آیت مباہلہ

ایک مشہور قرآنی آیت، آیت مباہلہ

سورہ آل عمران کی آیت جس میں پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ پیش آنے والا مشہور واقعہ یعنی واقعہ مباہلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ امام رضا اس آیت کو قرآن کریم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی فضیلت قرار دیتے ہیں۔[1]

مباہلہ کے معنی ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بددعا کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ جب دو فریقوں میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف ونزاع ہو اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہیٰ میں یہ دعا کریں کہ یااللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اس پر لعنت فرما۔[2]

آیت کی خصوصیات
آیت کا نام: آیت مباہلہ
محل نزول: مدینہ منورہ
شان نزول: نجران کے نصاری کا پیغمبر اکرمؐ سے مناظرہ
نفس مضمون: پیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ
پارہ: 3، تلک الرسل
سورہ کا نام آل عمران
آیت نمبر: 61
صفحہ نمبر: 57

آیت مباہلہ ترمیم

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيہِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ

ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی ) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس (حضرت عیسٰی ) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمھارے بیٹوں اور اپنی عورتوں اور تمھاری عورتوں اور اپنے نفسوں کو اور تمھارے نفسوں کو، بلالیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔[3]

شأن نزول ترمیم

لیکن پھر ان میں بڑے سردار تین شخص تھے عاقب جو امیر قوم تھا اور عقلمند سمجھا جاتا تھا اور صاحب مشورہ تھا اور اسی کی رائے پر یہ لوگ مطمئن ہو جاتے تھے اور سید جو ان کا لاٹ پادری تھا اور مدرس اعلیٰ تھا یہ بنوبکر بن وائل کے عرب قبیلے میں سے تھا لیکن نصرانی بن گیا تھا اور رومیوں کے ہاں اس کی بڑی آؤ بھگت تھی اس کے لیے انھوں نے بڑے بڑے گرجے بنا دیے تھے اور اس کے دین کی مضبوطی دیکھ کر اس کی بہت کچھ خاطر و مدارات اور خدمت و عزت کرتے رہتے تھے[4]


غرض یہ وفد مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد نبوی میں حاضر ہوا نماز کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی گفتگو ہوئی ادھر سے بولنے والے یہ تین شخص تھے حارثہ بن علقمہ عاقب یعنی عبدالمسیح اور سید یعنی ایہم یہ گو شاہی مذہب پر تھے لیکن کچھ امور میں اختلاف رکھتے تھے۔ مسیح کی نسبت ان کے تینوں خیال تھے یعنی وہ خود اللہ جل شانہ ہے اور اللہ کا لڑکا ہے اور تین میں کا تیسرا ہے جب یہ تینوں پادری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کر چکے تو آپ نے فرمایا تم مسلمان ہو جاؤ انھوں نے کہا ہم تو ماننے والے ہیں ہی، آپ نے فرمایا نہیں نہیں تمھیں چاہیے کہ اسلام قبول کر لو وہ کہنے لگے ہم تو آپ سے پہلے کے مسلمان ہیں فرمایا نہیں تمھارا اسلام قبول نہیں اس لیے کہ تم اللہ کی اولاد مانتے ہو صلیب کی پوجا کرتے ہو خنزیر کھاتے ہو۔ انھوں نے کہا اچھا پھر یہ تو فرمائے کہ سیدنا [[عیسیٰ] علیہ السلام کا باپ کون تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس پر خاموش رہے اور سورۃ آل عمران کی شروع سے لے کر اوپر اوپر تک کی آیتیں ان کے جواب میں نازل ہوئیں[5]

شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرمؐ کے ساتھ نجران کے نصارٰی کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ کیونکہ نصارٰی (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیؑ تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے؛ وہ عیسیؑ کے بارے میں قرآن کریم کی وحیانی توصیف سے متفق نہیں تھے جو انھیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے؛ حتی کہ آپؐ نے انھیں للکارتے ہوئے مباہلے کی دعوت دی۔[6]

اہل سنت کے مفسرین (زمخشری [7]، فخر الدین رازی [8]، بیضاوی[9] اور دیگر) نے کہا ہے کہ “ابناءنا” ہمارے بیٹوں سے مراد حسن اور حسین ہیں اور “نسا‏‏ءنا” سے مراد فاطمہ زہراء علیہا السلام اور “انفسنا” ہمارے نفس اور ہماری جانوں سے مراد حضرت علیؑ ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرتؐ کے ساتھ مل کر پنجتن ، آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں۔ اور اس آیت کے علاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی، کے مطابق آیت تطہیر اس آیت کے بعد ان کی تعظیم اور ان کی طہارت پر تصریح و تاکید کے لیے نازل ہوئی ہے۔

تفسیر ترمیم

تمام بڑی تفاسیر میں اس آیت کی تفسیر بیان کی گئی ہے، چند ایک مندرجہ ذیل ہیں

تفسیر خزائن العرفان ترمیم

مولانا نعیم الدین مراد آبادی ’’ کنزالایمان‘‘ کے حاشیہ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ

’’ اس موقع پر سرکار دو عالم کے ایک طرف امام حسن دوسری طرف امام حسین اور پیچھے فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا اور حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں اور حضور پاک ان سے فرما رہے ہیں کہ جب میں دعا کروں تو تم سب آمین کہنا۔ چنانچہ جب نصرانیوں کے بڑے پادری نے ان مقدس حضرات کو دیکھا تو کہنے لگا اے جماعت نصاریٰ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے پہاڑ کو ہٹا دینے کی دعا کریں تو اللہ تعالیٰ پہاڑ کو اس جگہ سے ہٹا دے گا، تم ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا۔ یہ سن کر نصاریٰ مباہلہ سے رک گئے اور آخر کار انھوں نے جزیہ دینا منظور کیا۔ سرکار دو عالم نے فرمایا اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر وہ مباہلہ کرتے تو بندروں اور سوروں کی شکل میں مسخ کر دیے جاتے، جنگل آگ سے بھڑک اٹھتا اور وہاں کے رہنے والے پرندے بھی نیست و نابود ہو جاتے اور ایک سال تک تمام نصاریٰ ہلاک ہو جاتے[10]

تفسير ابن كثير ترمیم

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ان یہودیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی پیغام دیا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو مقابلہ میں آؤ ہم تم مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اسے ہلاک کر دے۔ لیکن ساتھ ہی پیشنگوئی بھی کر دی کہ یہ لوگ ہرگز اس پر آمادہ نہیں ہوں گے چنانچہ یہی ہوا کہ یہ لوگ مقابلہ پر نہ آئے اس لیے کہ وہ دل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آسمانی کتاب قرآن کریم کو سچا جانتے تھے اگر یہ لوگ اس اعلان کے ماتحت مقابلہ میں نکلتے تو سب کے سب ہلاک ہو جاتے۔ روئے زمین پر ایک یہودی بھی باقی نہ رہتا۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی آیا ہے کہ اگر یہودی مقابلہ پر آتے اور جھوٹے کے لیے موت طلب کرتے تو سب کے سب مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اسی طرح جو نصرانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے وہ بھی اگر مباہلہ کے لیے تیار ہوتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کا نام و نشان بھی نہ پاتے۔[11]

تفسیر الکشاف ترمیم

زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں:

رسول اللہؐ صل اللہ علیہ وسلم روز مباہلہ باہر آئے جبکہ سیاہ اون کی عبا کاندھوں پر ڈالے ہوئے تھے اور جب امام حسن آئے تو آپؐ نے انھیں اپنی عبا میں جگہ دی،؛ اس کے بعد امام حسینؑ آئے جنہیں آپؐ نے اپنی عبا میں جگہ دی اور اس کے بعد حضرت فاطمہؑ آئیں اور بعد میں علیؑ آئے اور پھر آپؐ نے فرمایا: "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہُ لِيُذْہِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً (ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر پلیدی اور گناہ کو دور رکھے اور تم کو پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔) اہل سنت کے یہ عالم مزید کہتے ہیں: مباہلہ میں بیٹوں اور خواتین کو شامل کرنا وثوق و اعتماد کی بڑی دلیل ہے بجائے اس کہ انسان تنہائی میں مباہلہ کرے۔ آپؐ نے انھیں مباہلے میں شامل کرکے جرئت کی ہے کہ اپنے عزیزوں، اپنے جگر کے ٹکڑوں اور لوگوں میں اپنے نزدیک محبوب ترین افراد کو نفرین اور ہلاکت کے سامنے حاضر کریں اور آپؐ نے صرف اپنی حاضری کو کافی نہیں سمجھا۔ لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ اپنے مخالفین کے جھوٹے ہونے پر یقین کامل رکھتے تھے یہاں تک کہ آپ نے اپنے جگر گوشوں کو ہلاکت و تباہی میں ڈالا بشرطیکہ مباہلہ واقع ہوجائے۔ اور بیٹوں اور خواتین کو اس عمل کے لیے مختص کرنے کا سبب یہ تھا کہ وہ عزیز ترین "اہل" ہیں اور دوسروں سے کہیں زیادہ دل میں جگہ رکھتے ہیں اور شاید انسان خود کو ہلاکت میں ڈال دے اس لیے کہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے؛ چنانچہ جنگجو اپنی خواتین اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے تاکہ دشمن کے سامنے استقامت کریں اور میدان سے فرار نہ کریں۔ اسی بنا پر آیت مباہلہ میں خداوند متعال نے ان ابناء و انفس کو انفس (جانوں) پر مقدم رکھا تاکہ واضح کر دے کہ وہ بیٹے اور خواتین جانوں پر مقدم ہیں۔ اور اس کے بعد زمخشری کہتے ہیں: "یہ دلیل ہے اصحاب کساء کی فضیلت کی جس سے بالاتر کوئی دلیل نہیں ہے"[12]


واقعہ مباہلہ ترمیم

حدیث کی مستند کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے، چند ایک سے اقتباسات درج ذیل ہی

بخاری میں ترمیم

امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں اس قصہ کو ذکر فرمایا ہے۔[13] جب اس آیتِ مباہلہ کا نزول ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے نصارٰی کو مباہلہ کی دعوت دی کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ عیسٰی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں یا تم عقیدہ تثلیث پر یقین رکھتے ہو تو آؤ ہم سے مباھلہ کرو ، لیکن جب یہ آیت انھیں سنائی گئی تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں کچھ سوچنے کا موقع اور مشورہ کی مہلت دی جائے ، پھر جب ان کی مجلس مشاورت قائم ہوئی تو ایک عقلمند بوڑھے نے کہا اے گروہ نصاریٰ تمھیں معلوم ہے کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں سے ایک نبی بھیجنے کا وعدہ کیا ہے ۔ ممکن ہے یہ وہی نبی ہو ۔ جو باتیں اس نے کہی ہیں وہ صاف اور فیصلہ کن ہیں ۔ اگر یہ فی الواقع نبی ہوا او ر تم لوگوں نے مباھلہ کیا تو تمھاری کیا تمھاری نسلوں کی بھی خیر نہ ہوگی ۔ بہتر یہی کہ ہم ان سے صلح کر لیں ۔ اپنے وطن کو لوٹ جائیں۔ چنانچہ دوسرے دن جا کر انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے فیصلے سے مطلع کر دیا اور صلح کی درخواست کی اور جزیہ اداکرنا قبول کر لیا ۔ اس واقعہ کو امام بخاری نے مختصراً الفاظ میں روایت کیا ہے۔سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجران سے عاقب اور سید آپ کے پاس آئے ۔ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مباھلہ کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا ۔''اگر یہ نبی ہوا اورہم نے مباھلہ کیا تو پھر نہ ہماری خیر ہوگی نہ ہماری اولاد کی''پھر انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا :''جو جزیہ آپ مانگتے ہیں ۔ وہ ہم دیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک امین آدمی ہمارے ہمراہ کردیجئے جو فی الواقع امین ہو '' یہ سن کر آپ کے صحابہ انتظار کرنے لگے (کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کا نام لیتے ہیں)چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابو عبیدہ بن جراح ! اٹھو ! جب وہ کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس امت کا امین یہ شخص ہے ۔[14]

سیرت ابن اسحاق ترمیم

ابن اسحاق لکھتے ہیں آپ نے یہ سب تلاوت کر کے انھیں سمجھا دیں۔ اس مباہلہ کی آیت کو پڑھ کر آپ نے فرمایا اگر نہیں مانتے تو آؤ مباہلہ کا نکلو یہ سن کر وہ کہنے لگے اے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مہلت دیجئیے کہ ہم آپس میں مشورہ کر لیں پھر تمھیں اس کا جواب دیں گے اب تنہائی میں بیٹھ کر انھوں نے عاقب سے مشورہ لیا جو بڑا دانا اور عقلمند سمجھا جاتا تھا اس نے اپنا حتمی فیصلہ ان الفاظ میں سنایا کہ اے جماعت نصاریٰ تم نے یقین کے ساتھ اتنا تو معلوم کر لیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور یہ بھی تم جانتے ہو کہ عیسیٰ کی حقیت وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تم سن چکے ہو اور تمھیں بخوبی علم ہے کہ جو قوم نبی کے ساتھ ملاعنہ کرتی ہے نہ ان کے بڑے باقی رہتے ہیں نہ چھوٹے بڑے ہوتے ہیں بلکہ سب کے سب جڑ بنیاد سے اکھیڑ کر پھینک دیے جاتے ہیں یاد رکھو کہ اگر تم نے مباہلہ کے لیے قدم بڑھایا تو تمھارا ستیاناس ہو جائے گا، پس یا تو تم اسی دین کو قبول کر لو اور اگر کسی طرح نہیں ماننا چاہتے ہو اور اپنے دین پر اور عیسیٰ کے متعلق اپنے ہی خیالات پر قائم رہنا چاہتے ہو تو آپ سے صلح کر لو اور اپنے وطن کو لوٹ جاؤ

چنانچہ یہ لوگ صلاح مشورہ کر کے پھر دربار نبوی میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے اے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ سے ملاعنہ کرنے کے لیے تیار نہیں آپ اپنے دین پر رہیے اور ہم اپنے خیالات پر ہیں لیکن آپ ہمارے ساتھ اپنے صحابیوں میں سے کیسی ایسے شخص کو بھیج دیجئیے جن سے آپ خوش ہوں کہ وہ ہمارے مالی جھگڑوں کا ہم میں فیصلہ کر دیں آپ لوگ ہماری نظروں میں بہت ہی پسندیدہ ہیں۔[15]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تم دوپہر کو پھر آنا میں تمھارے ساتھ کسی مضبوط امانت دار کو کر دوں گا،سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کسی دن بھی سردار بننے کی خواہش نہیں کی لیکن اس دن صرف اس خیال سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعریف کی ہے اس کا تصدیق کرنے والا اللہ کے نزدیک میں بن جاؤں، اسی لیے میں اس روز سویرے سویرے ظہر کی نماز کے لیے چل پڑا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے نماز ظہر پڑھائی پھر دائیں بائیں نظریں دوڑانے لگے میں باربار اپنی جگہ اونچا ہوتا تھا تاکہ آپ کی نگاہیں مجھ پر پڑھیں، آپ برابر بغور دیکھتے ہی رہے یہاں تک کہ نگاہیں سیدنا ابو عبید بن جراح رضی اللہ عنہ پر پڑیں انھیں طلب فرمایا اور کہا کہ ان کے ساتھ جاؤ اور ان کے اختلافات کا فیصلہ حق سے کر دو چنانچہ سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تشریف لے گئے[16]

ابن مردویہ میں ترمیم

ابن مردویہ میں بھی یہ واقعہ اسی طرح منقول ہے لیکن وہاں سرداروں کی گنتی بارہ کی ہے اور اس واقعہ میں بھی قدرے طوالت ہے اور کچھ زائد باتیں بھی ہیں

مسند احمد میں ترمیم

مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ابوجہل ملعون نے کہا۔ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھ لوں گا تو اس کی گردن کچل دوں گا فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر وہ ایسا کرتا تو سب کے سب دیکھتے کہ فرشتے اسے دبوچ لیتے اور یہودیوں سے جب قرآن نے کہا تھا کہ آؤ جھوٹوں کے لیے موت مانگو اگر وہ مانگتے تو یقیناً سب کے سب مر جاتے اور اپنی جگہیں جہنم کی آگ میں دیکھ لیتے اور جن نصرانیوں کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تھی اگر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مباہلے کے لیے نکلتے تو لوٹ کر اپنے مالوں کو اور اپنے بال بچوں کو نہ پاتے، صحیح بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے[17]

دلائل النبوۃ میں ترمیم

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی وفد نجران کے قصے کو طویل تر بیان کیا ہے،سلمہ بن عبد یسوع اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں جو پہلے نصرانی تھے پھر مسلمان ہو گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ طس قرآن میں نازل ہونے سے پیشتر اہل نجران کو نامہ مبارک لکھا جس کی عبارت یہ تھی «بسم الہ ابراہیم واسحاق ویعقوب من محمد النبی رسول اللہ الی اسقف نجران واھل نجران اسلم انتم فانی احمد الیکم الہ ابراہیم واسحاق ویعقوب۔ اما بعد فانی ادعوکم الی عبادۃ اللہ من عبادۃ العباد وادعوکم الی ولایتہ اللہ من ولایتہ العباد فان ابیتم فالجزیتہ فان ابیتم فقد اذنتکم بحرب والسلام» یعنی اس خط کو میں شروع کرتا ہوں سیدنا ابراہیم علیہ السلام، سیدنا اسحاق علیہ السلام اور سیدنا یعقوب علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ کے نام سے، یہ خط ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو اللہ رب العزت کے نبی اور رسول، نجران کے سردار کی طرف۔ میں اللہ تعالیٰ کی تمھارے سامنے حمد و ثناء بیان کرتا ہوں جو سیدنا ابراہیم، سیدنا اسحاق اور سیدنا یعقوب کا معبود ہے، پھر میں تمھیں دعوت دیتا ہوں کہ بندوں کی عبادت کو چھوڑ کر اللہ کی عبادت کی طرف آؤ اور بندوں کی ولایت کو چھوڑ کر اللہ کی ولایت کی طرف آ جاؤ، اگر تم اسے نہ مانو تو جزیہ دو اور ماتحتی اختیار کرو اگر اس سے بھی انکار ہو تو تمھیں لڑائی کا اعلان ہے والسلام۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی فضیلت" 
  2. "مباہلہ کے معانی" 
  3. "آیت مباہلہ" 
  4. دلائل النبوۃ للبیهقی۔ صفحہ: 382/5 
  5. دلائل النبوۃ للبیهقی۔ صفحہ: 385/5 
  6. ذیل آیہ مباہلہ (1376)۔ توضیحات و واژہ نامہ از بہاء الدین خرمشاہی۔ صفحہ: 57 
  7. ذیل آیہ 61 آل عمران۔ تفسیر الکشاف 
  8. التفسیر الکبیر  الوسيط |first1= يفتقد |last1= في Authors list (معاونت)
  9. ذیل آیہ 61 آل عمران۔ تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل 
  10. "تفسير خزائن العرفان" 
  11. درجہ صحیح۔ مسند احمد۔ صفحہ: 248/1 
  12. ذیل آیہ مباہلہ۔ فسیر الکشاف 
  13. صحیح بخاری۔ صفحہ: 4380 
  14. "واقعہ مباہلہ بخاری میں" 
  15. 385/5۔ دلائل النبوۃ للبیهقی 
  16. "ابن اسحاق سیرت" 
  17. صحیح بخاری۔ صفحہ: 4958