اردن میں پورا حکومتی نظام آئینی بادشاہت کے تحت چلتا ہے۔ وزیراعظم اردن حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ اردن کثیرالجماعت ملک ہے جہاں سیاست کی باگ ڈور میں مختلف سیاسی جماعتیں حصہ لیتی ہیں۔ تاہم ان سب میں بادشاہ سب سے زیادہ با اختیار ہوتی ہے۔ 8 جنوری 1952ء کے بعد سے اردن ایک آئینی بادشاہت ہے۔

حکومت ترمیم

انتظامی ترمیم

اہم عہدیدار
دفتر نام جماعت از
فہرست شاہان اردن عبداللہ دوم
وزیراعظم عبداللہ النسور آزاد 11 اکتوبر 2012ء

حکومت میں سب سے زیادہ بااختیار عہدہ اردن کے بادشاہ کا ہے۔ بادشاہ ججوں کی تقرری اور برطرفی کر سکتا ہے۔ آئین میں ترمیم کے لیے بھی بادشاہ کی اجازت لازمی ہے۔ اعلان جنگ کرنا،افواج کو احکامات جاری کرنا، کابینے میں فیصلے کرنا، عدالتوں میں اہم فیصلوں کی توثیق کرنا اور قومی کرنسی جاری کرنا، یہ سب بادشاہ کے اختیارات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پہلے کابینہ بھی بادشاہ منتخب کرتا تھا، 2011ء میں عوامی مظاہروں کے بعد بادشاہ عبداللہ دوم نے فیصلہ کیا کہ کابینہ عوامی اُمنگوں کے مطابق جمہوری طریقے سے منتخب کیا جائے گا۔ کابینے کی سربراہی وزیر اعظم کرتے ہیں۔ اگر ایوان کی دو تہائی ارکان کابینہ پر تحریک عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں تو لازمی طور پر کابینہ کو استعفیٰ دینا ہوگا۔

قانون ساز ترمیم

اردن دو ایوانی ملک ہے جہاں قانون سازی دو ایوان کرتے ہیں ایک قومی اسمبلی (مجلس الامہ) اور دوسرا سینیٹ (مجلس النواب) ہے۔ قومی اسمبلی کے 150 جبکہ سینیٹ کے 60 ارکان ہیں۔ قومی اسمبلی عوامی رائے سے منتخب ہوتی ہے جبکہ سینیٹ کے اراکین کا انتخاب بادشاہ کرتا ہے۔

عدلیہ ترمیم

انتظامی تقسیم ترمیم

انتظامی طور پر اردن بارہ صوبہ جات (محافظات) میں منقسم ہے اور ہر صوبے کا سربراہ گورنر ہوتا ہے جس کی تقرری بادشاہ کرتا ہے۔ ان گورنروں کو بادشاہ کی جانب سے ترقیاتی اور دیگر تمام اہم اداروں میں اختیارات دیے گئے ہیں۔ اردن کے بارہ صوبہ جات (عربی : محافظات) درج ذیل ہیں :

  1. عجلون
  2. عقبہ
  3. محافظہ بلقاء
  4. الکرک
  5. مفرق
  6. عمان (شہر)
  7. طفیلہ
  8. زرقاء
  9. اربد
  10. جرش
  11. معان
  12. مادبا