"گوانتانمو قید خانہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 4:
ذرائع ابلاغ میں ایک لطیفہ شائع ہوا جو خبر کی شکل میں تھا ۔’گوانتانامو بے میں قیدیوں اور محافظوں میں جھڑپیں‘ کے عنوان سے بتایا گیا کہ ’امریکی جیل گوانتانامو بے میں بعض قیدیوں کو مشترکہ کمروں سے نکال کر دوسرے کمروں میں منتقل کرنے کے مسئلے پر قیدیوں اور محافظوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں‘ ابکہ معمولی عقل فہم رکھنے والا شخص بھی اسے بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ نائن الیون کے ذریعہ چھیڑی گئی اسلام مخالف جنگ میں کے شکار قیدی بھوک ہڑتال پر تھے جبکہ ’جھڑپ‘ کا تصور برابر کے مقابلہ میں ہوتا ہے ‘ قیدی اور مقید کرنے ولوں کے درمیان نہیں۔ امریکی فوج کے ایک ترجمان نے مزید شگوفہ چھوڑا کہیہ قدم اس وقت اٹھایا گیا تھا جب قیدیوں نے نگرانی کے کیمرے اور کھڑکیوں کو ڈھانپ دیا تھا۔انھوں نے کہا کہ بعض قیدیوں نے جیل میں ملنے والی چیزوں سے ہتھیار بنا رکھے تھے، اور یہ کہ محافظوں کی طرف سے اس کے جواب میں ان پر 4 ’غیرمہلک‘ گولیاں چلائی گئیں۔پینٹاگان کا کہنا تھا کہ 43 قیدی بھوک ہڑتال پر تھے تاہم قیدیوں کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ ہڑتالی قیدیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔فوجی حکام کے مطابق ایک درجن قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلایا جا رہا ہے۔امریکی فوج کے کیپٹن رابرٹ ڈیورنڈ نے کہا کہ ہفتہ کو ہونے والی جھڑپوں میں ’محافظوں یا قیدیوں کو سنگین چوٹیں نہیں آئیں۔‘ایک اور ترجمان کرنل گریگ جولین نے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’میں یہ بتا سکتا ہوں کہ ایک قیدی کو گولی لگی ہے لیکن اس کے زخم معمولی ہیں، صرف چند خراشیں۔‘قیدیوں کے بعض وکیلوں نے جیل کے حکام کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔ان میں سے ایک وکیل کارلوس وارنر نے اے پی کو بتایا، ’فوج جھگڑے کو ہوا دے رہی ہے۔‘اس جیل میں بھوک ہڑتال معمول کی بات ہے، لیکن یہ ہڑتال جو فروری میں شروع ہوئی تھی، سب سے لمبی ہے۔تاہم گوانتانامو کے حکام نے اس بات کی تردید کی کہ ہڑتال بعض قیدیوں کے کمروں میں تلاشی کے دوران قرآن کی بے حرمتی کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔ قیدیوں کی نمائندگی کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس کی کشیدگی کی وجہ یہ ہے کہ امریکی فوج یہاں موجود قیدیوں کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔اطلاعات کے مطابق تقریباً ایک سو قیدیوں کو آزاد کئے جانے کیلئے منظوری دی جا چکی ہے لیکن وہ کانگریس کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں اور ان کے اپنے ملکوں میں برے سلوک کے خدشے کے پیشِ نظر اب بھی وہاں قید ہیں۔
عراق میں امریکی فوج اپنے قبضے کے دوران کیا گل کھلاتی رہی تھی اور اس نے عراقیوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے تھے،اس کی ہوشربا تفصیل ماضی میں منظرعام پر آتی رہی ہے لیکن امریکی فوج کے مظالم کی داستان اتنی طویل ہے کہ اس کی مختصر مگر نئی نَئی کہانیاں وقفے وقفے سے سامنے آرہی ہیں۔یہ کہانیاں بیان کرنے والے کوئی اور نہیں خود امریکی اور برطانوی فوجی ہیں۔اب کہ عراق کے دارالحکومت بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی عمارت میں واقع امریکہ کے زیرانتظام حراستی مرکز میں عراقی قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کی ہوشربا کہانی منظرعام پر آئی ہے۔برطانوی فوج کے ٹو آر اے ایف اسکوارڈرن اور آرمی ائیرکور اسکوارڈرن سے تعلق رکھنے والے فوجی جنگِ عراق کے دوران اس ''کیمپ نما'' نامی حراستی مرکز میں محافظ اور ٹرانسپورٹ کی ذمے داریاں انجام دیتے رہے تھے۔برطانوی اخبار گارجین نے منگل کوان میں سے ایک فوجی کے بیان کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے اور اس نے کیمپ نما میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالی کی تفصیل بیان کی ہے۔اس برطانوی فوجی نے اخبار کو بتایا کہ اس نے ایک شخص کو دیکھا جس کو ٹانگ سے پکڑ کر کھینچا گیا اور پھر اس کو سر میں مارتے ہوئے لے جا کر ایک ٹرک میں بے دردی سے پھینک دیا گیا۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے ایک مشترکہ خصوصی فورسز یونٹ کو عراق کے سابق صدر صدام حسین کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں جانکاری رکھنے والے افراد کا سراغ لگانے اوران کی گرفتاری کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔اس یونٹ کا کوڈ نام ٹاسک فورس 121 تھا۔جب اس یونٹ کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں کوئی معلومات نہ مل سکیں تو اس کو تب روپوش صدام حسین اور ان کے وفاداروں کا اتا پتا معلوم کرنے اور ان کے بارے میں معلومات رکھنے والے افراد کو پکڑنے کی ڈیوٹی دی گئی۔اس کے بعد اس یونٹ کو عراق میں القاعدہ کے
برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ گذشتہ ماہ عراق جنگ کی دسویں برسی کے موقع پر مذکورہ ٹاسک فورس سے تعلق رکھنے والے متعدد سابق فوجیوں نے کیمپ نما میں عراقی قیدیوں پر بہیمانہ تشدد اور ان کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے قصے بیان کئے ہیں۔ کیمپ نما میں عراقی قیدیوں سے تفتیش کے دوران ظالمانہ طریقے آزمائے جاتے تھے۔انھیں وہاں بجلی کے جھٹکے دئے جاتے،ان کے سر کوکپڑے سے ڈھانپ دیا جاتا اور اس حالت میں انھیں کئی کئی گھنٹے تک تنگ کوٹھڑیوں میں رکھا جاتا تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’عراقی قیدیوں پر تشدد کے اس قدر ظالمانہ حربے آزمائے جاتے تھے کہ اس پر پینٹاگان کو رپورٹ کرنے والا ایک خصوصی تفتیش کار بھی چیخ اٹھا تھا اور امریکہ کے انسانی حقوق کے ایک ادارے نے بھی ان مظالم کی شدید مذمت کی تھی۔‘اس وقت سابق برطانوی وزیر دفاع جیف ہون کا بالاصرار کہنا تھا کہ انھوں نے اس خفیہ جیل کے بارے میں کبھی کچھ نہیں سنا تھا جبکہ برطانوی وزارت دفاع بھی کیمپ نما میں برطانوی فوج کی کارروائیوں کی منظوری سے متعلق سوالوں کے جواب دینے میں ناکام رہی تھی۔
مارچ میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر نے عراق جنگ میں اپنے ملک اور حکومت کے کردار کا دفاع کیا تھا۔انھوں نے بی بی سی کے پروگرام نیوزنائٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’ذرا تصور کریں،اگر ہم نے صدام حسین کو اقتدار سے نہ ہٹایا ہوتا اور جس طرح یہ عرب انقلابات رونما ہورہے ہیں تو صدام حسین کیا کررہے ہوتے۔وہ شامی صدر بشارالاسد سے 20گنا زیادہ برے ثابت ہوتے۔وہ عراق میں لوگوں کی بغاوت کو جبروتشدد کے ذریعہ دبا رہے ہوتے۔ذرا سوچیں اگر اس رجیم کو برسر اقتدار ہی رہنے دیا جاتا تو اس کے کیا مضمرات ہوسکتے تھے۔ان کے ہم نوا سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش بھی اسی طرح مفروضوں پر مبنی بھاشن دیتے رہے ہیں۔انھوں نے اور ٹونی بلئیر نے دنیا کو عراق کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ڈراوا دے کر عراق پر جنگ مسلط کی تھی لیکن صدام حسین کی حکومت اور جنگ کے خاتمے اور کئی برس بعد غیرملکی فوجوں کے انخلاکے بعد بھی عراق سے یہ ہتھیار نہیں ملے تھے۔جنگ کے دوران امریکہ اور برطانیہ کے جنگی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے عراق کے ہنستے کھیلتے شہر تباہ و برباد ہوگئے ۔برطانیہ میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم’عراق باڈی
گوانتاناموبے اور ابو غریب کے عقوبت خانوں میں مسلمان قیدیوں سے جو بہیمانہ سلوک کیا گیا وہ غیر متوقع نہیں تھا، امریکہ جس کی تاریخ خون چکاں واقعات سے بھری ہوئی ہے اور جس نے کبھی انسانیت کی دہلیز پر قدم ہی نہیں رکھا،
دریں اثنا گزشتہ روز امریکہ میں کئی مختلف مقامات پر انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان نے مظاہرے کرتے ہوئے گوانتانامو بے کی بندش کا مطالبہ کیا۔ قیدیوں کی حالت زار پر توجہ مرکوز کرانے کیلئے منائے جانے والے اس دن مظاہرین نے نارنجی رنگ کے لباس پہنے ہوئے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے کہ گوانتانامو بے کے قیدی پہنتے ہیں۔ یہ مظاہرین صدر اوباما سے قیدخانے کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔امریکہ میں یہ مظاہرے ایک ایسے وقت کئے گئے جب گوانتانامو بے کے قیدیوں کی جانب سے جاری بھوک ہڑتال کے معاملے پر انسانی حقوق کی 25 سرگرم تنظیموں نے امریکی صدر کے نام ایک خط لکھا۔ اس خط پر دستخط کرنے والی تنظیموں میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور امریکن سول لبرٹیز یونین شامل ہیں۔ اس خط کے مطابق قیدخانے کے 166 قیدیوں کی اکثریت اب بھوک ہڑتال کا حصہ بن چکی ہے۔ خط میں مزید درج ہے کہ’یہ صورتحال قیدیوں کو11سال سے زائد عرصے سے فرد جرم عائد کئے بغیر زیر حراست رکھے جانے کا نتیجہ ہے۔‘9 مظاہرین دارالحکومت واشنگٹن میں وائٹ
گوانتانامو میں قائم امریکی حِراستی مرکز کے اکثر قیدی صرف معمولی سے شبہ کی بنیاد پر یہاں قید ہیں اور اکثر یہ ہلکا سا شبہ بھی بہت بے سروپا ہے۔خفیہ معلومات منکشف کرنے والی انٹرنیٹ ویب سائٹ وکی لیکس کے تازہ ترین انکشافات میں امریکی قید خانے گوانتانامو کے بارے میں رونگٹے کھڑے کردینے والے انکشافات کئے گئے ہیں۔گوانتانمو جیل کے بارے میں وکی لیکس کے تازہ ترین انکشافات سے اس مسئلے سے واقفیت رکھنے والوں کے ان شبہات کی تصدیق ہوتی ہے جو وہ گوانتانامو کے بارے میں ہمیشہ ہی ظاہر کرتے رہے ہیں۔ یعنی یہ کہ ان میں سے اکثر قیدیوں کو دہشت گردی کی تفتیش کرنے والے امریکی حکام نے محض معمولی شبہ کی وجہ سے یہاں قید میں رکھا ہوا ہے جو کہ انصاف اور ایک قانونی ریاست کے معیارات کے قطعی خلاف ہے۔ 11 ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد کے کچھ برسوں کے دوران کسی مشتبہ فرد کو گوانتانامو کا مستقل قیدی بنا دینے کیلئے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امت مسلمہ پر غیروں کو وار کرنے کا موقع کیسے مل گیا؟ اس سلسلہ میں خود برطانوی ذرائع ابلاغ بی بی سی عربی‘ گارجین اور انڈیپنڈنٹ جیسے اشاعت و نشریاتی اداروں نے انکشاف کرچکے ہیں کہ عراق پر امریکی قبضے کے دوران مین امریکی فوج نے شیعہ سنی فسادات بھڑکانے کیلئے ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔ ڈیتھ اسکواڈ نے خفیہ تعذیب خانے بھی قائم کر رکھے تھے۔ ڈیتھ اسکواڈ کی نگرانی ایل سلواڈور اور نکاراگوامیں پراکسی وار لڑنے والے امریکی فوجی کرنل جیمز اسٹیل کررہے تھے جو براہ راست امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پٹریاس کو رپورٹ دیتے تھے‘ برطانوی ذرائع ابلاغ کے سامنے ان حقائق کا انکشاف عراق میں تعینات اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ جان پیس نے بھی کیا ہے۔ یعنی امریکی فوج نے عراق میں اپنی جو پٹھو اور آلہ کار حکومت قائم کی تھی اس حکومت کے وزارت داخلہ کا کام یہ تھا کہ وہ ملک میں خودکش حملہ آوروں اور قاتلوں کو تربیت دیں تاکہ عراق میں شیعہ سنی فسادات کے ذریعہ قابض امریکی فوجوں کے خلاف مزاحمت ختم کی جاسکے۔ عراق میں ہونے والے ظلم اور تعذیب و تشدد کے یہ انکشافات مغربی ذرائع ابلا غ کے ذریعے سامنے آئے ہیںلیکن اس کی تفصیلات پاکستانی ذرائع ابلاغ نے نشر نہیں کی ہیں۔ اس رپورٹ سے امریکی ’وار آن ٹیرز ‘کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی دعویدار سیکولر قوتوں نے انسانیت کے خلاف کیسے سنگین جرائم کئے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ عراق پر حملہ کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی رپورٹ جھوٹ پر مبنی تھی۔ صرف ایک جھوٹ کی بنا پر لاکھوں عراقیوں کو قتل کردیا گیا۔ عراق سے موصولہ اس رپورٹ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں بم دھماکوں‘ خودکش حملوں اور شیعہ اور سنی علما اور عمایدین کی ٹارگٹ کلنگ کے پس پردہ کون سی طاقتیںکار فرما ہیں۔ ڈیتھ اسکواڈ اور قاتلوں کی امریکی فوجی کرتے ہیں اور اس کی براہ راست نگرانی امریکی فوج کے سربراہ کرتے ہیں۔
برطانوی اخبار گارجین اور بی بی سی عربی کی مشترکہ تحقیق BBC Arabic/Guardian investigation نے عالم اسلام میں پرتشدد مسلکی منافرت کے فروغ میںاسلام دشمن سازش سے نقاب کشائی کی ہے۔ جیمس اسٹین لی نے 1980میں ایل سلوا اڈور کی خانہ جنگی میں ’گندی جنگ‘ کے تحت پنٹاگن کیلئے کام کیا تاکہ آپسی رنجشوں کے ذریعہ آپس میں لڑایا جائے۔کرنل جیمس کی اسی مہارت کو امریکی وزیر دفاع نے 2003-06کے دوران عراق میں شیعہ-سنی تفرقہ کو ہوا دے کرامریکی مخالف رویہ کو کمزور کرنے میںاستعمال کیاتھا۔ کرنل کاف مین
امریکی تنظیم اوپن سوسائٹی
رپورٹ میں امریکہ کے قریبی حلیف ممالک کے نام بھی شامل ہیں جیسا کہ آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، ڈنمارک، جرمنی، آئرلینڈ، اٹلی، پولینڈ، سپین، ترکی اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ سابق امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے غیر معمولی حالات میں حوالگی کی پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت مختلف ممالک بغیر قانونی تقاضوں کو پورا کئے مختلف مطلوب افراد کو امریکہ یا مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کر سکتے تھے جو ان افراد سے بعد میں تفیش کر سکتی تھیں۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ ان افراد اور ایجنسیوں پر امریکی سرزمین پر موجود قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اس فہرست میں جنوبی افریقہ کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کی وجہ جنوبی افریقہ کی حکومت کی جانب سے امریکی خفیہ ادارے کو پاکستانی شہری سعود میمن کو اغوا کرنے کی اجازت دینا ہے جنہیں 2003میں وال اسٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینئیل پرل کو ہلاک کرنے کا الزام تھا جبکہ سعود میمن پاکستان میں 2007 میں رہا ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد فوت ہو گئے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں ایران کا ذکر ہے جس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہت خراب ہیں۔ تہران نے کم از کم 10 مشتبہ افراد کو پکڑ کر کابل کی حکومت کے ذریعے امریکہ کے حوالے کیا جن میں سے اکثریت عرب لوگوں پر مشتمل تھی۔ اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک بھی اس میں ذمہ دار ہیں جن میں سے صرف کینیڈا نے اپنے کردار پر معافی مانگی ہے۔ تین دیگر ممالک آسٹریلیا، برطانیہ اور سویڈن نے متاثرین کو ہرجانہ دینے کی پیشکش کی ہے۔صدر براک اوباما نے 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد ان تشدد آمیز تفتیش کے طریقوں کے استعمال کو بند کر دیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اوپن سوسائٹی صدر اوباما پر بھی اس رپورٹ میں تنقید کرتی ہے جنہوں نے حوالگی کے قانون کو برقرار رکھا ہے اس شرط پر کہ ان افراد سے حوالے کئے جانا والا ملک انسانی سلوک کرے گا۔اس رپورٹ میں تنظیم نے ایک سو 36 افراد کے نام لئے ہیں جن کو غیر معمولی حالات میں حوالگی کی پالیسی کے تحت حراست میں رکھا گیا یا حوالے کیا گیا۔ اس رپورٹ میں صرف سی آئی اے کی کارروائیوں کی بات کی گئی ہے اور امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے معاملات کو زیر غور نہیں لایا گیا ہے جس کے تحت گوتنامو بے کا متنازعہ قید خانہ کام کرتا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے مختلف افراد کو گوانتانامو بے میں حراست میں رکھا جبکہ اس کے علاوہ افغانستان، لتھوینیا، مراکش، پولینڈ، رومانیہ اور تھائی لینڈ میں بھی ایسی حراست گاہیں تھیں جہاں مختلف افراد کو رکھا جاتا رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دورانِ حراست کچھ قیدیوں کو مصنوعی دیواروں میں دے مارا گیا، ان کو مختلف تکلیف دینے والے جسمانی کاموں میں لگایا گیا، انہیں ان کی رضامندی کے بغیر برہنہ کیا گیا اور انہیں تھپڑ مارے گئے۔ سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیکل ہیڈن نے ماضی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکی تفتیش کاروں نے تین افراد کو واٹر بورڈنگ کا نشانہ بنایا تھا جس میں انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ ڈوب رہا جب اس پر پانی ایک مخصوص طریقے سے پھینکا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے کارکن لواٹر بورڈنگ کو تشدد ہی کی ایک قسم کہتے ہیں۔اس فہرست میں جنوبی افریقہ کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کی وجہ جنوبی افریقہ کی حکومت کی جانب سے امریکی خفیہ ادارے کو پاکستانی شہری سعود میمن کو اغوا کرنے کی اجازت دینا ہے جنہیں 2003میں وال سٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینئیل پرل کو ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ سعود میمن پاکستان میں 2007میں رہا ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد فوت ہو گئے تھے۔ امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی نے گزشتہ دسمبر میں سی آئی کے طریقہ کار پر 6 ہزار صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کے مندرجات ابھی تک خفیہ رکھے گئے ہیں۔ اسی کمیٹی کی سربراہ سینیٹر ڈائین فیسٹن نے کہا کہ خفیہ حراست خانے اور تشدد آمیز تفتیش ’بہت خطرناک غلطیاں‘ تھیں جبکہ سی آئی اے نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ واضح رہے کہ بہت سے امریکی اراکین کانگریس اور سینیٹ نے ماضی میں شدت سے تفتیش کیلئے استعمال ہونے والی بعض طریقوں کی حمایت کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ایک ظالم دشمن کے مقابلے کیلئے یہ سب ضروری ہے۔ اوپن سوسائٹی
یوروپ سے 25ممالک وایشیا سے 14ممالک وافریقہ سے 13ممالک کے علاوہ کنیڈا اور آسٹریلیا نے بھی اس مذموم انسانیت سوز مہم میں خبیث کا ساتھ دیا۔ہندوستان ان میں شامل نہیں ہے لیکن سب سے چونکانے میں والا نام اسلامی جمہوریہ ایران کا ہے۔اس کے علاوہ افغانستان مملکت خداد اد پاکستان ،مصر،لیبیا،شام جیسے مسلمانوں کے ’ہمدرد ممالک‘ کے علاوہ سویڈن،فن لینڈ،اٹلی ،جرمن،برطانیہ،ڈنمارک آئس لینڈ سب سے آزادی اور جمہوریت اور حقوق انسان کو ’محفوظ‘ کرکے اس ’ مقدس فریضہ‘ میں پوری دلجمعی سے ساتھ دیا۔ایک ایک قیدی کو ہوائی جہازوں میںخصوصی فلائٹ سے ہزاروں کلومیٹردور لیجا کر پرتشدد وظالمانہ ٹارچر کا نشانہ بنایاگیا ہے۔ اس سے قبل بھی امرت سنگھ کی کوششوں سے 2009میں ابو غریب جیل میں تشدد ٹارچر پر مشتمل ہزاروں صفحات پوسٹ مارٹ رپورٹم پر تشدد معلومات کی تفاصیل منظر عام پر آچکی ہیں۔دسمبر 2012میں مقدونیہ میں ٹارچر کئے گئے اور امریکی مقدونیائی اہلکاروں کے ذریعہ اغوا کرکے مارپیٹ اوراغلام بازی کا نشانہ بناکر اور ہتھکڑیاں پہنانے کے الزام میں یوروپی کورٹ نے خالد المصری سے 60000یورو کا جرمانہ وصول کیا۔بعد میںسی آئی اے نے کہا کہ ہم نے جرمن وزیر داخلہ کو اطلاع دیکر کارروائی کی تھی لیکن انہوںاپنی کابینہ تک کو اسکی اطلاع نہیں دی ۔سی آئی اے نے قبول کیاکہ ہم نے دھوکہ سے غلط آدمی کو پکڑلیا تھا ۔امریکی سپریم کورٹ خالد المصری کے مقدمہ کی سماعت سے انکار کردیا اور کہا کہ قومی تحفظ کا مسئلہ متاثر کو پہنچے نقصان سے زیادہ اہم ہے لیکن اٹلی کی عدالت نے 23امریکیوں کو ملزم گردانا لہذا ان کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے ۔اٹلی کی حکومت 9دیگر حکومتوں کے شہریوںکے خلاف بھی قانونی کارروائی کی تیاری کررہی ہے۔شرم اور افسوس کی بات ہے کہ اپنے قومی تحفظ کے نام پر دنیا بھر میں بے گناہوںکو پکڑ پکڑ کر تشدد اور ٹارچر کی ایسی مثالیں پیش کی گئیں جیسے تشدد انتہائی ظالم بادشاہ اور مافیا ڈان بھی ہی نہ ہو کر اس بے ضررسے لفظ کی آڑ میںجدید تہذیب کے فرعونوں نے وہ مظالم ڈھائے ہیں کہ جس سے جس سے شیطان بھی شرماجائے ۔ مثلاقیدیوں کو دوسرے ممالک میںلیجا کر غیر قانونی طریقہ سے تشدد کے ساتھ تفتیش کا نام دیا گیا Rendition Quesیا تفتیش کی ترقی یافتہ تکنیک Enhanced Interogation techniques استعمال کی گئی ۔بعض ایسے دستاویزی شواہد کے ساتھ حال ہی میں کچھ اور خبریں اور شواہد عالمی پیمانہ پر آرہی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ میں پر تشدد مسلکی اور گروہی منافرت کو مغرب اور تمام اسلام دشمن طاقتوں کے ذریعہ انتہائی ترجیحی اور وسیع بنیادوں پر پورے وسائل جھونک کرایمان فروشوںکے ذریعہ ہی بھرکایاجارہا ہے کہیں صوفی اسلام کو آگے کیا جارہاہے ۔ہندوستان،بنگلہ دیش،مغرب ،مالی،مالدیپ وغیرہ کہیں لبنان،ایران،پاکستان،بحرین وغیرہ شیعہ-سنی کہیں مصر ،تیونس ،پاکستان،ایران ،الجزائر وغیرہ لبرل بمقابلہ انتہا پسند‘کہیں ساری تقسیموں کو بیک وقت منظم کیا جارہاہے ۔اس کام کیلئے مذہبی طبقہ غیر سرکاری تنظیمیں این جی او فنون لطیفہ سے وابستہ لوگوں کو خرید کر ان کو میڈیا کو ریج دیکر مسلمانوں کی مددکے عنوان پر مسلمانوں میں اختلاف وانتشار کو پروان چڑھایا جارہا ہے جبکہ اسلام دشمن طاقتیں عراق میں شیعہ،سنی تفریق کو پرتشدد خونریزی میںامریکی خصوصی افواج نے تبدیل کیا۔یہی کھیل مختلف ناموں سے Remoteکنٹرول کے ذریعہ کئی کئی واسطوں سے خفیہ ایجنسیوں کے معرفت کھیل رہی ہیں ۔بصورت دیگرمصر میں ایک عیسائی این جی اوکے دفتر میں مصری افواج کی تنصیبات کے نقشہ ملنے کا کیا جواز ؟اس این جی او تک کو اعلی امریکی عہدیداروں کا قریبی رشتہ دار چلا رہا تھا۔اس طرح انڈونیشیا ،بنگلہ ،دیش،پاکستان میں یوروپی ممالک کے این جی اوکا جال اندر ہی اندر مقامی غریب ضرورت مند باشندوں کا کیسے استعمال کرتے ہیں‘ وہ ملالہ کے معاملہ سے ظاہر ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک چھوٹے سے اسکول کے مالک‘ اسکی بیٹی ملالہ اور ماں کا امریکہ کے ا علی ترین خفیہ اداروں کے سربراہوں سے ملنے کے کیا معنی ہیں؟
|