اسقاط حمل پر بحث (انگریزی: Abortion debate) انسانی سماج میں تقریبًا ہر دور سے جاری تنازع کا موضوع ہے جس میں حمل کو ساقط کرنے کے اخلاقی، قانونی، مذہبی اور اسی طرح سے سماجی اور سیاسی پہلوؤں پر بحث ہوتی رہی ہے۔ [1] دنیا کے کچھ ملکوں میں اسقاط حمل سیاسی اور سماجی طور پر قابل قبول تسلیم کیا جا چکا ہے۔ کچھ ملکوں میں یہ غیر قانونی بھی ہے اور کچھ ملکوں میں اسقاط حمل محدود شرائط کے ساتھ قابل قبول ہے۔

سماجی اور قانونی پابندیوں کے منفی اثرات ترمیم

اسقاط حمل کے لیے اگر چیکہ مختلف خواتین کی پیش قدمی کے اسباب مختلف ہیں، تاہم ایک ایک عام سبب ناچاقی حمل سے چھٹکارا پانا ہے۔ یہ حمل کسی خاموشی سے اور رضا مندی سے کیا جانے والا جنسی حمل بھی ہو سکتا ہے اور کسی آبرو ریزی کی شکار خاتون کا سماج میں نو مولود کی عدم قبول اور بدنامی سے بچنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ اس معاملے میں جہاں اسقاط حمل کی اجازت قانونًا نہ ہو یا بہت ہی استثنائی معاملات میں ہو، اسقاط حمل اکثر چوری چھپے انجام پاتا ہے، جو عورتوں کی صحت کے لیے مضر بھی ہوتا ہے اور جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ اسقاط حمل پاکستان میں غیر قانونی ہے۔ اسٹیل ہینگر اور افیون، پاکستان میں زیادہ تر خواتین کے لیے غیر مطلوبہ حمل ختم کرنے کے حربے ہیں۔ ان حربوں اور اس جیسی کوششوں کی وجہ سے کئی خواتین مہلک انفیکشن کا شکار ہوتی ہیں۔[2] یہی کیفیت دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی دیکھی گئی ہے جہاں اسقاط حمل کی نہ تو قانونی اجازت ہے اور نہ ہی سماج میں قابل قبول سمجھا گیا ہے۔


مزید دیکھیے ترمیم


حوالہ جات ترمیم