احمد بن شعیب نسائی

مدون حدیث

امام نسائی (پیدائش: 829ء— وفات: 28 اگست 915ء) کتب ستہ میں موجود سنن نسائی کے مؤلف اور محدث ہیں۔

امام  ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
احمد بن شعیب نسائی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 829ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسا، ترکمانستان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 28 اگست 915ء (85–86 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فلسطین  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن یروشلم  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک شافعی
عملی زندگی
استاذ ابو داؤد،  اسحاق بن راہویہ،  عبد اللہ بن احمد بن حنبل،  ابویعلیٰ الموصلی،  علی بن حرب  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص ابن حبان  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث،  فقیہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث،  فقہ  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں سنن نسائی  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب ترمیم

امام نسائی آپ کا نام " احمد " اور کنیت ابو عبد الرحمان۔ اور والد کا نام شعیب ہے۔ پورا نسب یوں ہے: احمد ابن شعیب ابن علی ابن بحر ابن سنان ابن دینار النسائی۔ ابو عبد الرحمن کنیت ہے، لقب حافظ الحدیث ہے۔ نام: احمد بن شعیب بن یحییٰ بن سنان بن دینار نسائی خراسانی ہے۔ شہر مرو کے قریب ”نساء“ ترکمانستانمیں 214ھ میں ولادت ہوئی، اسی کی طرف منسوب ہوکر ”نسائی“ اور کبھی ”نسوی“ کہلاتے ہیں۔

حصول علم ترمیم

اپنے دیار کے شیوخ سے اخذِ علم کے بعد، 230ھ میں قتیبہ بن سعید کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دوسال استفادہ کیا، اس کے علاوہ خراسان، عراق، حجاز، جزیرہ، شام اور مصر وغیرہ مختلف مقامات کا سفر کیا، اس کے بعد مصر میں سکونت اختیار کرلی اور افادہ وتصنیف میں مشغول رہے۔ ذی قعدہ 302ھ میں مصر سے دمشق آگئے۔[3]

قوت حافظہ ترمیم

امام نسائی کو اللہ عز وجل نے غیر معمولی قوت حافظہ سے مالا مال کیا تھاحضرت امام ذہبی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ سے دریافت کیا کہ امام مسلم اور امام نسائی میں سے حدیث کا زیادہ حافظ کون ہے؟ تو فرمایا: امام نسائی

زہدوتقوی ترمیم

آپ زہد وتقویٰ میں ضرب المثل تھے، ہمیشہ صوم داؤدی کے پابند رہے، دن ورات کا بیشتر حصہ عبادت میں گزرتا اور اکثر حج کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے، امرا و حکام کی محفلوں سے ہمیشہ گریزاں رہتے، حسنِ سیرت کے ساتھ حسنِ صورت کے بھی مالک تھے، چہرہ نہایت روشن، رنگ نہایت سرخ وسفید اور بڑھاپے میں بھی تروتازہ نظر آتے، چار بیویاں اور دو باندیاں تھیں۔

اساتذہ ترمیم

امام نسائی نے طلب حدیث کے لیے حجاز، عراق، شام، مصر وغیرہ کا سفر کیا اور اپنے دور کے مشائخ عظام سے استفادہ فرمایا۔ آپ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ آپ نے ١٥ برس کی عمر ہی سے تحصیل علم کے لیے دور دراز علاقوں کا سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔ آپ کے نامور اساتذہ کرام میں سے امام بخاری، امام ابوداؤد، امام احمد، امام قتیبہ بن سعید، وغیرہ معروف ہیں۔ اس کے علاوہ امام بخاری کے توسط سے آپ کے اساتذہ کا سلسلہ سراج الائمہ، امام اعظم، سرتاج الاولیاء ابوحنیفہ بن نعمان بن ثابت سے بھی جا ملتا ہے، جس کا تذکرہ یہاں باعث طوالت ہو گا۔

تصانیف ترمیم

امام نسائی نے مجاہد و ریاضت اور زہد و ورع کے ساتھ ساتھ جہاد ایسی مصرفیات کے باوجود متعدد کتب تصنیف کیں، جن کا اجمالی ذکر یوں ہے :

  1. سنن کبریٰ
  2. المجتبیٰ
  3. خصائص علی
  4. مسند علی
  5. مسند مالک
  6. کتاب التمیز
  7. کتاب المدلسین
  8. کتاب الضعفاء
  9. کتاب الاخوۃ
  10. مسند منصور
  11. مسیخۃ النسائی
  12. اسماء الرواۃ
  13. مناسک حج

سنن نسائی ترمیم

علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ ذخیرہ احادیث میں یہ بہترین تصنیف ہے۔ اس سے قبل ایسی کتاب موجود نہ تھی۔ علامہ سخاوی فرماتے ہیں : بعض علما سنن نسائی کو روایت و درایت کے اعتبار سے صحیح بخاری سے افضل گردانتے ہیں۔ ابن رشید تحریر کرتے ہیں۔ جس قدر کتب حدیث سنن کے انداز پر مرتب کی گئی ہیں، ان میں سے سنن نسائی صفات کے اعتبار سے جامع تر تصنیف ہے کیونکہ امام نسائی نے امام بخاری اور امام مسلم کے انداز کو مجتمع کر دیا ہے۔

وفات ترمیم

امام نسائی جب مصر سے رملہ اور دمشق پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ بنی امیہ کے زیراثر ہونے کی وجہ سے یہ پورا خطہ خارجی افکار ونظریات کی زد میں ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کی کھلے عام تنقیص کی جاتی ہے، یہ دیکھ کر امام نسائی کو بڑا رنج ہوا اور انھوں نے حضرت علی کے مناقب میں ایک کتاب خصائص علی تالیف فرمائی، پھر خیال ہوا کہ اس کتاب کو جامعِ دمشق میں سنائیں ؛ تاکہ لوگوں کی اصلاح ہو اور خارجیت کے اثرات ختم ہوں۔ ابھی آپ نے کتاب کا کچھ ہی حصہ سنایا تھا کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر اعتراض کیا کہ آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی کچھ لکھا ہے؟ آپ نے جواب دیا: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہی کافی ہے کہ ان کو نجات مل جائے، بعض کہتے ہیں یہ جملہ بھی کہا کہ میرے نزدیک ان کے مناقب بیان کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ سن کر لوگ مشتعل ہو گئے، آپ پر تشیع کا الزام عائد کرکے لاتیں مارنا شروع کر دیا۔ آخر اتنا ماراکہ آپ نیم جان ہو گئے۔ خادم اٹھاکر گھر لائے، آپ نے ان سے فرمایا: مجھے ابھی مکہ مکرمہ لے چلو، وہاں پہنچ کر مروں یا راستے میں موت آجائے۔ غرض کہ مکہ مکرمہ پہنچ کر انتقال ہوا اور صفا ومروہ کے درمیان مدفون ہوئے، بعض کا خیال ہے کہ راستے میں ہی انتقال ہوا۔ وہاں سے مکہ مکرمہ لے جاکر تدفین ہوئی، تاریخ وفات 13/صفرالمظفر 303ھ ہے۔[4][3] بہرحال امام موصوف کی یہ عظیم تصنیف آج عالم اسلام کی ہر ایک دینی درسگاہ میں دورہ حدیث میں داخل شامل نصاب ہے اور اپنی انفرادی اور امتیازی خصوصیت اور طرز نگارش کے اعتبار سے بلاشبہ بخاری ومسلم کی طرح اہمیت سے پڑھائی جانے کے درجہ میں ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/11946263X — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اگست 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. بنام: Aḥmad ibn Shuʻayb Nasāʼī — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/33533 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. ^ ا ب ماہنامہ دار العلوم ،اكتوبر 2014ء،اشرف عباس قاسمی
  4. سیر أعلام النبلاء 11/197، بستان المحدثین/189