپل کی تعمیر کا سال انیس سو تئیس اور ماما پارسی لکھا ہوا ہے۔
 
کراچی کی پارسی کمیونٹی کے اہم رکن ادیشن مارکر نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ما ما پارسی کے نام سے کراچی میں پارسیوں کے سکول ہوا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر میں اس کی کسی برانچ کا انہیں علم نہیں۔ ہمارے والدعمارت کے چوکیدار ہوا کرتے تھے مگر ہم نے اب پارسیوں سے تنخواہ لینی چھوڑ دی ہے: خورشید
ادیشن مارکر کے مطابق پارسی کمیونٹی کے تاجر زمانہ قدیم سے سکھر اور دوسرے شہروں میں آباد تھے مگر پچاس کی دہائی کے بعد وہ نقل مکانی کرکے بیرون ملک چلے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر کے سابق پارسیوں کی اولاد اب کینیڈا، سوئٹزرلینڈ اور کئی دیگر ممالک میں مقیم ہے۔ سکھر کی ماما پارسی عمارت شہر کے قلب میں واقع پرانی گوشت مارکیٹ کے قریب وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی۔اس کی چاردیواری کے اندر ایک ٹیمپل ہے، جسے مقامی لوگ انگاری کہتے ہیں۔ اس پر کئی سالوں سے تالا لگا ہوا ہے۔ عمارت کے موجودہ رہائشی خورشید بتاتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ٹیمپل کے اندر آگ جلا کر عبادت کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ان کا کہنا ہے کہ پارسی سال میں دو یا ایک مرتبہ چند گھنٹوں کے لیے آتے ضرور ہیں مگر ہمیں ٹیمپل کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔ سکھر میں اکثریتی مسلمانوں کی مساجد کے ساتھ ساتھ اقلیتی ہندو کمیونٹی کے چھوٹے بڑے دس کے قریب مندر ہیں جبکہ عیسائی کمیونٹی کے بھی دو بڑے قدیمی چرچ ہیں جن کو شام ہوتے ہی روشن کیا جاتا ہے مگر پارسیوں کی شہر میں واحد عبادتگاہ ہے جو ہر شام اندھیرے میں کاٹتی ہے۔ کوئٹہ سے منسلک پارسیوں کی ایک انجمن کے زیر انتظام سکھر کی یہ عبادگاہ اب منہدم ہونے کے قریب پہنچی ہے۔ مقامی رہائشی خورشید کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشوں کے دوران عمارت کی چودیواری گرگئی جسے ان لوگوں نے اپنے خرچے سے مرمت کروایا۔ خورشید کا کہنا تھا کہ ’ہم سات کے قریب خاندان پشتوں سے رہائش پذیر ہیں۔اب اگر مرمت کے کام پر کوئی خرچہ لگتا ہے تو ہم اس لیے خوشی سے کر دیتے ہیں کیونکہ پارسیوں نے کبھی ہم سے کرایہ وصول نہیں کیا۔‘ خورشید نے واضع کیا کہ عمارت پر ان کا کوئی قبضہ نہیں ہے اور وہ صرف نگہداشت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پارسیوں کے مندر کی چاردیواری کے اندر ایک اور عمارت دھرم شالہ کی ہے جس کی دیواروں پر خان بہادر مارکر پارسی دھرم شالہ لکھا ہوا ہے۔عمارت کے حالیہ مکینوں کا کہنا ہے ان کے بڑے بزرگوں نے ان کو بتایا تھا کہ خان بہادر مارکر پارسی کی بیوہ یہ دھرم شالہ چلاتی تھیں۔ کوئٹہ میں مقیم سائرس پارسی سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں بتایا کہ وہ کبھی سکھر نہیں گئے البتہ ان کی کمیونٹی کے دوسرے افراد کا آنا جانا رہتا ہے۔ سندہ کےمقبول شاعر اور سکھر کی قدیمی عمارتوں کو فوٹوز میں محفوظ رکھنے کے شائق ایاز گل نے بی بی سی کو بتایا کہ پارسی سکھر کے ماضی قریب کا حصہ رہے ہیں اوران کے یادگار اور قدیمی عمارتوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’گو کہ پارسی کمیونٹی اب سکھر میں رہائش پذیر نہیں مگر ان کے ورثے کو کسی ایک دو افراد کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ ان کو محفوظ بنایا جائے تا کہ آنے والے کل میں سکھر کا شاندار ماضی زندہ رہ سکے۔‘پاکستان میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بہت ہی کم تعداد میں رہنے والی اقلیتوں میں شمار ہوتی ہے۔ کراچی کے ادیشن مارکر کے اندازے کے پاکستان میں پارسیوں کی کل تعداد دو ہزار کے قریب ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں پارسی پاکستان کے صرف تین بڑے شہروں کراچی،کوئٹہ اور لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔
ہمارے والدعمارت کے چوکیدار ہوا کرتے تھے مگر ہم نے اب پارسیوں سے تنخواہ لینی چھوڑ دی ہے: خورشید
 
ادیشن مارکر کے مطابق پارسی کمیونٹی کے تاجر زمانہ قدیم سے سکھر اور دوسرے شہروں میں آباد تھے مگر پچاس کی دہائی کے بعد وہ نقل مکانی کرکے بیرون ملک چلے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر کے سابق پارسیوں کی اولاد اب کینیڈا، سوئٹزرلینڈ اور کئی دیگر ممالک میں مقیم ہے۔
 
سکھر کی ماما پارسی عمارت شہر کے قلب میں واقع پرانی گوشت مارکیٹ کے قریب وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی۔اس کی چاردیواری کے اندر ایک ٹیمپل ہے، جسے مقامی لوگ انگاری کہتے ہیں۔ اس پر کئی سالوں سے تالا لگا ہوا ہے۔
 
عمارت کے موجودہ رہائشی خورشید بتاتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ٹیمپل کے اندر آگ جلا کر عبادت کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ان کا کہنا ہے کہ پارسی سال میں دو یا ایک مرتبہ چند گھنٹوں کے لیے آتے ضرور ہیں مگر ہمیں ٹیمپل کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔
پارسیوں کے مندر کی چاردیواری کے اندر ایک اور عمارت دھرم شالہ کی ہے جس کی دیواروں پر خان بہادر مارکر پارسی دھرم شالہ لکھا ہوا ہے۔ خان بہادر مارکر پارسی کی بیوہ یہ دھرم شالہ چلاتی تھیں
 
سکھر میں اکثریتی مسلمانوں کی مساجد کے ساتھ ساتھ اقلیتی ہندو کمیونٹی کے چھوٹے بڑے دس کے قریب مندر ہیں جبکہ عیسائی کمیونٹی کے بھی دو بڑے قدیمی چرچ ہیں جن کو شام ہوتے ہی روشن کیا جاتا ہے مگر پارسیوں کی شہر میں واحد عبادتگاہ ہے جو ہر شام اندھیرے میں کاٹتی ہے۔
 
کوئٹہ سے منسلک پارسیوں کی ایک انجمن کے زیر انتظام سکھر کی یہ عبادگاہ اب منہدم ہونے کے قریب پہنچی ہے۔
 
مقامی رہائشی خورشید کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشوں کے دوران عمارت کی چودیواری گرگئی جسے ان لوگوں نے اپنے خرچے سے مرمت کروایا۔
 
خورشید کا کہنا تھا کہ ’ہم سات کے قریب خاندان پشتوں سے رہائش پذیر ہیں۔اب اگر مرمت کے کام پر کوئی خرچہ لگتا ہے تو ہم اس لیے خوشی سے کر دیتے ہیں کیونکہ پارسیوں نے کبھی ہم سے کرایہ وصول نہیں کیا۔‘
 
خورشید نے واضع کیا کہ عمارت پر ان کا کوئی قبضہ نہیں ہے اور وہ صرف نگہداشت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔
 
پارسیوں کے مندر کی چاردیواری کے اندر ایک اور عمارت دھرم شالہ کی ہے جس کی دیواروں پر خان بہادر مارکر پارسی دھرم شالہ لکھا ہوا ہے۔عمارت کے حالیہ مکینوں کا کہنا ہے ان کے بڑے بزرگوں نے ان کو بتایا تھا کہ خان بہادر مارکر پارسی کی بیوہ یہ دھرم شالہ چلاتی تھیں۔
 
کوئٹہ میں مقیم سائرس پارسی سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں بتایا کہ وہ کبھی سکھر نہیں گئے البتہ ان کی کمیونٹی کے دوسرے افراد کا آنا جانا رہتا ہے۔
 
سندہ کےمقبول شاعر اور سکھر کی قدیمی عمارتوں کو فوٹوز میں محفوظ رکھنے کے شائق ایاز گل نے بی بی سی کو بتایا کہ پارسی سکھر کے ماضی قریب کا حصہ رہے ہیں اوران کے یادگار اور قدیمی عمارتوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’گو کہ پارسی کمیونٹی اب سکھر میں رہائش پذیر نہیں مگر ان کے ورثے کو کسی ایک دو افراد کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ ان کو محفوظ بنایا جائے تا کہ آنے والے کل میں سکھر کا شاندار ماضی زندہ رہ سکے۔‘
 
پاکستان میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بہت ہی کم تعداد میں رہنے والی اقلیتوں میں شمار ہوتی ہے۔ کراچی کے ادیشن مارکر کے اندازے کے پاکستان میں پارسیوں کی کل تعداد دو ہزار کے قریب ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں پارسی پاکستان کے صرف تین بڑے شہروں کراچی،کوئٹہ اور لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔
 
**Kulke, Eckehard: ''The Parsees in India: a minority as agent of social change.'' München: Weltforum-Verlag (= Studien zur Entwicklung und Politik 3), ISBN 3-8039-00700-0