آمری صوبہ سندھ میں ضلع جامشورو کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر دریا سے ایک میل کے فاصلے پر آباد ہے۔ آمری کی قدیم بستی دو ٹیلوں پر مشتمل ہے جو موجودہ آمری گائوں کے قریب تر شمال میں واقع ہے۔ ایک ٹیلہ چالیس فٹ اونچا ہے۔ دوسرا تیرہ فٹ بلندہے۔ غالباً ایک زمانے میں یہ ایک گاؤں رہا ہوگا جو چوبیس ایکڑ پر پھیلا ہوگا۔ اس میں پانچ مرتبہ آبادی رہی ہے۔ سب سے قدیم آبادی بقول ڈاکڑ رفیق مغل کے 3540 ق م سے کر 3240 ق م کے درمیان آباد رہی ہے۔ جے ایم کیسل کے مطابق ٹیلہ قدیم آبادی پر مشتمل ہے اور ٹیلہ بعد کی آبادی ہے۔ آمری کے پہلے زمانے سے جو برتن ملے ہیں ان میں 82 فیصد ہاتھ سے بنے ہوئے ہیں اور باقی ماندہ 18 فیصد چاک پر بنے باریک دیوار کے نفیس برتن ہیں۔ مٹی بادامی نما یا گلابی نما سرخ ہے۔ برتنوں میں جو آرائشی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ ان کی شکل ہندسی ہیں، بھدی ہیں اور کہیں کہیں ان میں سرخ و سیاہ رنگ استعمال کیا گیا ہے۔ اس دوران اکا دکا تانبے کے ٹکڑے بھی ملتے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے بلیڈ، پتھر کے گولے، کچھ مٹی کے بنے موتی ایک دو مٹی کی چوڑیاں اور ایک دو گونگھے کی بنی ہوئی چوڑیاں ملی ہیں۔ اس زمانے مستقل قیام گاہیں نہیں ملی ہیں۔ کچھ کچھ اینٹوں کی بنی دیواریں ملی ہیں۔ جن میں بعض جگہ لکڑی کے ستون لگائے گئے ہیں۔ بعد میں یہی فن تعمیر موہنجو ڈارو کے عظیم اناج گھر کی تعمیر میں استعمال کی گیا۔ ان میں بعض عمارتیں تہ خانوں کے اوپر بنی ہوئی ہیں۔ تہ خانوں میں داخل ہونے کا واحد راستہ ان کی چھت سے اترتا ہوگا۔ کیوں کہ چار دیواروں میں کوئی دروازہ نہیں تھا۔ ان میں بعض برتنوں میں توگاؤ نقاشی کی گئی ہے۔ جس کا مطلب ہے قلات میں سراب دمب کے علاقے ملنے والی کوئٹہ ثقافت سے بھی اس کا رشتہ مظبوط ہے۔ کچھ جگہوں سے ناقص عقیق کے چاقو نما پھل ملے ہیں۔ پہلے زمانے کے پہلے حصے تو مستقل قیام گاہیں نہیں ملی ہیں۔ یہ لوگ جھوپنڑیوں میں رہتے ہوں گے۔ یعنی ابتدا میں پورے بلوچستان اور سندھ میں وہی جھونپڑی ثقافت ہی تھی۔ اس دور میں چاک کے برتن زیادہ ہوجاتے ہیں اور ان پر آرائش بڑھ جاتی ہے اور پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ بارہ سنگھے کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ پہلے زمانے کے تیسرے حصے میں برتنوں کی آرائش کثیر رنگی ہوجاتی ہے۔ پہلے زمانے کے چوتھے حصے میں نئے اور اہم عناصر سامنے آتے ہیں۔ وہ برتنوں میں پر بنی ہوئی تصویروں میں کہیں کہیں جانوروں خاص طور پر بیل کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ یہ تصویریں ایک خاص پٹی میں بنائی گئی ہیں۔ یہ وہ ساری خصوصیات ہیں جو بعد میں وادی سندھ کی تہذیب میں زیادہ ترقی یافتہ شکل میں نظر آتی ہیں۔ اس گاؤں کا دوسرا زمانہ وادی سندھ کی تہذیب سے زیادہ قریب ہے۔ تیسرا زمانہ چار حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے زمانے کے تین حصے وادی سندھ سے مماثل ہیں اور چوتھا حصہ اس سے بعد کا ہے جسے جھوکر ثقافت کہتے ہیں۔ چوتھا زمانہ اسے بھی بعد کی ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسے جھنگر ثقافت بھی کہتے ہیں۔ اس سے ملتے جلتے برتنوں کے ٹکڑے چنہو دڑو سے ملے ہیں۔ آمری کے تیسرے زمانے سے مستطیل شکل کی عمارتیں ملی ہیں۔ جن میں چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں۔ جو بقول جے ایم کیسل کے اتنے تنگ ہیں کہ رہا ہش کے قابل نہیں ہیں۔ ان کی دیواروں میں کھڑکیاں اور دروازے بھی نہیں ہیں۔ ان میں سے اکثر خالی تھے اور بعض ملبے اور کچی اینٹوں سے بھر گئے تھے۔ صرف ایک گھر میں دو کمروں کے درمیان دروازے کی جگہ چھوڑ دی گئی ہے۔ ان کی دیواریں پانچ سے چھ فٹ انچیں تھیں۔ اس سے اوپر اگر تعمیر تھی تو وہ محفوظ نہیں رہی ہیں۔ کیسل کا خیال ہے کہ جنگلی جانوروں سے بچنے کے لیے بنیاد بنائی گئی تھی اور اس کے اوپر رہائشی جھگیاں بنائی گئی ہوں گی۔ آمری کا چوتھا زمانہ یعنی 300 عیسویں میں یہاں آبادی رہی ہوگی۔ آمری کا پانچواں زمانہ سولھویں صدی کا مسلم زمانہ ہے۔ اس سے پہلے 1300 سو سال تک یہ جگہ ویران رہی ۔

آمری، سندھ کے قدیم ٹیلے

حوالہ جات ترمیم