آذری طوسی

فارسی زبان کے فاضل مصنف و شاعر

آذری طوسیبرہان الدین حمزہ بن علی ملک طوسی بیہقی (پیدائش: 1382ء— وفات: 1462ء) پندرہویں صدی عیسوی میں فارسی زبان کے صوفی شاعر، عارف ِ مجرد، فاضلِ موحّد اور مصنف تھے۔ قرون وسطی کے مشاہیر فارسی میں آذری طوسی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔

آذری طوسی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1382ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اسفراین   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1462ء (79–80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اسفراین   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  متصوف ،  مصنف ،  صوفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

 

نام و نسب ترمیم

آذری کا نام حمزہ بن علی ملک طوسی بیہقی ہے۔ لقب برہان الدین ہے۔ اکثر کتب ہائے تذکرات میں نام عبد الملک لکھا ہوا پایا جاتا ہے۔ تذکرہ خزینہ ٔ گنج الہٰی اور تذکرۂ مجمع الفصحاء میں لقب نور الدین لکھا گیا ہے۔ والد کی جانب سے آذری کا نسب معین صاحب الدعواۃ احمد بن محمد الزَّمَجِی الہاشمی المروزی تک جا پہنچتا ہے۔ آباؤ اَجداد اسفراین میں صاحبِ اقتدار و صاحب اِختیار تھے۔ [1] آذری کے ماموں امیر تیمور کے قصہ خوان تھے [2]۔ آذری کے والد سربدارانِ سبزوار میں سے تھے۔[3]

پیدائش ترمیم

آذری کی پیدائش ماہ ِ آذر میں ہوئی۔ سالِ پیدائش کے متعلق اِختلاف پایا جاتا ہے، مختلف تذکروں میں سالہائے پیدائش 778ھ سے 786ھ کے درمیان پایا جاتا ہے۔

سلطنت تیموریہ میں ترمیم

800ھ مطابق 1398ء کے قریب قریب جبکہ آذری ابھی بچپن میں ہی تھے، تو وہ قرا باغ میں اپنے ماموں کے ہمراہ تیموری شاہزادہ الغ بیگ میرزا کی خدمت میں پہنچا اور چند سالوں تک آذری وہیں شاہزادہ الغ بیگ میرزا کا مصاحب اور جلیس رہا۔ تقریباً نصف صدی کے بعد 852ھ مطابق 1448ء میں جب شاہزادہ الغ بیگ میرزا اسفراین میں پہنچا [4] تو آذری درویشوں کے لباس میں شاہزادہ الغ بیگ میرزا سے ملاقات کرنے آئے تو میرزا الغ بیگ نے فوراً آذری نے انھیں پہچان لیا۔

متاخر زندگی اور شاعری ترمیم

آذری نے علومِ ظاہری و باطنی کے حصول میں بہت محنت کی۔ ایامِ شباب میں شعر و شاعری میں مشغول و مشہور ہوئے اور آذری کی رسائی سلطان شاہ رخ تیموری کے دربار میں ہو گئی اور سلطان شاہ رخ تیموری کی مدح میں انھوں نے کئی پسندیدہ قصیدے لکھے۔ سلطان شاہ رخ تیموری نے انھیں ملک الشعراء کا خطاب دینا چاہا۔ مگر اِس حوالے سے کوئی روایت موجود نہیں کہ آذری نے سلطان شاہ رخ تیموری کی جانب سے دیے گئے ملک الشعراء کے خطاب کو قبول کیا یا نہیں؟۔ آذری نے لطافتِ شعری کے باعث بہت شہرت حاصل کی۔[5]

متصوفانہ زندگی ترمیم

سنہ کہولت میں شیوۂ فقر و فنا اِختیار کر لیا اور ریاضت و عبادت میں مشغول ہوئے۔ زمانۂ کہولت میں بہت سے اکابرین و مشائخ سے ملاقات کرتے رہے اور شیخ محی الدین حسین رافعی طوسی کے مرید ہو گئے۔ شیخ محی الدین امام غزالی کی اولاد سے تھے اور شیخ میر سید علی ہمدانی کے مرید تھے۔ اِس اعتبار سے آذری کو تصوف میں میر سید علی ہمدانی تک کا واسطہ پہنچ جاتا ہے۔ اپنے مرشد کے پاس آذری نے پانچ سال تک کتب ہائے حدیث و تفسیر پڑھیں اور جب شیخ محی الدین حسین طوسی حج کو گئے تو اُن کے ہمراہ آذری بھی موجود تھے۔ حج کے بعد شیخ محی الدین حسین طوسی حلب میں مقیم ہو گئے اور وہیں سلسلہ تبلیغ و اِرشاد میں مصروف رہے تا آنکہ سنہ 830ھ میں حلب میں ہی اُن کا اِنتقال ہو گیا۔ مرشد کی وفات کے بعد آذری 830ھ میں حلب سے واپس ہوئے اور شیخ محی الدین کی نصیحت کے مطابق نعمت اللہ شاہ ولی (متوفی: 834ھ) کی خدمت میں پہنچ گئے جو خود بھی صوفی شاعر اور مصنف تھے۔ یہاں مشغولِ مشاہدہ کے بعد اپنے شیخ نعمت اللہ شاہ ولی سے اجازتِ ارشاد پائی اور خرقۂ تجرید و ترک پہنا اور دوبارہ حج کو پیادہ پَا چلے گئے اور ایک سال مسجد الحرام میں بطور مجاور مقیم رہے۔مکہ مکرمہ میں اقامت کے دوران ہی ایک کتاب سعی الصفاء تصنیف کی۔ حج سے واپسی پرسیر کے لیے ہندوستان چلے آئے اور دہلی سے دکن گئے اور سلطان احمد شاہ بہمنی کے دربار میں پہنچے۔ دربارِ دکن میں قصائد غرّا کہے اور ملک الشعراء بنائے گئے۔ جب 832ھ کے حدود میں حصارِ بیدر کے پاس سلطان احمد شاہ بہمنی نے احمد آباد بیدر کو آباد کیا تو آذری نے سلطانِ مذکور کی مدح اور شہر و عمارات کی تعریف میں قصائد کہے اور بہت سا اِنعام پایا۔[6]

وفات ترمیم

سال 866ھ مطابق 1462ء میں اسفراین میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔[7]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 2، صفحہ 29۔
  2. دولت شاہ سمرقندی: تذکرہ دولت شاہ شعرائے سمرقند، صفحہ 363۔
  3. حافظ ابرو: تاریخ امرای سربداریہ و عاقبت ایشان در پنج رسالہ تاریخی از مؤلفات حافظ ابرو، طبع فلکس تاوَر، پراگ، 1958ء
  4. مطلع سعدین: جلد 3، صفحہ 948۔
  5. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ30۔
  6. مجالس النفائس: صفحہ 10۔
  7. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ30۔