"کتاب استثنا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
نیا صفحہ: '''استثنا'''<br /> توریت کی یہ پانچویں کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آخری تصنیف ہے۔ آپ نے یہ کتاب غالبا...
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 07:33، 21 اگست 2013ء

استثنا
توریت کی یہ پانچویں کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آخری تصنیف ہے۔ آپ نے یہ کتاب غالباً 1400 قبل مسیح میں لکھی جب بنی اسرائیل موآب کے میدانوں میں خیمہ زن تھے اور ملک موعودہ کنعان میں داخل ہونے کے منتظر تھے۔
اس کتاب میں حضرت موسیٰ علیہ االسلام کے آخری خطبات درج ہیں اور ساتھ ہی آپ کی زندگی کے آخری ایام کے واقعات اور آپ کی وفات کا ذکر بھی پایا جاتا ہے۔بائبل کے عالم اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آخری واقعات اور حضرت موسیٰ کی وفات کا بیان حضرت یشوع کی تالیف ہیں۔ حضرت علیہ السلام نے 120سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ نے حضرت یشوع کو اپنے انتقال سے پہلے اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا اور یہ حضرت یشوع ہی تھے جن کی قیادت میں بنی اسرائیل کی نئی نسل ملک کنعان میں داخل ہوئی۔
بائبل کے عربی ترجمہ میں اس کتاب کا نام ”تثنیۃ“ اور اُردوترجمہ میں ” استثنا“ رکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں حضرت موسیٰ نے اپنی پچھلی کتابوں میں مندرج شریعت کے احکام و قوانین کو اختصار سے دوسری بار تحریر فرمایا ہے۔ یہ احکام و وقوانین مجموعی طور پر وہی ہیں جو حضرت موسیٰ خدا کی ہدایت کے بموجب بنی اسرائیل کو اُن کی اڑتالیس سالہ صحرانوردی کے مختلف اوقات میں دیتے رہے تھے ۔
کتاب استثنا کا مقصد یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی نئی نسل جو حضرت یشوع کی قیادت میں کنعان کی موعودہ سرزمین پر قدم رکھنے والی تھی بخوبی جان لے کہ احکام خداوندی کو ماننے کے فوائد اور نہ ماننے کے نقصانات کیا ہیں۔ خداوند خداوند بنی اسرائیل سے تقاضا تھا کہ اُس کی برگذیدہ قوم پاک زندگی بسر کرے اور خدا کی وفادار رہے تاکہ وہ زندہ رہے، برکت، صحت، خوشھالی اور کامیابی سے ہمکنار ہو۔ لیکن اگر وہ عہد شکنی کی مرتکب ہو گی اور راہراست سے دور ہو جائے گی تو لعنت، بیماری، افلاس اور موت کا شکار ہو گی۔
شروع شروع میں یہودیوں کے ہاں یہ کتاب یعنی کتاب استثنا نہیں پائی جاتی تھی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوئی چھے سو سال بعد ایک جنگ کے زمانے میں ایک شخص ملک کے اس وقت کے یہودی بادشاہ کے پاس ایک کتاب لایا اور کہا یہ مجھے یہ کتاب ایک غار سے ملی ہے۔ معلوم نہیں کس کی ہے؟، مگر اس میں دینی احکام نظر آتے ہیں۔بادشاہ نے اپنے زمانے کی ایک نبیہ عورت(یہودیوں کے ہاں عورتیں بھی نبی رہی ہیں یا کم از کم وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں) کے پاس بھیجا۔ اس بنیہ جس کا نام ہلدا (Hulda) بیان کیا جاتا ہے یہ کہلا بھیجا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی کتاب ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چھ سوسال بعد اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔

حوالہ جات

٭ تاریخ قرآن از ڈاکٹر محمد حمید اللہ