"نظام الملک طوسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 13:
نظام الملک 10 رمضان 485ھ بمطابق [[14 اکتوبر]] [[1092ء]] کو [[اصفہان]] سے بغداد جاتے ہوئے [[حسن بن صباح]] کے فدائین "[[حشاشین]]" کے ہاتھوں شہید ہوا۔
مؤرخوں کیمطابق ملک شاہ اول جو کہ خواجہ حسن نظام الملک کو خواجہ بزرگ اور پدر معنوی جیسے القاب سے نوازتا تھا اور خواجہ حسن کو خاص مقام حاصل تھا کہ وہ بادشاہ کےکمرہء خاص یا آرام کرنے کے کمرےمیں بھی آمد و رفت رکھتے تھے۔ چونکہ وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے اور انکو علوم خاص و عام میں رسوخ حاصل تھا۔ ملک شاہ اول کی شادی سلجوقی خاندان کی ایک خاتون جن کا نام زبیدہ خاتون تھا سےہوئی اور انکے بطن سے ملک شاہ اول کا سب سے بڑا بیٹا تولد ہوا۔ ملک شاہ اول نے ایک شادی خانان قاراخانی یا قاراخانی شہزادی سے بھی کی تھی جس کا نام ترکان خاتون تھا۔ کہتے ہیں کہ ملک شاہ اول کے دو بڑے بیٹوں داوود اور احمد جن کا بالترتیب 1082 اور 1088میں انتقال ہوا۔ انکے انتقال کے بعد ترکان خاتون اپنے بیٹےمحمود جو کہ سب سے کم سن تھا کو [[ولی عہد]] نامزد کروانا چاہتی تھی جبکہ خواجہ حسن نظام الملک طوسی نے ترکان خاتون کی مخالفت کی اور زبیدہ خاتون کے بڑے بیٹے برکیارق کو ملک شاہ اول کا جانشین و [[ولی عہد]] نامزد کرنے پر اصرار کیا جس پر ترکان خاتون کی نظام الملک کے ساتھ سرد جنگ شروع ہوگئی اور اس نے اپنے معتمد خاص تاج الملک االمعروف بہ المزرزبان کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے نظام المک کو ان کے عہدہء وزارت سے ہٹانے کی سازشیں شروع کیں مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکی۔ خواجہ حسن نظام الملک کی وفات کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ ایک دن ملک شاہ اول جو کہ پہلے ہی وزیر مملکت کے خلاف ہونے والی محلاتی سازشوں سے دلبرداشتہ ہورہا تھا کو وزارت سے معزول کردیا اور معزولی کا حکم سننے کے بعد نظام الملک واپس اپنی جاگیر یا بغداد جارہے تھے ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ ملک شاہ اول کے حکم پر ضروری کام سے بغداد جارہے تھے کہ اچانک ایک درویش نے ان سے دادرسی چاہی ، شفیق و مہربان نظام الملک نے دادرسی کرنے کی خاطر اس درویش کو قریب بلایا مگر وہ درویش کے روپ میں قلعہ الموت کی طرف سے بھیجا گیا ایک فدائی تھا اسکا وار خواجہ حسن نظام الملک کیلئے جان لیوا ثابت ہوا۔ خواجہ حسن جانبر نہ ہوسکے اور خالق حقیقی سے جا ملے انکی وفات پر پورا عالم اسلام اور بالخصوص رے غمزدہ و اداس ہوگیا۔ نوحہ گروں نے نوحہ کیا اور مرثیہ لکھنے والوں نے مرثئے لکھے۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ ان دنوں شیعہ سنی مناظرے منعقد ہوا کرتے تھے جن میں ملک شاہ اول اور نظام الملک طوسی بھی بہ نفس نفیس شریک ہوتے تھے خواجہ حسن بزرگ نظام الملک طوسی کا قتل بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا اور جس دن ان پر حملہ ہوا اسی دن ملک شاہ اول کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا مگر ملک شاہ اول پر حملہ کامیاب نہ ہوسکا۔
[[زمرہ:1092ء کی وفیات]]
[[زمرہ:1018ء کی پیدائشیں]]
[[زمرہ:سلجوقی سلطنت]]