امام ابو حنیفہ [[قرآن]] مجید اور [[حدیث]] مبارکہ کی روشنی میں قیاس اور رائے سے کام لے کر [[اجتہاد]] اور استنباط مسائل کرتے ہیں۔ امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں:
اِنِّیْ"إني آخُذُآخذ بکتاببكتاب اللّٰہالله اذاإذا وجدتہ،وجدته، فما لم اجدہأجده فیہفيه اخذتأخذت بسنة رسول اللّٰہالله صلى الله عليه وسلم والآثار الصحاح عنہعنه التیالتي فشت فیفي ایدی الثقات عنأيدي الثقات، فاذافإذا لم اجدأجد فیفي کتابكتاب اللّٰہالله ولا سنةوسنة رسول اللّٰہالله اخذتصلى بقولالله اصحابہعليه منوسلم شئتُأخذت وادَعُبقول قولَأصحابه، آخذ بقول من شت،شئت، ثم لا آخرُجأخرج عن قولہمقولهم إلى قول غيرهم. فإذا انتهى الأمر إلى إبراهيم والشعبي وابن المسيب (وعدّد رجالاً)، فلي أن أجتهد الیكما قولِاجتهدوا غیرہم".
سبحان الله الإمام الأعظم أبي حنيفة رحمہ الله کے مذهب کے اس عظیم اصول کوپڑهیں ، فرمایا میں سب سے پہلے کتاب الله سے( مسئلہ وحکم ) لیتا هوں ، اگرکتاب الله میں نہ ملے تو پھر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث صحیحہ کی طرف رجوع کرتا هوں ، اور اگر كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم میں بھی نہ ملے تو پھر میں اقوال صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتا هوں اور میں صحابہ کرام کے اقوال سے باهر نہیں نکلتا ، اور جب معاملہ إبراهيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پھر میں بھی اجتهاد کرتا هوں جیسا کہ انهوں نے اجتهاد کیا ۔
واذا انتہی الامرُ الی ابراہیم، والشعبی، والحسن، وعطاء، وابن سیرین، وسعید بن المسیب - وعدَّدَ رجالا - فقوم قد اجتہدو فلی ان اجتہدَ کما اجتہدوا
یہ هے وه عظیم الشان اصول وبنیاد جس کے اوپر فقہ حنفی قائم هے ،
(الانتقاء للامام الحافظ ابن عبدالبر مع تعلیق الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمة الله عليه، ص: ۲۶۴-۲۶۵)
تو امام اعظم کے نزدیک قرآن مجید فقہی مسائل کا پہلا مصدر هے،پھردوسرا مصدر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث صحیحہ هیں حتی کہ امام اعظم دیگرائمہ میں واحد امام هیں جو ضعیف حدیث کو بھی قیاس شرعی پرمقدم کرتے هیں جب کہ دیگرائمہ کا یہ اصول نہیں هے ، پھر تیسرا مصدرامام اعظم کے نزدیک صحابہ کرام اقوال وفتاوی هیں ،اس کے بعد جب تابعین تک معاملہ پہنچتا هے تو امام اعظم اجتهاد کرتے هیں ،کیونکہ امام اعظم خود بھی تابعی هیں ،
ترجمہ: میں (شرعی احکام میں) اللہ کی کتاب پر عمل کرتا ہوں جب وہ احکام مجھے کتاب الٰہی میں مل جائیں، اور جو احکام مجھے قرآن میں نہیں ملتے تو پھر سنت رسول اللّٰہ اور ان صحیح آثار پر عمل کرتا ہوں جو ثقہ راویوں سے منقول ہوکر ثقہ راویوں میں پھیل چکے ہیں، اوراگر کتاب الٰہی اورحدیث نبوی (دونوں) میں نہیں پاتا تو آپ صلى الله عليه وسلم کے صحابہ کے اقوال میں سے جسے چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جسے چاہتاہوں چھوڑ دیتا ہوں (البتہ حضرات صحابہ کے قول سے باہر نہیں جاتا کہ) سارے صحابہ کے قول کو چھوڑ کر دوسرے کے قول کو اختیار کرلوں۰
اور جب نوبت ابراہیم نخعی، عامر،شعبی، محمد بن سیرین، حسن بصری، عطاء اور سعید بن مسیب (رحمہم اللہ) وغیرہ متعدد حضرات تابعین کے نام شمار کئے) تک پہنچتی ہے تو ان حضرات نے اجتہاد کیا لہٰذا مجھے بھی حق ہے کہ ان حضرات کی طرح اجتہاد کروں۔ یعنی ان حضرات کے اقوال پر عمل کرنے کی پابندی نہیں کرتا بلکہ ان ائمہ مجتہدین کی طرح خدائے ذوالمنن کی بخشی ہوئی اجتہادی صلاحیتوں کو کام میں لاتا ہوں اور اپنے فکر واجتہاد سے پیش آمدہ مسائل کو حل کرتا ہوں۔