"شفیق الرحمن" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: منتقل از زمرہ:2000ء کی اموات بجانب زمرہ:2000ء کی وفیات
عام اصلاحات using AWB
سطر 22:
| برقی_رابطہ =
}}
'''شفیق الرحمن''' ([[9 نومبر]]، [[1920ء]] تا [[19 مارچ]]، [[2000ء]]) پاکستان کے ایک اردو مصنف تھے جو اپنے رومانوی افسانہ جات اور مزاحیہ مضامین کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے تاہم انہیں بنیادی طور پر ایک مزاح نگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔
 
== ابتدائی زندگی اور تعلیم ==
سطر 56:
دوسرے مجموعے شگوفے میں بھی کرداروں کی دل برداشتگی اور پھر بکھرنے کے حوالے سے بڑا جذباتی مگر مقبول پیرائیہ اظہار ہے۔ البتہ اس مجموعے کے ایک افسانے، ساڑھے چھ میں شفیق الرحمن کا وہ کردار ’’شیطان‘‘ متعارف ہوتا ہے جو بعد میں ان کے افسانوں اور مزاحیہ مضامین کا مستقل کردار بن گیا۔ یہی نہیں بلکہ اس مجموعے ’’شیطان‘‘ کے نام سے اسی کردار کے بارے میں ایک افسانہ بھی شامل ہے۔ یہ دونوں مجموعے ایک برس کے وقفے کے ساتھ ہی شائع ہوئے تھے اس لیے اسلوب میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہے۔
 
اتفاق سے تیسرا مجموعہ مدو جزر بھی دوسرے مجموعے کی اشاعت کے ایک برس بعد شائع ہوا مگر اس میں مدوجزر نکے نام کا ہی افسانہ ایک ایسے تخلیق کار سے متعارف کرواتا ہے جو صرف انشاپردازی اور رومانوی فارمولے کے بل پر ہی افسانہ نہیں لکھ رہا بلکہ اب اس کی توجہ کرداروں کے داخلی تلاطم پر بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ فطرت پس منظر کے طور پر استعمال نہیں ہوتی بلکہ ایک دم ساز کے طور پر آتی ہے اور زندگی کے بارے میں بعض فلسفیانہ خیالات بھی محسوسات کے راستے پروان چڑھتے ہیں۔
 
چوتھا مجموعہ ’’پچھتاوے‘‘ بھی قیام پاکستان سے پہلے شائع ہوا، اس میں عمومی اسلوب رومانی ہے، مگر اب کرداروں کے پس منظر میں صرف مناظر فطرت نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اور یہ تو ’’لہریں‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہی محسوس ہوا تھا کہ اب رومان کے بطن سے ایک ایسا مزاح نگار بھی طلوع ہو رہا ہے جس نے بعد میں شاید ایک مزاح نگار کے طور پر زیادہ بڑا حوالہ بننا تھا۔ خاص طور پر اس میں شامل اُن کا افسانہ ’’زیادتی‘‘۔
 
"دجلہ" ان کا طویل مختصر افسانہ ہے، جس سے انھیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ، دوسرے یہ افسانہ سی ایس ایس کے نصاب میں شامل ہوگیا، چنانچہ پاکستان کی مقتدر کلاس میں شمولیت کے لیے بھی کسی بھی مہذب شخص کے لیے اس افسانے کے بارے میں گفتگو کرنا لازمی ہو گیا۔ حالانکہ قراۃ العین حیدر اور محمود نظامی کی تحریروں کے سائے میں اس کی الگ سکے شناخت آسان نہیں۔