غالب کی تحریر کی جان جد تجدّت طرازی ہی ہے۔ وہ بنے بنائے راستوں پر چلنے کے بجائے خود اپنا راستہ بناتے ہیں۔ عام اور فرسودہ انداز میں بات کرنا اُن کا شیوہ نہیں۔ انہوں نے خطوط نویسی کو اپچ اور ایجاد کا طریقہطریقۂ نو بخشا،بخشا ، جو ادبی اجتہاد سے کم نہیں، میرمہد ی کا ایک خط یوں شروع ہوتا ہے۔ ”مار ڈالا یا ریار تیری جواب طلبی نے“
ایک اور خط کی ابتداءیوںابتداء یوں کرتے ہیں، ”آہا ہاہا۔ میراپیارا مہدی آیا۔ آؤ بھائی، مزاجمہزاج تو اچھا ہے۔ بیٹھو۔“
غالب کی اس جدت پسندی نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ۔ اپنی اس جدتجدّت پسندی پر خود اظہاراظہارِ خیال کرتے ہیں کہ، ” میں نے وہ اندازاندازِ تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ ہزار کوس سے بہ زبانزبانِ قلم باتیں کرو ، ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔“