ابن تغری بردی (پیدائش: 2 فروری 1411ء– وفات: 5 جون 1470ء) مؤرخ مصر و مؤرخ اسلام کی حیثیت سے دنیائے اسلام میں شہرت رکھتے ہیں۔ ابن تغری بردی کا عرصہ حیات نویں صدی ہجری یعنی پندرہویں صدی عیسوی کا ہے جس میں دنیائے اسلام میں کئی سیاسی انقلابات آئے جبکہ مصر میں خلافت عباسیہ قائم تو تھی مگر اُن کی حیثیت صرف کٹھ پتلی خفاء کی سی تھی اور اصل حکمرانی سلطنت مملوک (مصر) کے مملوک سلاطین کے ہاتھوں میں تھی۔ ابن تغری بردی کی وفات کے چند ہی عشروں کے بعد عباسی خلفاء کی خلافت سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں کے سپرد ہو گئی۔ ابن تغری بردی کی وجہ شہرت اُن کی دو بڑی اہم تصانیف المنہل الصافی اور النجوم الزاھرہ ہیں۔

ابن تغری بردی
(عربی میں: يُوسُف بن تغري بردي الأتابكي اليشبقاوي الظاهري ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 2 فروری 1410ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 جون 1470ء (60 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ حافظ ابن حجر عسقلانی ،  بدرالدین عینی ،  احمد بن عربشاہ ،  تقی الدین المقریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  مورخ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [2]،  ترکی زبانیں   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں النجوم الزاھرہ فی ملوک مصر و القاھرہ   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ترمیم

ابن تغری بِردی کا مکمل نام ابو المحاسن جمال الدین بن یوسف بن الامیر سیف الدین تغری بِردِی الاتابکی ہے۔[3]

ولادت ترمیم

امام شمس الدین سخاوی نے ابن تغری بِردی کی تاریخ ولادت شوال المکرم 813ھ مطابق فروری 1411ء لکھی ہے جبکہ براکلمان نے تاریخ ولادت سوموار 7 شوال المکرم 813ھ مطابق 2 فروری 1411ء لکھی ہے۔[4][5]

ابتدائی حالات ترمیم

ابن تغری بِردی کے والد یوسف ایک مملوک تھے جنہیں ایشیائے کوچک یعنی بلاد الروم سے لایا گیا تھا۔ سلطان مصر الظاہر برقوق نے انھیں خریدا اور ترقی دی۔ یوسف سلطان الناصر فرج کے ماتحت 810ھ مطابق 1407ء میں مصری فوجوں کے سپہ سالارِ اعظم یعنی امیر کبیر یا اَتَابک مقرر ہوئے۔ 813ھ میں دمشق میں وہ نائب السلطنت مقرر ہوئے اور اِسی سال ابن تغری بِردی کی ولادت ہوئی۔ 815ھ مطابق 1412ء کے اوائل میں ابن تغری بِردی کے والد دمشق میں فوت ہوئے جب ابن تغری بِردی محض 3 سال کے تھے۔[6] ابن تغری کو اُن کی بہن نے پالا، جو پہلے قاضی کبیر محمد بن العدیم الحنفی کی زوجہ تھیں اور بعد ازاں قاضی کبیر عبد الرحمن البلقینی الشافعی (متوفی 824ھ /1421ء ) کے حبالہ عقد میں آئیں۔

تحصیل علم اور سلاطین مملوک مصر کے دربار تک رسائی ترمیم

ابن تغری نے بہت مشہور علما و اساتذہ سے علوم مروجہ کی تعلیم حاصل کی علاوہ اِس کے موسیقی، زبان ترکی و زبان فارسی بھی سیکھی۔ اِنہی دِنوں اُن کی مصر کے مملوک سلاطین کے دربار تک رسائی ممکن ہو گئی۔ دربارِ مملوک سے وابستگی سے ابن تغری نے فوجی قواعد میں مہارت حاصل کی اور بعد ازاں انھیں ایک جاگیر دربارِ مملوک سے عطا ہوئی۔ 826ھ مطابق نومبر 1423ء میں ابن تغری نے فقط 13 سال کی عمر میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ 849ھ /1445ء میں انھیں حاجیوں کے محافظ دستے کا "پاشا" مقرر کیا گیا اور بعد ازاں اِسی منصب پر 863ھ/ 1459ء میں فائز کیا گیا۔ 836ھ مطابق 1432ء میں ابن تغری نے مملوک سلطان مصر سلطان الاشرف سیف الدین برسبائی کی مہم شام میں سرگرم حصہ لیا۔ یہیں سے اُن کے مملوک سلاطین مصر سے تعلقات گہرے اُستوار ہوئے جو بعد کے مملوک سلاطین مصر کے ساتھ کافی پر اثر واقع ہوئے۔ سلطان الاشرف سیف الدین برسبائی کے عہدِ حکومت میں دربارِ شاہی قاہرہ میں علامہ بدر الدین العینی (متوفی 855ھ مطابق 1453ء) کی کتب پڑھی جاتی تھیں، اِن کتب کی سماعت سے ابن تغری کو بھی تاریخی کتب لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ سلطان الاشرف سیف الدین برسبائی سے ابن تغری کے تعلقات گہرے اُستوار تھے، یہ اِس لیے بھی ہے کہ ابن تغری ابھی 9 سال کے تھے جب قاہرہ میں سلطان برسبائی کی حکومت آئی اور غالبًا 27/28 سال کے تھے جب سلطان برسبائی کا قاہرہ میں اِنتقال ہوا۔ سلطان برسبائی کا عہدِ حکومت 1422ء تا 1438ء تک کا ہے۔

وفات ترمیم

ابن تغری بِردی نے منگل 5 ذو الحجہ 874ھ مطابق 5 جون 1470ء کو 61 سال 1 ماہ 22 دِن کی عمر میں وفات پائی۔[7]

تاریخ میں ابن تغری بِردی کا مقام ترمیم

845ھ مطابق 1442ء میں مورخ مصر تقی الدین أحمد بن على بن عبد القادر بن محمد المقريزى کی وفات اور 855ھ مطابق 1453ء میں علامہ بدر الدین العینی کی وفات کے بعد ابن تغری بِردی مصر کے اہم اور قابل اعتماد مورخ بن گئے جنہیں براہِ راست دربارِ مملوکیہ مصر کے سلاطین کی مکمل حمایت و تائید حاصل تھی۔ یہ بات قابل غور بھی ہے کہ ابن تغری بِردی کے زمانہ میں اُن جیسا تاریخی مقام اُن کے بعد کوئی حاصل نہ کرسکا۔ المقریزی اور العینی کے بعد بلاشبہ ابن تغری مصر کے مورخین میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ابن تغری کا حوادث لکھنے کا انداز دیگر مورخین کی نسبت زیادہ واضح اور تفصیلی ہے، یہاں تک کہ انھوں نے مختلف سالوں میں آنے والے زلزلوں کی نوعیت، تاریخ اور اِس میں موت کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد تک لکھی ہے۔ جیسا کہ 11 اکتوبر 1138ء کو حلب شام میں آنے والے زلزلے کی تاریخ بھی ابن تغری نے لکھی ہے اور اِس میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 23 ہزار لکھی حالانکہ یہ زلزلہ ابن تغری کی ولادت سے تین سو سال قبل آیا تھا مگر ابن تغری نے تحقیق اور اُس زمانے کی ماخذ کتب کے ذریعہ اِس قدر جزئیات کو بھی تاریخ میں محفوظ کیا۔ بلا شک و شبہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ابن تغری اپنی حیات کے اواخر میں ہی عرب مورخین کی فہرست میں صفِ اول میں شمار کیے گئے۔

تصانیف ترمیم

ابن تغری نے اپنی تصانیف کے قلمی نسخے اُس مقبرے کی مسجد کو فراہم کردیے تھے جو انھوں نے اپنے لیے خود بنوایا تھا۔

المنہل الصافی وَ المُسْتَوفی بعد الوافی ترمیم

ابن تغری کی پہلی اہم تصنیف المنہل الصافی وَ المُسْتَوفی بعد الوافی ہے جس میں 650ھ سے 855ھ تک یعنی 1252ء سے 1451ء تک کے سلاطین، ممتاز اُمرائے حکومت، علمائے اسلام کے سوانح حیات درج کیے ہیں، مگر بعد میں 862ھ/ 1458ء تک کچھ اضافے کیے گئے۔ اِس کتاب کا ایک مشروع خلاصہ G. Wiet نے قاہرہ سے 1932ء میں شائع کیا جو کل 480 صفحات پر مشتمل تھا۔ المنہل الصافی میں اندازًا 3 ہزار سے زائد افراد کی سوانح لکھی گئی ہے اور اِس میں مصر میں بحری مملوکوں کے سلاطین کے حالات ووَاقعات بھی تحریر کیے گئے ہیں جو سنہ 1250ء سے سنہ 1382ء تک کا احاطہ کرتے ہیں۔

النجوم الزاہرہ فی ملوک مصر والقاہرہ ترمیم

المنہل الصافی کے بعد دوسری اہم تصنیف النجوم الزاہرہ فی ملوک مصر والقاہرہ ہے جس میں سنہ 20ھ یعنی 641ء سے لے کر ابن تغری کے اپنے عہد تک یعنی 799ھ مطابق 1397ء تک کے مصر کے تاریخی واقعات ترتیب وار لکھے گئے ہیں۔ النجوم الزاہرہ پہلی مرتبہ مکمل دارالکتب المصریۃ قاہرہ سے 1348ھ مطابق 1929ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب المنہل الصافی کے لکھے جانے کے عرصہ میں ساتھ ساتھ لکھی جا رہی تھی۔ المنہل الصافی کے متعلق ابن تغری نے لکھا ہے کہ یہ کتاب میں نے اپنے لیے، اپنے دوستوں کے لیے اور خاص کر سلطان مصر جقمق کے بیٹے محمد کے لیے لکھی تھی جس میں سلطان مصر جقمق کے عہد آخر تک یعنی محرم 857ھ مطابق جنوری 1453ء تک کا حال درج کیا تھا، مگر بعد ازاں اِسے 872ھ مطابق 1467ء تک بڑھا دِیا تھا۔

طبقات ترمیم

علاوہ ازیں اِن دو کتب کتب کے ایک اور کتاب طبقات بھی مشہور ہے۔ اس کتاب کو 2 جلدوں میں چوئنبول اور ماتھیس نے لائیڈن سے 1855ء اور 1861ء کے درمیانی عرصہ میں شائع کیا۔ اِس کتاب کو تین حصوں میں منقسم کیا گیا : پہلے حصہ میں 20ھ تا 365ھ / 641ء تا 976ء تک، دوسرے حصہ میں 366ھ تا 566ھ / 977ء تا 1171ء تک، تیسرے حصہ میں 567ھ تا 872ھ / 1172ء تا 1467ء تک کے تاریخی واقعات و حالات درج کیے گئے ہیں۔ بعد ازاں 1909ء تا 1929ء کے وسطی عرصہ میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا نے اِسے شائع کیا۔ ولیم پوپر William Popper نے ابن تغری کی تاریخ میں سے سنہ 1382ء تا 1469ء تک کے تاریخی واقعات کو ترتیب وار مرتب کرکے Annals of Abul-Muhasin Ibn Taghribirdi کے نام سے 1954ء سے 1963ء کے درمیانی عرصے میں برکیلے کیلیفورنیا سے شائع کیا۔

حوادث الدہور فی مَدَی الایام وَ الشہور ترمیم

یہ 845ھ سے 12 محرم 874ھ تک یعنی 1441ء سے 16 جولائی 1469ء تک کی تاریخ ہے۔ دراصل یہ المقریزی کی السلوک لمعرفۃ دَوَل الملوک کا تکملہ ہے۔ اِس کتاب کو ادارہ عالم الکتب نے محقق محمد کمال الدین عز الدین کی تحقیق کے ساتھ 1410ھ مطابق 1990ء میں دوبارہ شائع کیا۔ حوادث الدہور کے زمانہ تصنیف کے دوران النجوم الزاہرہ کی کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا، النجوم الزاہرہ میں شخصیات، اقتصادی حالات اور سیاسی کوائف کے متعلق کافی مواد جو حوادث میں درج کر دیا تھا، انھیں حذف کر دیا۔ حوادث الدہور کو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا نے 1930ء سے 1942ء کے وسطی عرصہ میں شائع کیا، اِس کتاب میں وہ تمام مواد آگیا ہے جو النجوم الزاہرہ کی جلد ہفتم میں موجود نہیں تھا۔ دو اور ضخیم تاریخی کتب بھی جن کا ذِکر کبھی ابن تغری نے نہیں کیا اور نہ ہی اُن کے سوانح نگاروں نے کیا وہ یہ ہیں :

نزھۃ الرای ترمیم

نزھۃ الرای جو 678ھ تا 747ھ مطابق 1279ء تا 1346ء تک کی تاریخ ہے۔

البحر الزاخر فی علم الاول والآخر ترمیم

یہ 32ھ تا 71ھ مطابق 652ء تا 690ء کے تاریخی کوائف پر مبنی ہے۔ علاوہ اِن کتب کے، ابن تغری نے اپنی ضخیم کتب کے چند خلاصہ جات یا اِقتباسات بھی لکھے ہیں :[8][9][10][11][12][13][14]

  • الدلیل الشافی علی المنہل الصافی
  • کتاب الوزراء

البشارۃ فی تکملۃ الاشارۃ ترمیم

یہ امام الذھبی کی الاشارۃ کا تکملہ ہے۔

  • منشا اللطافۃ فی ذکر من ولی الخلافۃ

مورد اللطافۃ فی من ولی السلطنۃ والخلافۃ ترمیم

اِس کتاب کو لاطینی ترجمہ میں کارلائل نے 1792ء میں کیمبرج سے شائع کیا، اِس میں 842ھ یعنی 1438ء کے حالات بیان کی گئے ہیں۔

تاریخ کے علاوہ مختلف مضامین پر بھی ابن تغری بِردی نے کتب تصنیف کیں وہ یہ ہیں :

  • تحاریف اولاد العرب فی الاسماء الترکیۃ
  • الامثال السائرۃ : یہ شائع ہو چکی ہے۔

حلیۃ الصفات فی الاسماء والصناعات ترمیم

اشعار، تاریخ اور ادب کے کئی منتخب اِقتباسات پر مشتمل ہے۔

السکر القادح و العطر الفائح ترمیم

یہ کتاب صوفیانہ طرز کے منظوم اشعار پر مشتمل ہے۔ 

غناء ترمیم

یہ گیت پر ایک مختصر سا رِسالہ ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb13012884b — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb13012884b — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. دائرۃ المعارف الاسلامیہ [انسائیکلوپیڈیا آف اِسلام]: جلد 1 ص 440، تذکرہ ابن تغری بِردی۔ طبع لاہور۔ 1384ھ / 1964ء
  4. امام سخاوی: الضوء اللامع، جلد 10 ص 305۔
  5. تکملۃ براکلمان: جلد 2 ص 41۔
  6. دائرۃ المعارف الاسلامیہ [انسائیکلوپیڈیا آف اِسلام]: جلد 1 ص440، تذکرہ ابن تغری بِردی۔ طبع لاہور1384ھ/ 1964ء
  7. دائرۃ المعارف الاِسلامیہ [ اں سائیکلوپیڈیا آف اسلام] : جلد 1 ص 442۔ طبع لاہور 1384ھ/ 1964ء۔
  8. احمد المرجی: در النجوم، جلد 1 ص 9، طبع قاہرہ مصر۔
  9. امام سخاوی: الضوء اللامع، جلد 10 ص 305 تا 308۔
  10. ابن العماد : شذرات الذھب جلد 7 ص 317، طبع دوم 1351ھ جلد 4 ص 349۔
  11. ابن ایاس: بدائع، جلد 3 ص 43۔
  12. براکلمان: تکملہ براکلمان، جلد 2 ص 39، ص 89 تا 105۔ جلد 2 ص 41۔ جلد 2 ص 39۔
  13. حاجی خلیفہ : کشف الظنون، اشاریہ 4301 طبع یالتقایا۔
  14. الشوکانی : البدرالطالع، جلد 2 ص 351۔