"حنفی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 30:
 
== فقہ کی ضرورت ==
 
دین میں کچھ باتیں تو بہت آسان هوتی هیں جن کے جاننے میں سب خاص وعام برابر هیں ، جیسے وه تمام چیزیں جن پرایمان لانا ضروری هے یا مثلا وه احکام جن کی فرضیت کو سب جانتے هیں ، چنانچہ هر ایک کو معلوم هے کہ نماز ، روزه ، حج ، زکوه ، ارکان اسلام میں داخل هیں ، لیکن بہت سارے مسائل ایسے هیں جن کو اهل علم قرآن وحدیث میں خوب غور وخوض کے بعد سمجھتے هیں ، اور پھر ان علماء کے لیئے بھی یہ مسائل سمجھنے کے لیئے شرعی طور پر ایک خاص علمی استعداد کی ضرورت هے ، جس کا بیان اصول فقہ کی کتابوں میں بالتفصیل مذکور هے ، بغیر اس خاص علمی استعداد کے کسی عالم کو بھی یہ حق نہیں هے کہ کسی مشکل آیت کی تفسیر کرے ، یاکوئ مسئلہ قرآن وحدیث سے نکالے ، اور جس عالم میں یہ استعداد هوتی هے اس کو اصطلاح شرع میں " مجتهد " کہا جاتا هے ، اور اجتهاد کے لیئے بہت سارے سخت ترین شرائط هیں ، ایسا نہیں هے کہ هر کس وناکس کو اجتهاد کا تاج پہنایا هوا هے ۔ لہذا عامی شخص کو یہ حکم هے کہ وه مجتهد کی طرف رجوع کرے ، اور مجتهد کا فرض هے کہ وه جو مسئلہ بھی بیان کرے کتاب وسنت میں خوب غور وخوض اور کامل سعی وتلاش کرکے اولا اس مسئلہ کو سمجھے پھر دلیل کے ساتھ اس پر فتوی دے ۔
اجتہاد وفتوی کا یہ سلسلہ عهد نبوی سے شروع هوا ، بہت سے صحابہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی اجازت سے فتوی دیا کرتے اور سب لوگ ان کے فتوی کے مطابق عمل کرتے ، صحابہ وتابعین کے دور میں یہ سلسلہ قائم رها ، هر شہر کا مجتهد ومفتی مسائل بیان کرتے اور اس شہر کے لوگ انهی کے فتوی کے مطابق دین پر عمل کرتے، پھر تبع تابعین کے دور میں ائمہ مجتهدین نے کتاب وسنت اور صحابہ وتابعین کے فتاوی کو سامنے رکھ کر زندگی کے هر شعبہ میں تفصیلی احکام ومسائل مرتب ومدون کیئے ، ان ائمہ میں اولیت کا شرف امام اعظم ابوحنیفہ کوحاصل هے اور ان کے بعد دیگر ائمہ هیں ۔
چونکہ ائمہ اربعہ نے زندگی میں پیش آنے والے اکثر وبیشتر مسائل کو جمع کردیا ، اور ساتھ هی وه اصول وقواعد بھی بیان کردیئے جن کی روشنی میں یہ احکام مرتب کیئے گئے هیں ، اسی لیئے پورے عالم اسلام میں تمام قاضی ومفتیان انہی مسائل کے مطابق فتوی وفیصلہ کرتے رهے اور یہ سلسلہ دوسری صدی سے لے کر آج تک قائم ودائم هے ۔
 
== فقہ کی حیثیت ==
 
جس طرح فہم قرآن کے لیئے حدیث ضروری هے ، فہم حدیث کے لیئے" فقه " کی ضرورت هے ، اگرقرآن سمجھنے کے لیئے حضور صلی الله علیہ وسلم کی ضرورت هے ، تو آپ کی حدیث سمجھنے کے لیئے آپ کے خاص شاگرد صحابہ کرام اور ان کے شاگرد تابعین وتبع تابعین رضی الله عنهم کی ضرورت هے ، اگرحدیث قرآن کی تفسیر هے تو " فقه " حدیث کی شرح هے ، اور فقہاء کرام نے دین میں کوئی تغیر تبدل نہیں کیا بلکہ دلائل شرعیہ کی روشنی احکامات ومسائل مستنبط ( نکال ) کرکے همارے سامنے رکھ دیئے ، جو کام همیں خود کرنا تھا اور هم اس کے لائق و اهل نہ تھے وه انهوں نے هماری طرف سے همارے لیئے کردیا " فجزاهم الله عنا خیرالجزاء "