"چقندر" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 5:
چقندر ایک ایسی فصل ہے جس کا استعمال متعدد اشیاءکی تیاری میں کیا جاتا ہے۔ چقندر کی چار اقسام ہوتی ہیں، ایک قسم چینی نکالنے کے لئے جبکہ باقی سبزی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ چقندر کی کاشت سولہویں صدی میں یورپ سے شروع ہوئی۔ اس اہم سبزی نے دنیا میں جلد ہی ایک اہم مقام حاصل کر لیا اور یہ سب کچھ ایک نہایت قلیل عرصہ میں سائنسی علوم کی بدولت ہوا ۔ 1747ء میں ایک جرمن ماہر کیمیا دان اینڈریز سگمنٹر مارگراف نے معلوم کیا کہ چقندر کی قسم میں گنے کی جیسی چینی پائی جاتی ہے۔ اس نے اپنی تحقیق کے بعد چینی کی مقدار کو حاصل کرنے کا طریقہ اور اسکی کاشت کی مختلف اقسام کے بارے میں بتایا لیکن تب اس تحقیق کا کوئی خاص فائدہ نہ اٹھایا گیا۔اٹھارویں صدی کے آخری عشرے میں ریکارڈو چقندر سے چینی نکالنے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے اس چینی کو بیٹ شوگر کا نام دیا جو بعد میں شوگر بیٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ ریکارڈو کے کامیاب تجربے کے بعد جرمنی کے شہنشاہ جرمنی فریڈرک ولیم سوم کی مدد سے جرمنی کے شہر کنرن میں چقندر کی چینی کا پہلا کارخانہ قائم کیا گیا۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میںءسے 13-1912ء لے کر 1928ء تک چقندر کی کاشت پر ڈاکٹر ڈبلیو آر براون سابقہ صوبہ سرحد کے ایگریکلچر آفیسر کی زیر نگرانی تجربات کئے اور ثابت کیا کہ وادی پشاور چقندر کی کاشت کے لئے موزوں ہے۔
59-1958ء میں چارسدہ شوگر مل نے چینی بنانے کا پہلا کارخانہ لگایا اور اب ملک میں دو شوگر ملیں چقندر سے چینی بنا رہی ہیں۔ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہکا کہنا ہے کہ چقندر سے چینی کا حصول ملز مالکان اور کسان دونوں کے لئے فائدہ مند ہے اور اس کی بدولت چینی کی پیداوار بھی زیادہ حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ چقندر کی فصل گنے کی نسبت جلد تیار ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک چوتھائی چینی صرف چقندر سے بنائی جاتی ہے۔ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے زرعی ماہرین نے کاشتکاروں سے کہا ہے کہ وہ چقندر کی فی ایکڑ بہترین پیداوار حاصل کرنے کیلئے چقندر کی کاشت کا عمل 20 ستمبر سے شروع کر کے 31 اکتوبر تک مکمل کر لیں وگرنہ آمدن میں 50 فیصد چینی کے نسبتاً 30 فیصد کمی آتی ہے۔ پاکستان میں کاشت کاروں کو دو اقسام کیوی ٹرما اورکیوی میرا کاشت کیلئے دی جاتی ہیں یہ ٹریلائیڈہائرڈ ہیں ان اقسام کی پیداواری صلاحیت 75 ٹن فی ہیکڑ اور چینی کا برتہ ۷۱ فیصد تک ہے۔ ماہرین کے مطابق چقندر کی فی ہیکٹرزمین میں100 کلو گرام فاسفورس اور 90 سے 120 گرام نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔
|