"پاکستانی درسی کتب تنازع" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 23:
#حالانکہ کتابوں میں مستعمل اصطلاحات اسلامی اقدارات پر غور دلاتے ہیں، مثلاً تقویٰ، شرافت اور فرماں برداری، مگر تنقیدی خیال، شہری حصہ داری، یا جمہوری اقدارات، جیسے کہ آزادئ تقریر، برابریت، اور ثقافتی پُر انواعی (تنوع) کا لحاظ، ساروں کے بارے میں بہت کم ذکر کیا ہوا ہے۔
 
سسٹینیبل ڈیویلپمنٹ پولیسی انسٹیٹیوٹ کے نیّر اور سلیم کا 2003 میں ہونے والے سٹڈی نے نتیجہ نکالا کہ ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے کہ بچوں کو پاکستان سٹڈیز پڑھایا جا رہا ہے بطور تاریخ اور جغرافیہ کا متبادل۔ پہلے بچوں کو جنوبی ایشیا کی بہت قدیم ماقبل اسلامی تواریخ پڑھائی جاتی تھی اور اس کی جدید پاکستان کے باثمر ورثے کی طرف امداد۔ یہ آج کل کی پاکستان سٹڈیز کے ٹیکسٹ بکوں میں ناموجود ہے۔ اس کے بجا، بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی تواریخ شروع ہوئی اسی دن جب پہلے مسلمان نے ہند میں قدم رکھا۔ سٹڈی نے یہ بھی بیان کیا کہ ٹیکسٹ بکوں میں بہتیرا جنس پر مبنی استیروتیپ تھے اور دوسرے نظریے بھی جو بد گمانی، کٹر پن اور تفریق اکساتے ہیں، ہم وطن پاکستانیوں ،پاکستانیوں، اور دیگر اقوام کی طرف بھی؛ اورنیز ان تصوروں کی غفلت کا بھی جو سٹوڈنٹوں میں تنقیدی خود آگاہی دلا سکیں۔
 
روبینا سہگل، ایک امریکہ میں تعلیم یافتہ ماہر نے کہا ہے، "میں طویل عرصے سے دلیل پیش رہی ہوں کہ در اصل ہمارا ریاستی نظام سب سے بڑا مدرسہ ہے؛ ہم مدرسوں کو ہر کچھ کا قصور وار ٹھہراتے ہیں، اور بے شک، وہ بہت سارے کام کرتے ہیں جن سے میں اتفاق نہیں کرتی۔ مگر نفرت، اور پُر تشدد بد نیت قومیت پسندی کے ریاستی نظریے وہاں پہنچ رہے ہیں جہاں مدرسوں کو پہنچنے کا آس بھی نہ ہو"۔
سطر 29:
این سی ای آر ٹی کی 2004 میں بھارت کی ٹیکسٹ بکوں کی وصیع نظرِ ثانی کا حوالہ دیتے ہوئے، وارگیس نے بھارت میں ٹیکسٹ بکوں میں تکثیری اور جمہوری اقدارات کی بردگی، اور پاکستان میں تواریخ کی مسخ، دونوں کو اشارہ سمجھا کہ پاکستانی، بھارتی، اور بنگلادیشی تواریخ دانوں کے آپس میں ربط دہی کی ضرورت ہے، ایک مخلوط تواریخ رچنے کے لیے، ایک شاملاتی جنوبی ایشیائی کتاب کی شکل میں۔
 
تاہم بین الاقوامی عالِموں نے چیتاؤنی دی ہے کہ کوئی بھی تعلیمی سدھار جو بین الاقوامی دباؤ یا طلبطلبِ بازار کے تحت ہو اسے مقامی سطح پر لوگوں کی توقعوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔