آصف علی زرداری

پاکستان کے سیاستدان اور سابق صدر

آصف علی زرداری (سندھی: آصف علي زرداري؛ پیدائش 26 جولائی 1955ء) ایک پاکستانی سیاست دان ہے جو پاکستان کے 14ویں منتخب صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن تھے۔ نو منتخب صدر زرداری 10 مارچ 2024ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والے ہیں۔[5]

آصف علی زرداری
 

معلومات شخصیت
پیدائش 26 جولا‎ئی 1955ء (69 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نوابشاہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت پاکستان پیپلز پارٹی   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ بینظیر بھٹو   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد بلاول بھٹو زرداری ،  بختاور بھٹو زرداری   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
مناصب
صدر پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
9 ستمبر 2008  – 9 ستمبر 2013 
محمد میاں سومرو  
ممنون حسین  
صدر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آغاز منصب
27 دسمبر 2015 
رکن پندرہویں قومی اسمبلی پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
13 اگست 2018  – 10 اگست 2023 
صدر پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آغاز منصب
10 مارچ 2024 
عارف علوی  
 
دیگر معلومات
مادر علمی سینٹ پیٹرک اسکول (1973–1974)
کیڈٹ کالج پٹارو (–1972)  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان [3]،  کارجو   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو [4]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الزام و سزا
جرم منی لانڈرنگ فی: 1990)  ویکی ڈیٹا پر (P1399) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اس سے قبل وہ 2008ء سے 2013ء تک پاکستان کے 11 ویں صدر رہے، جو آزادی کے بعد پیدا ہونے والے پہلے صدر تھے۔ وہ پاکستان کی دو بار منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خاوند ہیں۔ وہ اگست 2018ء سے پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔

سندھ کے ایک زمیندار حاکم علی زرداری کے بیٹے، زرداری 1987ء میں بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد نمایاں ہوئے، جو 1988ء میں انتخاب کے بعد پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ جب بے ث بھٹو کی حکومت کو 1990ء میں صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کر دیا تھا۔ زرداری کو بدعنوانی کے اسکینڈلز میں ملوث ہونے پر بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔[6] جب بے نظیر بھٹو 1993ء میں دوبارہ منتخب ہوئی تو زرداری نے وفاقی وزیر سرمایہ کاری اور پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن کونسل کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو اور زرداری کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد، مرتضیٰ کو 20 ستمبر 1996ء کو کراچی میں پولیس نے قتل کر دیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ایک ماہ بعد صدر فاروق لغاری نے برطرف کر دیا تھا، جب کہ زرداری کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور مرتضیٰ کے قتل کے ساتھ ساتھ کرپشن کے الزامات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔[7][8]

اگرچہ قید میں تھے، انھوں نے 1990ء میں قومی اسمبلی اور 1997ء میں سینیٹ کے لیے منتخب ہونے کے بعد برائے نام طور پر پارلیمنٹ میں خدمات انجام دیں۔ وہ 2004ء میں جیل سے رہا ہوئے اور دبئی میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر گئے، لیکن جب بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007ء کو قتل کر دیا گیا تو واپس آ گئے۔ پی پی پی کے نئے شریک چیئرمین کے طور پر، انھوں نے 2008ء کے عام انتخابات میں اپنی پارٹی کو کامیابی دلائی۔ انھوں نے ایک اتحاد کی سربراہی کی جس نے فوجی حکمران پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور 6 ستمبر 2008ء کو صدر منتخب ہوئے۔ اسی سال انھیں مختلف مجرمانہ الزامات سے بری کر دیا گیا۔[9]

اپنی مدت کے اختتام تک، زرداری نے انتہائی کم منظوری کی درجہ بندی ریکارڈ کی، جو 11 سے 14 فیصد تک تھی۔[10][11] 2013ء کے عام انتخابات میں پی پی پی کی بھاری شکست کے بعد، زرداری 9 ستمبر 2013ء کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے والے ملک کے پہلے صدر بنے۔ سیاسی مبصرین نے اس کی انتظامیہ پر بدعنوانی کا الزام لگایا۔ تاہم، وہ ایک اتحادی معاہدے کی وجہ سے مارچ 2024ء میں دوبارہ پاکستان کے صدر بننے والے ہیں جو 2024ء کے پاکستانی عام انتخابات کے بعد طے پایا تھا۔[12]

آصف علی زرداری اور وزیر اعظم بینظیر بھٹو, صدر جارج بش اول اور اس کی اہلیہ کے ہمراہ بلاک ہاؤز میں

بچپن اور تعلیم ترمیم

زرداری 26 جولائی 1955ء کو کراچی، سندھ میں ایک ممتاز سندھی گھرانے میں پیدا ہوئے اور انھوں نے کراچی میں پرورش اور تعلیم حاصل کی۔[13][14] ان کا تعلق زرداری خاندان سے ہے اور وہ حاکم علی زرداری، ایک قبائلی سردار اور ممتاز زمیندار اور بلقیس سلطانہ زرداری کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ ان کی پھوپھی عراقی نژاد تھیں، جب کہ ان کی والدہ حسن علی آفندی کی پوتی تھیں، جو سندھی ماہر تعلیم ہیں جنہیں سندھ مدرستہ الاسلام کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے۔[15][16][17]

اپنی جوانی میں، وہ پولو اور باکسنگ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ انھوں نے پولو ٹیم کی قیادت کی جسے زرداری فور کہا جاتا ہے۔ ان کے والد بیمبینو کے مالک تھے جو کراچی کا ایک مشہور سنیما تھا اور اس نے اپنے اسکول کو فلم کا سامان عطیہ کیا تھا۔ وہ بچپن میں 1969ء کی فلم سالگرہ میں بھی نظر آئے۔ زرداری کا تعلیمی پس منظر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی۔ ان کی باضابطہ سوانح عمری کہتی ہے کہ انھوں نے کیڈٹ کالج، پیٹرو سے 1972ء میں گریجویشن کیا۔[18][19] وہ 1973ء سے 1974ء تک سینٹ پیٹرکس ہائی اسکول، کراچی گئے۔ اسکول کے ایک کلرک کا کہنا ہے کہ وہ وہاں اپنے آخری امتحان میں ناکام ہو گیا تھا۔ مارچ 2008ء میں، اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے لندن بزنس اسکول سے 1970ء کی دہائی کے اوائل میں بیچلر آف ایجوکیشن ڈگری کے ساتھ گریجویشن کیا تھا۔ زرداری کی باضابطہ سوانح عمری میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے برطانیہ کے پیڈنٹن اسکول میں بھی تعلیم حاصل کی۔ تاہم، اس کی برطانوی تعلیم کی تصدیق نہیں ہوئی ہے اور تلاش کے دوران لندن میں کوئی پیڈنٹن اسکول نہیں ملا۔[20][21][22] اس کے ڈپلوما کا مسئلہ متنازع تھا کیونکہ 2002ء کے ایک اصول کے تحت پارلیمنٹ کے امیدواروں کو کالج کی ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت تھی، لیکن اپریل 2008ء میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس اصول کو منسوخ کر دیا تھا۔[23][24]

کرئیر ترمیم

ابتدائی سیاسی کیرئیر اور بے نظیر بھٹو کا دور ترمیم

زرداری کا ابتدائی سیاسی کیرئیر ناکام رہا۔ 1983ء میں، وہ سندھ کے شہر نواب شاہ میں ضلع کونسل کی نشست کے لیے الیکشن ہار گئے، جہاں ان کے خاندان کے پاس ہزاروں ایکڑ کھیتی ہے اس کے بعد وہ رئیل اسٹیٹ میں چلا گیا۔[25]

1987ء آصف زرداری کے لیے سب سے فیصلہ کن سال تھا جب ان کی سوتیلی والدہ ٹمی بخاری اور نصرت بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ آصف کا رشتہ طے کیا۔ 18 دسمبر 1987ء کو ہونے والی یہ شادی کراچی کی یادگار تقاریب میں شمار ہوتی ہے۔ جس کا استقبالیہ امیر ترین علاقے کلفٹن کے ساتھ ساتھ غریب ترین علاقے لیاری کے ککری گراؤنڈ میں بھی منعقد ہوا اور امرا کے شانہ بشانہ ہزاروں عام لوگوں نے بھی شرکت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اندوہناک واقعہ کے بعد بے نظیر بھٹو اور ان کے لاکھوں سیاسی پرستاروں کے لیے یہ پہلی بڑی خوشی تھی۔ کراچی میں غروب آفتاب کی شاندار تقریب کے بعد رات کی بے پناہ تقریبات ہوئی جس میں 100,000 سے زیادہ لوگ شامل تھے۔ اس شادی نے ایک ایسے ملک میں بھٹو کی سیاسی پوزیشن کو بڑھایا جہاں بڑی عمر کی غیر شادی شدہ خواتین کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ زرداری نے سیاست سے دور رہنے پر رضامندی دے کر اپنی اہلیہ کی خواہش کو ٹال دیا۔[26][27]

1988ء میں جنرل محمد ضیاء الحق طیارہ حادثے میں انتقال کر گئے۔ چند ماہ بعد، بے نظیر پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں جب ان کی پارٹی نے 1988ء کے انتخابات میں 207 میں سے 94 نشستیں جیتیں۔

سیاست میں شمولیت اور بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور ترمیم

اپریل 1993ء میں، وہ نگران حکومت میں کابینہ کے 18 وزراء میں شامل تھے جنھوں نے نواز شریف کی پہلی مختصر وزارتِ عظمیٰ کے بعد کامیابی حاصل کی۔ نگراں حکومت جولائی کے انتخابات تک قائم رہی۔ بے نظیر کے انتخاب کے بعد، انھوں نے ان کے وزیر سرمایہ کاری، انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔[28][29]

فروری 1994ء میں، بے نظیر نے زرداری کو عراق میں صدام حسین سے ملاقات کرنے کے لیے بھیجا تاکہ مبہم کویت-عراق سرحد پر گرفتار کیے گئے تین پاکستانیوں کے بدلے دوائی فراہم کی جا سکے۔ اپریل 1994ء میں، زرداری نے ان الزامات کی تردید کی کہ وہ ایک شریک حیات کے طور پر غیر منظم اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور "ڈی فیکٹو پرائم منسٹر" کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ مارچ 1995ء میں، وہ نئی انوائرمنٹ پروٹیکشن کونسل کے چیئرمین مقرر ہوئے۔[30]

نومبر 1996ء میں، بھٹو کی حکومت کو فاروق لغاری نے بنیادی طور پر کرپشن اور مرتضیٰ بھٹو کی موت کی وجہ سے برطرف کر دیا تھا۔ زرداری کو لاہور سے دبئی فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا گیا۔[31]

مقدمات ترمیم

پانچ نومبر 1996ء کو دوسری بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد آصف زرداری کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس میں آیااور اس نے ہی ان کو قتل کیا۔ نواز شریف حکومت کے دوسرے دور میں ان پر سٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے، سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے، برطانیہ میں راک وڈ سٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور سپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈل سمیت متعدد کیسز بنائے گئے۔ اس طرح کی فہرستیں بھی جاری ہوئیں کہ آصف علی زرداری نے حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی، چھ شوگر ملوں میں حصص لیے۔ برطانیہ میں نو، امریکا میں نو، بلجئم اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی۔ جبکہ اپنی پراسرار دولت کو چھپانے کے لیے سمندر پار کوئی چوبیس فرنٹ کمپنیاں تشکیل دیں۔ اس دوران میں انھوں نے تقریباً دس سال قید میں کاٹے اور 2004ء میں سارے مقدمات میں بری ہونے کے بعد ان کو رہا کر دیا گیا-جبکہ یہ سب الزامات برحق تھے۔[32]

 

قومی مفاہمت فرمان کے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران میں قومی احتساب دفتر نے عدالت کو بتایا گیا کہ آصف علی زرداری نے بینظیر کی حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔[33][34]

جیل ترمیم

غلام اسحاق خان سے لے کر نواز شریف اور پرویز مشرف تک کی حکومتوں نے اندرون و بیرونِ ملک ان الزامات، ریفرینسز اور مقدمات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خطیر رقم خرچ کی۔ بالآخر عمران خان کی حکومت بھی اپنی سی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔

آصف زرداری تقریباً مل ملا کر گیارہ برس جیل میں رہے۔ 10 اکتوبر 1990ء بروز بدھ پہلی بار گرفتار ہوئے، دو سال 3ماہ 6دن کی قید کے بعد 6 فروری 1993ء کو رہا ہوئے، 4 نومبر 1996ء کو دوسری بار گرفتار ہوئے، 8 سال 18 دن جیل میں رہ کر 22 نومبر 2004ء کو رہا ہوئے۔[35] 2019ء میں تیسری بار گرفتار کیا گیا اور پھر چھ ماہ بعد رہا کر دیا گیا۔

جیل میں بھی آصف زرداری مرکزِ توجہ رہے۔ کیونکہ انھوں نے قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی کام کیے، جن میں کھانے اور کپڑوں کی تقسیم اور نادار قیدیوں کی ضمانت کے لیے رقم کا بندوبست بھی شامل رہا۔ دورانِ قید ان پر جسمانی تشدد بھی ہوا۔ لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

صدر پاکستان ترمیم

پہلی بار صدر ترمیم

جب پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے مابین امریکا، برطانیہ اور بعض بااثر دوستوں کی کوششوں سے مصالحت کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد سے اس کے اور آصف زرداری کے خلاف عدالتی تعاقب سست پڑنے لگا۔ کوئی ایک مقدمہ بھی یا تو ثابت نہیں ہو سکا یا واپس لے لیا گیا یا حکومت مزید پیروی سے دستبردار ہو گئی۔ اس سلسلے میں اکتوبر دو ہزار سات میں متعارف کرائے گئے متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ شروع میں اندازہ یہ تھا کہ آصف زرداری صرف پارٹی قیادت پر توجہ مرکوز رکھے گا اور "مسٹر سونیا گاندھی" بن کے رہے گا۔ لیکن پھر اس نے ملک کا صدر بننے کا فیصلہ کر لیا۔[36][37] اگست 2008ء میں الطاف حسین نے زرداری کا نام صدر پاکستان کے عہدہ کے لیے تجویز کیا، جس کے بعد پیپلز پارٹی نے با ضابطہ طور پر اس کو 6 ستمبر 2008ء کے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کر دیا۔ عموماً صدر نامزد ہونے والے سیاسی جماعت سے مستعفی ہو جاتے ہیں مگر زرداری نے ایسا نہیں کیا بلکہ پیپلز پارٹی کا فعال سربراہ بھی رہا۔ کچھ مبصرین کے مطابق ایسا اس طرح ممکن ہوا کیونکہ روایت کے باوجود غیر سیاسی ہونے کی شِک آئین پاکستان میں موجود نہیں - بالآخر عدالت عالیہ لاہور نے زرداری کو مشورہ دیا کہ آئین کی روح کے مطابق صدر رہتے ہوئے سیاسی عہدہ رکھنا مناسب نہیں، تاہم اس فیصلے میں کوئی حکم صادر کرنے سے گریز کیا گیا۔[38] 2013ء انتخابات کے عین پہلے عدالتی فیصلہ کے ڈر سے زرداری جماعت کی سربراہی سے علاحدہ ہو گیا۔ 8 ستمبر 2013ء کو مدّت ختم ہونے پر زرداری کو صدارت کی کرسی خالی کرنا پڑی۔[39][40] چائنا کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت پاکستان میں سی پیک کا آغاز آصف زرداری کی اہم کامیابی ہے جس کے لیے انھوں نے چینی حکومت کے ساتھ 13 بار مذاکراتی عمل میں حصہ لیا۔[41]

دوسری بار صدر ترمیم

3 مارچ 2024ء کو، اسپیکر قومی اسمبلی پاکستان نے تصدیق کی کہ پاکستانی پارلیمنٹ 9 مارچ 2024ء کو پاکستان کے نئے صدر کے انتخاب کے لیے اجلاس کرے گی، جس میں زرداری نے کامیابی حاصل کی۔ وہ پاکستان کے دو بار صدر منتخب ہونے والے پہلے شہری بن گئے۔[42]

الزامات ترمیم

زرداری پر مالی بدعنوانی کے بے شمار الزامات آئے۔ رشوت خوری کی شہرت کی وجہ سے "Mr. 10%" کا عوامی اور اخباری خطاب پایا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف کے دور میں لمبی جیل کاٹی۔ پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں 2007ء، 2008ء، میں آپ کے خلاف تمام بدعنوانی کے مقدمات ختم کر دیے گئے۔ چودھری اعتزاز احسن جیسی مقتدر شخصیات نے ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو درست کہا ہے [43] بینظیر کے 2007ء قتل کے بعد جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئے اور پیپلزپارٹی کا بینظیر کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ شریک قائد کا عہدہ سنبھالا۔ 2007ء الیکشن کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو پس منظر سے چلا رہے ہیں۔ 2008ء میں مختلف موقعوں پر پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے نواز شریف سے کھلے عام تحریری معاہدہ کرنے کے چند روز بعد مُکر جانے کے طریقہ کو یہ کہہ کر صحیح طرز عمل گردانا کہ "معاہدے حدیث نہیں ہوتے۔ "[44]

برطانوی اخبار کے مطابق زرداری کے وکلا نے لندن کی عدالت میں جواب داخل کرایا تھا کہ زرداری کے معالجوں کے مطابق وہ ذہنی مریض ہیں، اس لیے عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔[45]

اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ افغان نژاد زلمے خلیل زاد کے زرداری سے روابط پر امریکی افسروں نے خلیل زاد کی پیشی کی۔ زرداری نے امریکی حکام کو بتایا کہ خلیل زاد انھیں مشورے اور مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔[46] آصف علی زرداری نے صدر بنتے ہی اپنے اثر رسوخ استعمال کرنا شروع کر دیا اور اپنے اوپر قائم تمام مقدمات رفتہ رفتہ ختم کرواتے چلے گئے، ان کے مقدمات ختم کروانے میں سابق چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر کا بڑا ہاتھ تھا شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کہ ان کی حتی المکان کوشش رہی کے افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے پر نہ بحال ہوں۔

جنوری 2010ء میں قومی احتساب دفتر نے پس پردہ زرداری کے لیے کام کرنے والے ناصر خان کی اسلام آباد میں 2460 کنال زمین کو سرکاری سپردگی میں لینے کا حکم دیا۔[47]

ذہنی استطاعت ترمیم

بینظیر کی چوتھی برسی پر صدر پاکستان کی کرسی سنبھالے زرداری نے نوڈیرو کے شہر میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے منصف اعظم افتخار چودھری سے طنزیہ سوال کرتے ہوئے کہا:[48]

لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ بی بی کے کیس کا کیا بنا؟ اسی بارے میں ’میں بھی پوچھتا ہوں چودھری افتخار جج صاحب سے کہ بی بی کے کیس کا کیا ہوا؟‘

— 

ذاتی زندگی ترمیم

خاندان ترمیم

زرداری اور بے نظیر بھٹو کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئرمین ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی، بختاور بھٹو، 25 جنوری 1990ء کو پیدا ہوئی اور ان کی چھوٹی بیٹی، آصفہ، 3 فروری 1993ء کو پیدا ہوئیں۔ بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد ان کی بہن فریال تالپور ان کے بچوں کی سرپرست بنیں اور انھوں نے بلاول زرداری کا نام بدل کر بلاول بھٹو زرداری رکھ دیا۔[49][50]

نومبر 2002ء میں ان کی والدہ کا انتقال جیل میں حراست کے دوران ہوا تھا۔ ان کے والد حاکم علی زرداری کا انتقال مئی 2011ء میں ہوا تھا۔[51] اس کے بعد وہ زرداری قبیلے کے سردار بن گئے۔ تاہم، ابتدائی طور پر انھوں نے قیادت نہ سنبھالنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ عہدہ اپنے بیٹے بلاول کو دینا چاہتے تھے۔[52]

دولت ترمیم

2005ء میں، روزنامہ پاکستان نے رپورٹ کیا کہ وہ 1.8 بلین ڈالر کے تخمینہ کے ساتھ پاکستان کے دوسرے امیر ترین آدمی تھے۔[53] جب ان کی بیوی وزیر اعظم تھی تو اس نے بڑی دولت جمع کی تھی۔ 2007ء میں،[54] انھوں نے اپنے نام سے آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنے سوئس بینک اکاؤنٹ میں $60 ملین وصول کیے۔ اس کے پاس سری، ویسٹ اینڈ (لندن)، مینہیٹن (بیلیئر اپارٹمنٹس میں ایک کنڈومینیم) اور دبئی،[55] کے ساتھ ساتھ نارمنڈی میں 16ویں صدی کے چیٹو میں جائیدادیں ہیں۔ برطانیہ میں، اس نے ایک عام قانونی آلہ استعمال کیا، بھٹو کے خاندانی تعلق کے بغیر نامزد افراد کے ذریعے جائداد کی خریداری کی۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ان کے گھروں کو بالترتیب بلاول ہاؤس اول، بلاول ہاؤس دوم اور زرداری ہاؤس کہا جاتا ہے۔[56][57]

بیرونی روابط ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/zardari-asif-ali — بنام: Asif Ali Zardari — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000026852 — بنام: Asif Ali Zardari — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. ربط : https://d-nb.info/gnd/1025833937  — اخذ شدہ بتاریخ: 25 جون 2015 — اجازت نامہ: CC0
  4. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 10 مئی 2020
  5. "Zardari returns to Office of President for second time" (بزبان انگریزی)۔ 2024-03-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 مارچ 2024 
  6. "Profile: Pakistan: leaders"۔ BBC News۔ 7 May 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جون 2009 
  7. "Pakistan ex-premier's spouse indicted for murder". The New York Times. 6 July 1997.
  8. Burns, John F (5 November 1996). "Pakistan's Premier Bhutto is put under house arrest". The New York Times
  9. Ishaq Tanoli (10 April 2008)۔ "SHC acquits Zardari in Murtaza murder case"۔ Dawn۔ Pakistan۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مئی 2018 
  10. "Zardari has abysmally low approval rating"۔ The Times of India۔ 28 June 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2015 
  11. Aziz Nayani (9 May 2013)۔ "Democracy's Surprisingly Low Approval Rating in Pakistan"۔ The Atlantic۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2015 
  12. Hannah Ellis-Petersen (3 March 2024)۔ "Shehbaz Sharif sworn in as prime minister of Pakistan"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 مارچ 2024 
  13. Christopher Riches، Jan Palmowski (18 February 2021)۔ "Zardari, Asif Ali"۔ A Dictionary of Contemporary World History (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-189094-9۔ doi:10.1093/acref/9780191890949.001.0001 
  14. Wilkinson, Isambard (4 September 2008)۔ "Profile: Asif Ali Zardari, Pakistan's probable next president, is living the dream"۔ The Daily Telegraph۔ London۔ 12 جنوری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جون 2009 
  15. Pakistan Journal of History and Culture۔ National Institute of Historical and Cultural Research۔ 1996۔ صفحہ: 82۔ The second son Hakim Ali Zardari, left his place of birth, Phatohal Zardari, and settled in the village Mir Khan Zardari village where he started cultivating ancestral lands. He married Bilqees Khanum, daughter of Hasan Ali Memon and grand daughter of the famous scholar Hasan Ali Effendi. 
  16. Selections from Regional Press۔ Institute of Regional Studies۔ 2008۔ صفحہ: 48۔ On his maternal side, he is the great-grandson of Khan Bahadur Hassan Ali Effendi, the founder of first educational institution for the Muslims of Sindh. The founder of Pakistan, Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah, was among the prominent students to graduate from the Sindh Madrassa. 
  17. Current Biography Yearbook۔ H.W. Wilson۔ 2009۔ صفحہ: 623۔ On his maternal side, Zardari is the great-grandson of Khan Bahadur Hassan Ali Effendi ["Afandi" in some sources), the founder of Sindh Madrasatul Islam, the first educational institution for Muslims in Sindh. 
  18. "President Asif Ali Zardari"۔ gov.pk۔ 29 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2011 
  19. Wonacott, Peter (5 September 2008)۔ "Zardari set to assume Pakistan's presidency"۔ The Wall Street Journal۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2009 
  20. Wonacott, Peter (5 September 2008)۔ "Zardari set to assume Pakistan's presidency"۔ The Wall Street Journal۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2009 
  21. Perlez, Jane (11 March 2008)۔ "From prison to zenith of politics in Pakistan"۔ The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جون 2011 
  22. Ellick, Adam B. (16 July 2010)۔ "Pakistani legislators face accusations of faking their degrees"۔ The New York Times۔ 10 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جون 2011 
  23. Wonacott, Peter (5 September 2008)۔ "Zardari set to assume Pakistan's presidency"۔ The Wall Street Journal۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2009 
  24. Ellick, Adam B. (16 July 2010)۔ "Pakistani legislators face accusations of faking their degrees"۔ The New York Times۔ 10 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جون 2011 
  25. Wonacott, Peter (5 September 2008)۔ "Zardari set to assume Pakistan's presidency"۔ The Wall Street Journal۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2009 
  26. "Pakistan opposition leader's wedding spurs frenzied protest"۔ The Durant Daily Democrat۔ Durant, Oklahoma۔ 20 December 1987۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولا‎ئی 2011 
  27. Weisman, Steven R (19 December 1987)۔ "The Bride Wore White; 100,000 Sang Slogans"۔ The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 مارچ 2011 
  28. "Government arrests husband of Bhutto"۔ The Spokane Chronicle۔ Spokane, Washington۔ 10 October 1990۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولا‎ئی 2011 
  29. "Police arrest Bhutto's husband"۔ The Reading Eagle۔ Reading, Pennsylvania۔ 10 October 1990۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولا‎ئی 2011 
  30. Burns, John F (5 November 1996)۔ "Pakistan's Premier Bhutto is put under house arrest"۔ The New York Times۔ 18 فروری 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مارچ 2011 
  31. Burns, John F (5 November 1996)۔ "Pakistan's Premier Bhutto is put under house arrest"۔ The New York Times۔ 18 فروری 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مارچ 2011 
  32. John F. Burns (9 January 1998)۔ "House of graft: tracing the Bhutto millions"۔ The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2001 
  33. آسٹریلین، 18 دسمبر 2009ء، "Asif Ali Zardari on shaky ground after amnesty overturned "
  34. دی آسٹریلین 10 دسمبر 2009ء، "Watchdog claims Zardari reaped $1.7bn during Bhutto's rule "
  35. https://e.jang.com.pk/pic.asp?npic=06-17-2019/Lahore/images/06_005.png
  36. Orr, James (9 September 2008)۔ "Civilian rule returns to Pakistan as Asif Ali Zardari becomes President"۔ The Guardian۔ UK۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2011 
  37. James Traub (31 March 2009)۔ "Can Pakistan Be Governed? And Is Asif Ali Zardari the Man to Do the Job?"۔ The New York Times Magazine۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2017 
  38. "Pakistan court ruling on Zardari 'political role'"۔ بی بی سی۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2011 
  39. "Pakistani president Asif Ali Zardari set to step down at end of five-year term"۔ The Independent۔ London۔ 8 September 2013 
  40. "Pakistani President Asif Ali Zardari steps down as his term ends"۔ The Washington Times 
  41. Nihao Salam۔ "Pakistan, China sign agreements, MoUs on Economic Corridor Plan, maritime cooperation"۔ www.nihao-salam.com۔ 11 مارچ 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مئی 2017 
  42. "Pakistani parliament to meet on Mar. 9 to elect new president, Asif Ali Zardari front-runner"۔ Arab News۔ March 3, 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ March 3, 2024 
  43. روزنامہ نیشن، 8 جون 2008ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "Aitzaz says 'most' graft charges against Zardari & Benazir were justified"
  44. bbc 23 اگست 2008ء، "معاہدے حدیث یا قرآن نہیں: زرداری"
  45. انڈپنڈنٹ، 26 اگست 2008ء، "Questions raised over Zardari mental health"
  46. نیویارک ٹائمز، 25 اگست 2008ء، "U.N. Envoy’s Ties to Pakistani Are Questioned "
  47. نیشن، 23 جنوری 2010ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "Seizure order for president’s front man land by NAB"
  48. "'جسٹس افتخار سے پوچھتا ہوں کہ بی بی کیس کا کیا بنا'"۔ بی بی سی موقع۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2011 
  49. "Profile: Bilawal Bhutto Zardari"۔ BBC News۔ 30 December 2007۔ 15 جولا‎ئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولا‎ئی 2011 
  50. Koster, Suzanna (17 May 2007)۔ "No grand return for Pakistan's Bhutto"۔ The Christian Science Monitor۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2011 
  51. Mohsin Ali (29 May 2011)۔ "Bilawal to head Zardari tribe"۔ Gulf Daily News۔ Manama, Bahrain۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2011 
  52. "Dastar bandi: Zardari takes over as chief of his own tribe – The Express Tribune"۔ The Express Tribune۔ 30 December 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مئی 2018 
  53. Salik Malik (26 October 2008)۔ "President Asif Ali Zardari 2nd most richest man of Pakistan"۔ Daily Pakistan۔ 13 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولا‎ئی 2011 
  54. Borger, Julian (31 December 2007)۔ "Asif Ali Zardari: 'His elevation will turn off floating voters. It will hurt the party'"۔ The Guardian۔ UK۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2011 
  55. Salik Malik (26 October 2008)۔ "President Asif Ali Zardari 2nd most richest man of Pakistan"۔ Daily Pakistan۔ 13 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولا‎ئی 2011 
  56. "Pakistan's Sharif barred from election"۔ Singapore: Channel NewsAsia۔ 3 December 2007۔ 28 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2011 
سیاسی جماعتوں کے عہدے
ماقبل  شریک امیر مجلس (شریک چئیرمین) پاکستان پیپلز پارٹی
2007–تا حال
مع شراکت: بلاول بھٹو زرداری
برسرِ عہدہ
سیاسی عہدے
ماقبل  صدر پاکستان
2008–تاحال
برسرِ عہدہ