"ٹكور" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ:حذف بین الویکی و موجود در ویکی ڈیٹا: [[d:{0}]]36 بین الویکی
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 7:
 
اس کے علاوہ پاکستان، جہاں "غیر ملکی فلموں" ہالی وڈ کی فلموں کے ساتھ متبادل ہیں میں ٹكور کے زیادہ تر اردو میں کیا جاتا ہے۔ یہ ملک کی قومی زبان ہے اور تکمیل شدہ کام کو ملک بھر کے بڑے شہروں میں جاری ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کے باعث عرصہ سے انگریزی اور دوسری زبان کی فلموں کو انڈیا میں اردو زبان میں ڈب کیا جارہا ہے جسے وہ ہندی زبان کا نام دیتے ہیں۔ ڈبنگ کے دوران عین لفظی ترجمہ پر انحصار نہیں کیا جاتا بلکہ مناسب تبدیلیاں بھی کردی جاتی ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ ڈبنگ کس طرح ہوتی ہے؟ کس طرح فلم میں باتوں کی آوازیں حذف کرکے دوسری زبان میںضم کرلی جاتی ہیں جبکہ میوزک ایفیکٹس اور پس منظر موسیقی اصلی فلم کی طرح رہتی ہے؟ماہرین کے نزدیک ٹکوریایا عرف عام میں ڈبنگ Dubbing ایک فلم یا ٹیلی ویژن اصل شوٹنگ کے بعداصل آواز کی جگہ دیگر زبان میں ریکارڈنگ کا نام ہے۔ ہندوستان میںغیر ملکی فلموں ہالی وووڈ کی فلموں کے ساتھ متبادل ہیں، ٹکور میں زیادہ تر اہم 3 اہم ہندوستانی زبانوں میں شامل کیا جاتا ہے جن میںہندی‘تمل اور تیلگو شامل ہیں۔تکمیل شدہ اکثر انگریزی زبان میٹروپولیٹن علاقوں میں جاری کیا جا رہا ہے اصل کے ساتھ متعلقہ ریاستوں (جہاں انگریزی دخل کم ہے، ایسے شہروں اور کم درجے کی بستیوں میں کام جاری ہے۔ ہندوستان میں ڈبنگ کا کاکام صنعت میں شامل ہے جس کا ڈاٹاہندوستان کے مقامی میگزین میں شائع کیا جاتا ہے۔پاکستان میں آبادی کا تقریبا 60 فیصد کی مادری زبان پنجابی پنجابی ہے۔ لہذا پنجابی فلموں نے اردو فلموں کے مقابلے میں زیادہ کاروبار ہے۔ فلم کمپنیوں کو پنجابی فلموں اور دوبارہ ریکارڈ اردو میں فلمسازی ایک’ڈبل ورژن‘ کے طور پر جاری ہے۔اس کے علاوہ پاکستان میںغیر ملکی فلموں کوہالی ووڈ کی فلموں کے ساتھ متبادل ہیں ۔یہاں زیادہ تر ٹکور اردو میں کی جاتا ہے جبکہ ہندوستان میں جیمز بانڈ سے لے کر ہر بڑی ایکشن فلم کا ہندی ایڈیشن ریلیز ہوتا ہے۔
 
پس پردہ کون بولتا ہے؟
آج کے بہت سے لوگ اس وقت اسکول یا کالج میں ہوں گے جب ہندوستان میں 1993 کے دوران ’جراسک پارک‘ ریلیز ہوئی تھی۔رواں برس کے دوران ایک بار پھر یہ فلم 3 ڈی میں ریلیز ہو رہی ہے لیکن 1993 میں اسے کس زبان میں دیکھاگیا تھا؟ انگریزی یا ہندی میں؟اگر ہندی میں یہ فلم دیکھی گئی تھی تو آپ بھی تاریخ کا حصہ ہیں کیونکہ یہ ہندی میں ڈب ہونے والی پہلی ہالی ووڈ فلم تھی۔اس قصہ کو اب 20 سال ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں ہندوستان کی ڈبنگ انڈسٹری میں بھی بہت تبدیلی آئی ہے۔آج بہت سی ہالی ووڈ فلمیں ہندی اور دیگر زبانوں میں ڈب ہوتی ہیں۔ جیمز بانڈ سمیت ہر بڑی ایکشن فلم کا ہندی ایڈیشن ریلیز ہوتا ہے۔گزشتہ 20 سال میں ڈبنگ انڈسٹری میں کیا کچھ بدلا ہے‘ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے ان لوگوں کی سننی ہوگی جو گزشتہ 20 سال سے یہ کام سرانجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔ان میں سب سے پہلا نام ہے شکتی فلمز کے اشم سامنت کا۔ اشم مشہور فلم ساز شکتی سامنت کے بیٹے ہیں۔ اشم کے سٹووڈیو میں ہی ’جراسک پارک‘ کی ہندی میں ڈبنگ ہوئی تھی۔
ڈبنگ کا موقع کیسے ملا؟
اس وقت سے آج تک ان کے اسٹووڈیو میں ’دی لوسٹ ورلڈ‘، ’دی ورلڈ از ناٹ انف‘، ’گولڈن آئی‘، ’مشن امپاسبل‘، ’جی آئی جو‘ اور ’آئرن مین‘ جیسی فلموں کی ڈبنگ ہو چکی ہے۔پہلی بار ڈبنگ کا موقع کیسے ملا؟ اس سوال کے جواب میں اشم کہتے ہیں کہ ’ہمارے ایک دوست لندن میں بی بی سی میں کسی کام سے گئے تھے۔ وہاں ان کی ملاقات یونائیٹڈ انٹرنیشنل پکچرز کے ایک اہلکار سے ہوئی۔ باتوںہی باتوں میں جب انہوں نے ان سے پوچھا کہ ہندوستان میں کون ہے جو ہالی ووڈ فلموں کی ڈبنگ کر سکتا ہے، تو انہوں نے ہمارا ذکر کیا۔ اس طرح یو آئی پی نے ہم سے رابطہ کیا اور ہمیں ’جراسک پارک‘ کو ہندی میں ڈب کرنے کا کام مل گیا۔‘چونکہ یہ پہلی ہالی ووڈ فلم تھی، جو ہندی میں ڈب ہو رہی تھی، اس لئے یو آئی پی نے کچھ شرائط بھی رکھیں جیسے کہ ساو�¿نڈ مکسنگ ’ڈولبی‘ میں ہونی چاہئے۔ اس کیلئے خاص طور پر اشم نے اپنے اسٹووڈیو کو ڈولبی ا سٹووڈیو میں تبدیل کیا۔
شروع میں لگا مشکل:
اشم کے بقول’جراسک پارک‘ کے ہندی ترجمے کا کام انہوں نے ہندی ٹی وی ڈراموں کے مشہور مصنف میر منیر کے سپرد کیا۔میر منیر نے بتایا کہ جب اشم نے انہیں پہلی بار اس کام کیلئے کہا تو انہوں نے فلم کا منظرنامہ طلب کیا جسے پڑھ کر انہیں محسوس ہوا کہ یہ تو بہت مشکل موضوع ہے۔ پھر انہوں نے فلم بھی دیکھی۔ اس کے بعد بھی انہیں لگا کہ یہ کام شاید وہ نہ کرسکیں لیکن اشم کے کہنے پر انہوں نے یہ کام ہاتھ میں لیا اور سب سے پہلے انہوں نے فلم کا انگریزی اسکرپٹ6 یا 7 بار پڑھا اور 3تا4 مرتبہ فلم بھی دیکھی۔میر کہتے ہیں کہ اتنا سب کرنے کے بعد انہیں کچھ کچھ سمجھ آنے لگا کہ فلم کس طرح لکھی جا سکتی ہے۔ ’اس کے بعد ہم نے فلم کا پہلا ڈرافٹ لکھا۔ ڈبنگ میں تو ’لپ سنک‘ سب سے ضروری ہوتا ہے لیکن ہم نے سوچا کہ ایک بار خاکہ تیار ہو جائے، ’لپ سنک‘ کے بارے میں پھر سوچ لیں گے۔
کیسے ہوتی ہے ڈبنگ؟
خاکہ تیار ہونے کے بعد ہم بس ٹی وی کے آگے بیٹھ کر بار بار فلم دیکھتے تھے، درمیان میں روکتے رہتے تھے، دیکھتے تھے کہ کس نے کیا بولا ہے اور جو ہم نے لکھا ہے وہ اس سے ملتا بھی ہے یا نہیں۔‘اس کے بعد اصل ڈبنگ کی باری آئی۔ جب ڈبنگ شروع ہوئی تومحسوس ہوا کہ اتنی محنت کے بعد بھی چیزمیسر نہیںہے۔ کہیں انگریزی کے مکالمے بہت چھوٹے تھے جبکہ ہندی مکالمے طویل ہو رہے تھے تو کہیں اس کے برعکس ہو رہا تھا۔‘جتنی مشکل میر منیر کو مکالمے لکھنے میں آئی اتنی ہی مشکل ڈبنگ آرٹسٹ شکتی سنگھ کو بھی ہوئی۔ شکتی سنگھ آج جیمز بانڈ کے ہیرو ڈینیل کریگ سے لے کر جی آئی جو کے بروس ولس تک کی آوازمیں پوشیدہ ہیں۔شکتی سنگھ کے مطابق ’ان 20 برسوں میں بہت کچھ بدلا ہے۔ ٹیکنالوجی تو بہت ہی بدل گئی ہے۔ اس وقت لوپ کٹنگ سسٹم ہوتا تھا۔ تب لپ سنک بھی بہت مشکل ہوتا تھا۔ لیکن اب ٹیکنالوجی اتنا آگے پہنچ گئی ہے کہ اگر آپ ’آو�¿ٹ سنک‘ بھی ہیں تو مشین سب ’سنک‘ کر دیتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہالی ووڈ کی ایک بڑی فلم ہے جبکہ ہندی اور کئی دیگر ہندوستانی زبانوں میں ریلیز ہوتی ہے تو ایسی صورت میں فلم میں ایک ڈبنگ آرٹسٹ کی آواز کا کیا کردار ہے؟اس کے جواب میں شکتی سنگھ کہتے ہیںکہ ’ڈبنگ آرٹسٹ کی آواز کا کردار ایک اداکار کی ہی طرح ہوتا ہے لیکن ہندوستان میں ڈبنگ آرٹسٹ کو وہ اہمیت نہیں ملتی جتنی ہالی ووڈ میں ملتی ہے۔ یہاں تو پرووڈوسر ڈبنگ آرٹسٹ پر پیسے خرچ کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔ دوسری جانب اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ’ ڈبنگ آرٹسٹ‘ کوبھلے ہی پیسے کم ملتے ہوں لیکن ہندوستان میں ڈب فلموں کا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہالی ووڈ فلمیں‘ خاص طور پر ایکشن فلمیں ہندوستانی شائقین میں کافی مقبول ہیں۔
==حوالہ جات==
{{reflist}}